Abu Lahab Ke Gustakhi

ابولہب کی گستاخی

حضور ﷺ کے بارہ چچا (1) حارث (2) ابوطالب (3) زبیر (4) ابولہب (5) غیداق (6) مقوم (7) ضرار (1f60e قثم (9) عبدالکعبہ (10) جحل (11) حمزہ (12) عباس ( سیرت مصطفے صفحہ 699, 700) تھے سوائے سیدنا حمزہ اور عباس رضی اللہ عنھما کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا۔

ابو لہب حضور ﷺ کا چچا، نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب، کنیت ابو عتبہ، چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا۔ ابو لہب کی بیوی حرب بن امیہ کی بیٹی،ابو سفیان کی بہن، کنیت ام جمیل اور نام ارویٰ تھا۔

صحیح بخاری 4971: جب یہ آیت نازل ہوئی «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» ”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“ تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی «تبت يدا أبي لهب وتب‏» الخ یعنی ”دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔“

دو صاحبزادیاں: سیدہ امّ کلثوم اور سیدہ رقیّہ کا نکاح حضورﷺ کے چچا ابولہب کے دو لڑکے عتیبہ اور عتبہ سے ہوا مگر رخصتی باقی تھی۔جب اللہ تعالی نے تبت یدا أبی لَھب (سورہ لہب) نازل فرمائی: تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں : عتیبہ اور عتبہ کو کہا: ”اگر تم نے محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی؛ تو تم دونوں کے سر کے لیے میرا سر حرام ہے“۔ ان دونوں کی ماں : بنت حرب بن امیّہ نے کہا: ”یہی ایندھن اٹھانے والی ہے کہ تم دونوں انھیں طلاق دے دو: کیوں کہ وہ دونوں صابی (اپنا دین بدلے ہوئے ) ہیں:“ چناں چہ ان دونوں نے انھیں طلاق دے دی۔ (تفسیر درّ منثور 8 / 667)

ابو لہب کی سنگ باری: سیدنا طارق بن عبد اللہ المحاربی فرماتے ہیں : میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو بازار ”ذی المجاز“ میں دیکھا: آپ ﷺ نے سرخ جبہ پہنا ہوا اور فرما رہے تھے: ”اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے“۔ ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھے پتھر ماررہا تھا، جس سے آپ کی پنڈلی اور ایڑی خون آلود ہوگئے۔ وہ شخص ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا: ”اے لوگو! اس کی بات نہ سننا یہ جھوٹا ہے“۔ محاربی فرماتے ہیں کہ میں سے پوچھا کہ یہ شخص (آپ ﷺ) کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ لڑکا بنی عبد المطلب سے ہے۔ (پھر) میں پوچھا: وہ شخص کون ہے جو اس کا پیچھا کررہا ہے اور پتھر مار رہا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ آپ ﷺ کا چچا عبد العزی یعنی ابو لہب ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث: 36565 )

بنو مالک بن کنانہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول کو بازار ”ذی المجاز“ میں دیکھاکہ یہ فرماتے تھے : ”اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے“۔ راوی فرماتے ہیں کہ ابوجہل آپ ﷺ پر مٹی پھیکتا تھا اور یہ کہتا تھا: اے لوگو! خیال رکھنا یہ شخص تم کو تمھارے دین کے حوالے سے دھوکہ نہ دیدے ؛ کیوں کا اس کا ارادہ ہے کہ تم لات وعزی کو چھوڑ دو! جب کہ رسول اللہ ﷺ اس کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہیں فرماتے تھے۔ (مسند احمد، حدیث: 16603)

عبر تناک موت : ابولہب بدر میں شریک نہیں ہو سکا۔ جب کفارِ قریش شکست کھا کر مکہ واپس آئـے تو لوگوں کی زبانی جن گ ِ بدر کے حالات سن کر ابولہب کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑ گیا اور آٹھویں دن مر گیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتـے تھـے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتـے تھـے اس لیے اس کے بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتـے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اور بعض مورخین نے تحریر فرمایا کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (حوالہ زُرقانی ج 1 ص 452)

