Aqaid Ahle Sunnat

عقائد اہلسنت

1۔ مسلمانوں کا اتحاد علماء اور جماعتوں پر نہیں بلکہ قرآن و سنت پر ہو سکتا ہے کیونکہ دین اللہ کے قرآن و حضور ﷺ کے فرمان (احادیث) کا نام ہے جس پر صحابہ کرام اور اہلبیت نے امامت ابوبکر، باغ فدک، منکرین زکوۃ، منکرین ختم نبوت، قیصر و کسری کی فتح، جمل و صفین، سیدنا علی و معاویہ ، سیدنا حسن و معاویہ اور سیدنا حُسین رضی اللہ عنھم تک کے مسائل و آزمائشوں میں عمل کر کے دکھایا، اسلئے سب سے بہترین دور حضور ﷺ، اُس کے بعد صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کا ہے اور صحابہ کرام اور اہلبیت میں فرق کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔

2۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور کے بعد سلطنت عثمانیہ کے 625 سالہ دور کو بھی خلافت اور اجماع امت کا دور کہا جاتا ہے کیونکہ اُس سے پہلے تین براعظم پر مسلمانوں کی حکومت نہیں ملتی۔ اس دور میں خانہ کعبہ کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے 10 عقائد منظور کئے جو فتاوی رضویہ کی جلد 29 صفحہ نمبر 339 پر تحریرہیں۔ مفصل عقائد کے مطالعہ کے لئے کمنٹ سیکشن میں لنک موجود ہے۔

قانون نمبر1 یعنی عقیدۂ ِ اُولیٰ: اس عقیدے کے مطابق اللہ کریم کی ذات و صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔

نبی کریم ﷺ کو کسی اہلسنت عالم نے عالم الغیب نہیں کہا بلکہ اللہ کریم نے جو علم غیب دیا اور آپ نے بیان فرمایا اُس عطائی علم غیب کا مالک کہا۔ دوسرا حضورﷺ شاہد (حاضر ناظر) ہیں جنہوں نے کل قیامت والے دن گواہی دینی ہے، اب شاہد کسطرح گواہی دے گا، دیکھتا ہے، دکھایا جاتا ہے یا دکھایا جائے گا، اس پر اختلاف ہے جو ایک فروعی مسئلہ ہے۔ اللہ کریم مُختار کُل ہے اور نبی کریم ﷺ دین کو بیان کرنے میں باذن اللہ مُختار کُل ہیں۔ چوتھا اللہ کریم لم یلد و لم یولد ہیں اور نبی کریم ﷺ کامل مکمل اکمل بشر ہیں اور اللہ کریم کی جنس سے نہیں ہیں اور نور آپ کی صفت ہے۔ اسی طرح استمداد، توسل، استغاثہ کی احادیث پر عمل کرنا توحید کے خلاف نہیں ہے۔

قانون نمبر2 یعنی عقیدۂ ِ ثانیہ: حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنا جُرم ہے۔

قانون نمبر3 یعنی عقیدۂ ِ ثالثہ: انبیاء کرام میں سے کسی کی شان میں ”گستاخی“ کرنا دین سے خارج ہونا ہے۔

قانون نمبر4 یعنی عقیدۂ رابعہ: حضرت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیھم السلام اللہ کریم کے رسول فرشتے ہیں اُنکی شان میں ”گستاخی“ کرنا بھی جرم ہے۔

قانون نمبر5 یعنی عقیدۂ خامسہ: اہلبیت اور صحابہ کرام دونوں معصوم نہیں ہیں لیکن ان کی توہین کرنا اہلسنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔

قانون نمبر6 یعنی عقیدۂ ِ سادسہ: عشرہ مبشرہ (دس جنتی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) اور چاروں خلفاء کرام سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی کی توہین جُرم ہے۔

