ضروریاتِ دین
ضروریاتِ دین وہ احکام و مسائل ہیں جن کا ثبوت قرآن کی آیتوں اور حضور ﷺ کے فرمان میں اتنا واضح ہوتا ہے کہ اس میں شک ہو ہی نہیں سکتا، ایسے حکم کے متعلق آئیں بائیں شائیں نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی علماء اور فقہاء کا بھی اُس حکم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہوتا ہے، اسلئے ایسے کسی حُکم کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں رہتا۔
ضروریات دین میں شامل ہے کہ اللہ کریم کو ایک ماننا اور کسی کو اُس کا شریک نہ ماننا، تمام رسولوں پر ایمان لانا، فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا، تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا،نماز و روزہ و زکوۃ و حج کی فرضیت پر ایمان لانا، جنت و دوزخ و حشر و نشر پر ایمان لانا، ثواب و عذاب پر ایمان لانا، جن و شیطان کے وجود پر ایمان لانا، اللہ کریم کا ہاتھ اور جسم سے پاک ہونا، اللہ کریم کا علم ذاتی اور باقی تمام رسولوں کا علم اللہ کریم کی عطا سے ہے، حضور اقدس ﷺ کوخاتم النبیین جاننا، قرآن کریم کو کلام الہی جاننا، انبیاء کرام کو تمام عوام سے افضل ماننا، نبی کو ولی سے افضل جاننا، مسلمان کو مسلمان اور کا فر کو کا فر جاننا، غصب و چوری و شرا ب و سود وغیرہ کو حرام ماننا، بیوی کی وراثت کو ماننا وغیرہ
شعور: عام آدمی کو سمجھنا چاہئے کہ علماء کرام جن احکام کو "ضروریات دین” کہیں اُس کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔
ضروریات اہلسنت: بعض احکام ومسائل قرآن و سنت کے دلائل سے ثابت ہوتے ہیں مگر ان میں تاویل کی جا سکتی ہے، اسلئے ان مسائل کے انکار کرنے والے کو گمراہ یا بددین کہاجاتاہے۔
ضروریات اہلسنت میں شامل ہے کہ اللہ جل شانہ کا جسم و جسمانیات سے پاک و منزہ مانا جائے، حضور ﷺ کو اللہ کریم نے بعض علوم غیب عطا فرمائے، اسی طرح بعض ولیوں کو انبیاء کرام کے وسیلے سے کشف یا غیب کا علم ہو جاتا ہے، یدیز کو فاسق و فاجر جاننا، سیدنا حسین کو حق پراور مظلوم جاننا، دوسرا یدیز کے فاسق ہونے سے انکاراور سیدنا حسین پر الزام یہ اہلسنت کے ضروریات کے خلاف ہے، انبیاء کرام کی برزخی حیات کو اس دنیا سے بہتر جاننا وغیرہ
بعض دیگر مسائل اور ان کے احکام
ان دونوں (ضروریاتِ دین اور ضروریاتِ مذہب ِ اہلِ سنت ) کے علاوہ بعض مسائل وہ ہیں جن میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے ، ان میں کسی کی تکفیر یا تضلیل ممکن نہیں:
عالم الغیب: نبی کریم ﷺ کے لئے کسی اہلسنت عالم نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا، البتہ اختلاف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو کتنا غیب کا علم ہے، کتنا مشاہداتی ہے اور کتنی صرف خبر دی گئی، اسلئے یہ اختلافی مسئلہ ہے علماء کے درمیان،
حاضر ناظر: قرآن میں حاضر ناظر نہیں بلکہ شاھد ،شہید وغیہ کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اسلئے گواہ نے گواہی دیکھ کر دینی ہے تو کیا ہر وقت دیکھ رہا ہے، بعض اوقات دکھا دیا جاتا ہے یا کل حشر کے دن دکھا دیا جائے گا۔ اسلئے یہ بحِ اختلافی مسئلہ ہے۔
