کیا عاشقِ رسول کہنا جائز ہے؟

کیا عاشقِ رسول کہنا جائز ہے؟

 

ایک بندے نے کہا کہ "عشق” لفظ محبت کا گھٹیا درجہ ہے جس میں ہوس ہے، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنی بیٹی یا بہن سے عشق کرتا ہوں۔ اسلئے جب محبت رسول ﷺ کی بات ہو تو عشقِ رسول یا عاشقِ رسول ﷺ نہیں بلکہ محبتِ رسول اور محبِ رسول ﷺ کہنا ایک پکے سچے سُنی کی علامت ہے مگر اس بندے کی اس بات کا جواب یہ ہے:

۱) الفاظ کسی کی کیفیت کو سمجھنے سمجھانے کا نام ہے اور ہر کوئی کسی کی کیفیت کو سمجھ بھی نہیں سکتا، اسلئے معاشرے میں ہر ایک کی نیت پر شک کیا جاتا ہے اور کوئی بندہ اپنی نیت صاف بتا کر دھوکہ بھی دے جاتا ہے۔البتہ کسی سے بھی دلی تعلق جب انتہائی درجے کو پہنچتا ہے تو پھر دیوانگی کا عمل شروع ہوتا ہے، یہ ایک وجدانی کیفیت ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور اس مقام کو عشق کہتے ہیں۔

۲) اگر عشق لفظ غلط ہے تو محبت کا لفظ بھی غلط ہے جیسے اگر کوئی اپنی ماں یا بہن سے محبت کرتا ہے تو یہ الفاظ کبھی نہیں کہے گا کہ تم میری محبوبہ ہو اور اُس کے لئے غزل، گیت یا گانے نہیں گائے گا۔ اسلئے اگر عشق کا لفظ ماں کے لئے نہیں تو محبت کا لفظ بھی ماں یا بہن کے لئے بولنا جائز نہ ہو گا۔

۳) سیدنا صدیق اکبر کے لئے ”یار غار“ کا لفظ بولا جاتا ہے حالانکہ یار کا لفظ معاشرے میں اچھے اور بُرے دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن سیدنا ابوبکر کے لئے ”یار“ کے لفظ پر برا خیال نہیں آئے گا۔ سندھی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو کہ پنجابی زبان میں گالی بن جاتے ہیں، اسلئے جس جگہ الفاظ غلط معنی دیں وہاں وہ الفاظ نہیں بولنے چاہئیں۔

۴) کتابوں میں علماء، اولیاء نے حضور ﷺ کی محبت کیلئے “ عشق“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور شاعر علامہ اقبال صاحب نے بھی کہا ”قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے۔۔ دھر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے“۔

۵) ایک بندے نے ایک بزرگ سے کہا کہ مجھے ایک لڑکی سے پیار ہو گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس کے جسم کے ساتھ یا اُس کی روح کے ساتھ، کہنے لگا میں سمجھا نہیں۔ فرمانے لگے جسم کے ساتھ پیار کا مطلب ہے کہ جنسی ضرورت کو پورا کرنا اور روح کے ساتھ پیار میں جسم شامل نہیں ہوتا۔ اسلئے عشق اور ہوس میں فرق ہے، ہوس کو عشق مجازی کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا اور عشق حقیقی کے قابل صرف اللہ تعالی اور حضور ﷺ ہیں۔

۶) بعض اوقات اللہ کریم سے بھی محبت کا دعوی اُس وقت کیا جاتا ہے جب ضرورتیں پوری ہورہی ہوں ورنہ آزمائش کے وقت شکوہ شکایت شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ اللہ کریم کی محبت کا نشہ جسے ہو جاتا ہے، اُس کی زبان سے کربلہ میں بھی ”سِی“ نہیں نکلتی کیونکہ اُسے محبت کے نشے کا ٹیکہ لگا ہوتا ہے۔

۷) سعودی عرب کے وہابی علماء اور اہلحدیث حضرات نے مجازی الفاظ کو حقیقی الفاظ کے معنی پہنا کر مسلمانوں کو بدعتی و مشرک بنایا جیسے

8)۔ حقیقی اور مجازی آیات میں بھی فرق ہوتا ہے جیسے ان تینوں قرآنی آیات رب العالمین (فاتحہ) ربہ خمرا (یوسف) اور رب الرحمھما کما ربینی صغیرا (بنی اسرائیل) میں لفظ ’’رب‘‘ اللہ ، سردار اور والدین کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اب والد یا سردار کو ”الہ“ سمجھ کر رب مانا جائے تو شرک ہے مگر کوئی ایسا نہیں سمجھتا، اسی طرح کسی کو داتا، غوث، غریب نواز کہنا ”الہ“ سمجھ کر ہو تو شرک ہے ورنہ نہیں۔
ان تینوں قرآنی آیات رب العالمین (فاتحہ) ربہ خمرا (یوسف) اور رب الرحمھما کما ربینی صغیرا (بنی اسرائیل) میں لفظ ’’رب‘‘ اللہ ، سردار اور والدین کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اب والد یا سردار کو ”الہ“ سمجھ کر رب مانا جائے تو شرک ہے مگر کوئی ایسا نہیں سمجھتا، اسی طرح کسی کو داتا، غوث، غریب نواز کہنا ”الہ“ سمجھ کر ہو تو شرک ہے ورنہ نہیں۔

نتیجہ: اگر کوئی عاشق رسول کی جگہ محب رسول کہلانا چاہے تو جائز ہے مگر عاشق رسول کے لفظ کو حرام یا ناجائز کہنا جائز نہیں۔

اتحاد امت: مسلمان اپنے نام کے لئے نہ مریں تو ایک جماعت ہیں کیونکہ تعلیم ایک ہے جیسے دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے۔ اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے اور بدعت و شرک کس عالم نے نہیں سکھایا۔ البتہ سعودی وہابی علماء جو اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے، کا پراپیگنڈا ہے کہ اہلسنت علماء بدعتی و مشرک ہیں لیکن اہلسنت علماء سے ملکر بات نہیں کرتے۔ یہی حال پاکستان کے علماء کا ہے کہ عوام کو تعلیم نہیں دیتے کہ ایک کیسے ہوا جا سکتا ہے جس پر بے بنیاد دین اہلتشیع جن کے پاس نبی کریم ﷺ کی کوئی احادیث کی کتابیں نہیں ہیں یعنی اہلتشیع دین اسلام کے مخالف دین ہے جس کا کام منافقت سے مسلمانوں کے اندر شک پیدا کرنا ہے۔

2 Comments
Show all Most Helpful Highest Rating Lowest Rating Add your review

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general