قانون نمبر7 یعنی عقید ہ سابعہ: اہلبیت کے اہلبیت سے ”معاملات“ جیسے سیدہ عائشہ کی سیدنا علی سے جمل کی لڑائی، سیدہ فاطمہ کا باغ فدک کا مسئلہ، اہلبیت کے صھابہ کرام سے معاملات جیسے امامت ابوبکر یا حضرت معاویہ کی سیدنا علی سے سے صفین کی لڑائی، صحابہ کرام کا صحابہ کرام کے ساتھ اختلاف پر اہلسنت نے قانون بنایا کہ قرآن نے صحابہ کرام کو جنتی فرمایا اور حضور نے صحابہ کی تعریف کی، اسلئے اہلبیت اور صحابہ کرام کے ”معاملات“ میں خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ کسی ایک کا ساتھ دیں گے تو دوسرے کو کیا نعوذ باللہ ظالم ثابت کریں گے؟

قانون نمبر8 یعنی عقیدۂ ِ ثامنہ: اجماع صحابہ کے مطابق سیدنا ابوبکر سیدہ فاطمہ و سیدنا علی کے امام ہیں،اسلئے امامت ابوبکر کے مُنکر کو مسلمان نہیں کہتے۔ دما دم مست قلندر علی دا پہلا نمبر یا روحانی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلند کرکے پہلے نمبر پر بھی لانا جائز نہیں۔

قانون نمبر9 یعنی عقیدۂ ِ تاسعہ: ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کے ماننے سے کوئی مسلمان ہوتا ہے اور جن میں سے کسی ایک کے انکار سے بھی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

قانون نمبر10 یعنی عقیدۂ عاشرہ: قانون شریعت و طریقے کے مطابق صوفی شریعت کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتا۔ کتابوں میں سب سے اوپر قرآن پھر احادیث پھر فقہاء کی کتابیں اور اُس کے نیچے تصوف کی کتابیں آتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق صوفی قرآن و احادیث کے خلاف نہیں ہو سکتا اور صوفی پیر فقیر کے لئے قرآن و احادیث اور فقہ کا علم ضروی ہے ورنہ وہ صوفی نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ وحدۃ الوجود یا فلسفہ وحدۃ الشہود پر بحث فضول ہے کیونکہ یہ عام آدمی کو گمراہ کرتی ہے۔

تعلیم: دیوبندی اور بریلوی دونوں کی تعلیم ایک ہے جس کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا اور اہلحدیث بھی کہتے ہیں، دیوبندی اور وہابی کا فرق دیوبندی علماء کی کتاب "المہند علی المفند” میں پڑھ سکتے ہیں جس کا لنک کمنٹ سیکشن میں موجود ہے اور جو اس تعلیم کے خلاف ہے وہ دیوبندی نہیں بلکہ وہابی ہے جو اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک کہہ رہا ہے۔

علماء: خلافت عثمانیہ کے دور کے محدثین کے نام امام حجر عسقلانی، بدرالدین عینی، جلال الدین سیوطی، حجر مکی، ملا قاری، یوسف نبہانی، شمس الدین دمشقی، زرقانی، عابدین شامی ، مجدد الف ثانی، احمد قسطلانی، عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، فضل حق خیر آبادی رحمتہ اللہ علیھم ہیں۔

وہابی علماء: اُس کے بعد کا دور سعودی عرب کے وہابی علماء کا ہے جنہوں نے 625 سالہ خلافت عثمانیہ کے دور کو بدعت و شرک کا دور کہا مگر یہ نہیں بتایا کہ اہلسنت علماء کرام کے دور میں بدعت و شرک کونسا سکھایا گیا؟؟ اہلحدیث حضرات سعودی عرب کے ساتھ ہیں مگر غیر مقلد ہیں اور وہابی علماء حنبلی ہیں مگر کیا تقلید کے قانون کے مطابق امام حنبلی کی فقہ کے اصول و فروع کے مطابق فتوی دیتے ہیں یا رافضیوں کی طرح وہابی اور اہلحدیث تقیہ بازی کر رہے ہیں۔ اہلحدیث کو چاہئے کہ یا تو حنبلی ہو جائیں یا وہابی غیر مقلد ہو جائیں تاکہ ایک مسلمان بنیں۔