مختار کل: اللہ کریم جو چاہے کر سکتا ہے، البتہ حضور ﷺ اللہ کریم کی عطا سے قرآن کی تشریح بیان کرنے میں مختار کُل ہیں کیونکہ اللہ کریم کے حکم سے کرتے ہیں مگر نبی کریم ﷺ اللہ کریم کے برابر نہیں ہیں۔
نور و بشر: اسلئے بشر ہیں اور اللہ کریم کی جنس سے نہیں ہیں، اللہ کریم لم یلد و لم یولد ہے۔
اہلتشیع کے اصول دین: اصول دین کو عقائد بھی کہا جاتا ہے۔ اہل تشیع کے مطابق اصول دین پانچ ہیں جو دین کے بنیادی ارکان ہیں۔ توحید ،عدل، نبوت، امامت اور قیامت جبکہ اہل سنت کے نزدیک دین کے بنیادی رکن تین ہیں: توحید، نبوت اور قیامت۔
اہلتشیع ایک بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہلتلشیع نبوت اور امامت میں فرق بیان کر ہی نہیں سکتا۔ ان کا نبی اور امام ایک ہی درجے کے ہیں۔ اہلتشیع کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ رسول اللہ کو نہیں مانتے کیونکہ ان کے پاس نبی کریم کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی احادیث کی کوئی کتابیں نہیں ہیں۔ یہ امام جعفر صادق کے قول کو حدیث کہتے ہیں جو اہلسنت کے نزدیک اہلسنت کی کتابوں سے چوری کر کے اقوال بنائے گئے ہیں۔
نتیجہ: جس دین میں نبی کریم کی احادیث کی کتابیں ہی نہ ہوں، اُس دین کو بے بنیاد، بے دین، گمراہ، غیر مسلم بلکہ جو مرضی نام دے سکتے ہیں مگر دین اسلام نہیں کہہ سکتے۔
اہم بات: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے اور اسلئے اب سعودی عرب کے وہابی علماء نے دیوبندی پر بدعتی و مشرک ہونے کا الزام لگا کر پابندی لگائی ہے۔ اب دیوبندی جو اپنے مفاد کے لئے ان کے ساتھ تھے، اہلسنت میں آتے ہیں تو ثابت کریں کہ وہابی المہند کتاب کے مطابق خارجی ہیں یا نہیں؟ دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کفر کا فتوی لگا یا نہیں۔ اب وہابیت کا دفاع کرنا ہے یا اپنے اکابر کے عقائد اہلسنت کا؟
سوال: اہلحدیث پرسعودیہ اسلئے پابندی نہیں لگاتا کہ یہ وہابی ہیں مگر رافضیوں کی طرح تقیہ بازی ہے کہ پاکستان میں یہ غیر مقلد ہیں اور سعودی عرب میں مقلد حنبلی کے روپ میں حالانکہ وہابی غیر مقلد ہی ہیں اور تھے۔ سعودی اور اہلحدیث کبھی ثابت نہیں کر سکتے کہ بدعت و شرک کسی عالم نے سکھایا ہو۔ اپنا فارمولہ بتائیں کہ تقلید کو بدعت و شرک کس مجتہد نے کہا، کس نے کہا کہ اب صحیح احادیث کے مطابق میری تقلید کر کے اتباع رسول کرو۔
اتحاد امت: مسلمان بریلوی و دیوبندی کی اہلسنت تعلیم پر اکٹھا ہو سکتے ہیں، اُس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، ذکر ولادت، میلاد، عرس ، یا رسول اللہ مدد کے نعرے کچھ بھی نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں سوائے اس کے کہ جن احادیث کی بنیاد پر یہ سب کچھ جائز قرار دیا ہے۔ اُس کا انکار نہ کریں اور اپنا اصول بتائیں۔
تعلیمات اور شخصیات: عوام شخصیات پر گرمی و سردی دکھاتی ہے اور عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