اعمال: ہماری سوچ یہ ہے کہ اگر ان اعمال (پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، قبے گنبد، ایصال ثواب، توسل، استغاثہ،استمداد ) پر دیوبندی اور بریلوی عمل نہ کریں تو مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں کیونکہ عقائد ایک ہیں مگر یہ بات عوام کو اب سمجھنی سمجھانی ہو گی علماء کے بس کی بات نہیں۔

فقہ: قرآن و سنت کے بعد فقہ ہے یعنی امام ابوحنیفہ، شافعی، مالکی، حنبلی نے قرآن و سنت کے خلاف نہیں بلکہ جو مسئلہ قرآن و سنت میں سمجھ نہ آ رہا ہو یا قرآن و سنت کے بعد نیا مسئلہ ہو اُس کو سمجھنے کے لئے فقہ کے قانون بنائے۔ فقہ عقائد کے فرق کو نہیں بلکہ مسائل میں فرق کو کہتے ہیں۔ اسلئے پوسٹ پر لگی تصویر میں قرآن و سنت کے مطابق، ساری دنیا کی اہلسنت عوام کے لئے، چار طریقوں سے خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کے لئے چار جگہیں مقرر کیں جس کو چار مصلے کہتے ہیں۔

قانون: مرزا انجینئر، مودودی صاحب، بابا اسحاق، پیر عبدالقادر جیلانی راولپنڈی، پیر ریاض شاہ، طارق جمیل، ڈاکٹر طاہرالقادری، حنیف قریشی صاحبان، نعت خوان جو بھی ان عقائد کے خلاف ہے وہ اہلسنت نہیں ہو سکتا۔ دوسراجو کوئی بھی خلافت عثمانیہ کے دور سے پہلے کے دور کی بات کرے فساد برپا کر رہا ہے کیونکہ اُس دور سے پچھلا دور ایک دوسرے سے متصل کنیکٹڈ ہے لیکن وہابی علماء پچھلے دور سے متصل نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے سے بارہ سو سال پہلوں کا انکار کیا ہے۔

کتابیں: صحاح ستہ کے محدثین کی تاریخ پیدائش اور وفات یہ ہے : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی) اور
امام جعف رسے منسوب کتابیں (1) الکا فی ابو جعفر کلینی 330ھ نے (امام سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ امام سے تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً امام سے 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

نتیجہ: حضور ﷺ، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی احادیث اہلتشیع حضرات کے پاس نہیں ہیں اور امام جعفر سے منسوب کتابیں بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے، راوی ، سند اور متن تبدیل کر کے بے بنیاد دین بنایا گیا ہے۔ مسلمانوں میں اختلاف کی جڑ یہ غیر مسلم اہلتشیع ہیں۔

اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی اپنی تعلیم اور اپنی نسبت بتائیں تو معلوم ہو گا کہ اختلاف دیوبندی کا وہابی علماء کی طرف جھکاو اور بریلوی حضرات کا رافضیت کی طرف جھکاو ہے مگر دونوں کو ایک کرنا ہو تو علماء اور جماعتیں درمیان سے نکال کر پوچھا جائے کہ اہلسنت کے عقائد، فروعی مسائل اور مستحب اعمال کیا ہیں۔ دیوبندی اور وہابی میں فرق کیا ہے؟ حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ عقل والوں کے لئے اس پوسٹ میں نشانیاں ہیں۔

شعور: کیا ابھی بھی مسلمان دین کو اکٹھا نہیں کریں گے تو اپنی نسلوں کو کیا دے کر جائیں گے؟؟ کیا ہر کوئی اپنی حد میں رہ کر کوشش نہیں کرے گا؟ ہر کوئی نبی کا امتی بن کر اپنے دین کو نہیں بچائے گا؟ ہر ایک ، ہر ایک اور ہر ایک۔ ہم نے ہر ایک میں سے ایک ہو کر ایک اللہ کے لئے کام کیا ہے، اب ہر ایک ایک کے لئے کر کے دکھائے۔

                        

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general