صحیح بخاری 5101: ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ (جب اس نے نبی کریم ﷺ کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی) پھر اس نے نبی کریم ﷺ کو دودھ پلایا تھا جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے) ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔

ابولہب کی بیوی کا انجام: ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَّ امْرَاَتُهٗؕ-حَمَّالَةَ الْحَطَبِۚ(4)فِیْ جِیْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ۠(5) (پ30، اللھب:4۔5) ترجَمۂ کنز الایمان:اور اس کی جورُو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے اس کے گلے میں کھجور کی چھال کا رسّا۔

علامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مراد آبادی ان آیات کے تحت فرماتے ہیں :اُمِّ جمیل بنتِ حَرْب بن اُمیّہ سیّدِ عالَم ﷺ کی عداوت میں خود اپنی سر پر کانٹوں کا گٹھا لاکر رسولِ کریم ﷺ کے راستہ میں ڈالتی تاکہ حضورﷺ کو اور حضور ﷺ کے اصحاب کو ایذا و تکلیف ہو اور حضورﷺ کی ایذا رسانی اس کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کام میں کسی دوسرے سے مدد لینا بھی گوارا نہ کرتی تھی ۔ایک روز یہ بوجھ اٹھا کر لارہی تھی کہ تھک کر آرام لینے کے لئے ایک پتّھر پر بیٹھ گئی ایک فرشتے نے بحکمِ الٰہی اس کے پیچھے سے اس گٹھے کو کھینچا وہ گرا اور رسّی سے گلے میں پھانسی لگ گئی اور وہ مرگئی۔

اولاد: خوش قسمتی ہے کہ ابولہے کی ساری اولاد (عتبہ، خالدہ، درہ، عزا) مسلمان ہوئی سوائے عتیبہ جن کو شیرنے ہلاک کر دیا:

1۔ خالدہ بنت ابی لہب: حضور ﷺ کی چچا زاد بہن جس نے عثمان بن ابی العاص بن بشریٰ بن عبد بن دہمان الثففی سے شادی کی۔ (الإصابة في تمييز الصحابة، ترجمة خالدة بنت أبي لهب)

2۔ عتبہ : فتح مکہ کے بعد اسلام لائے (ابن سعد، جلد 4، ص 41،42)، غزوہ حنین میں شریک ہوئے(اسد الغابہ:3/366)، سیدنا ابوبکر کے دور میں وفات پائی۔ (اصابہ:4/216)

3: درہ بنت ابی لہب: ابن اثیر لکھتے ہیں کہ سیدہ درہ نے اسلام قبول کرکے ہجرت کی۔ سیدہ درہ رضی کا نکاح حضور ﷺ کے چچا زاد بھائی نوفل بن حارث کے بیٹے حارث سے ہوا۔ سیدہ درہ کے شوہر اور سسر نے غزوۂ خندق سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ (حیات الصحابہ) آپ سے کئی حدیثیں مروی ہیں جن کے راویوں میں عبدﷲ بن عمیرہ اورسیدنا علی وغیرہ ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :حضرت درہ بنت ابولہب نہایت فیاض تھیں اور مسلمانوں کو کھانا کھلایا کرتی تھیں۔ حضرت درہ کے تین بیٹے عتبہ، ولید اور ابو مسلم پیدا ہوئے۔

4۔ عزہ بنت ابی لہب:اوفی بن حکیم بن امیہ بن حارثہ بن الاوقص السلمی نے آپ سے شادی کی اور آپ سے عبیدہ ، سعید اور ابراہیم بنی اوفی پیدا ہوئے۔ کتاب "اخوۃ ” میں کہا ہے: آپ سے کوئی روایت نہیں ہے۔ (معالي الرتب لمن جمع بين شرفي الصحبة والنسب. دار البشائر الإسلامية للطباعة والنشر والتوزيع، لطبقات الكبير)

5۔ عتیبہ مسلمان نہیں ہوا کیونکہ اس نے حضورﷺ کی توہین کی تو نبی اکرم ﷺ نے اس کے لئے بد دعا کر دی اے اللہ! اپنے کتّوں میں سے کسی کتّے کواس پر مسلّط فرما دے۔ اس کو تجارتی سفر کے دوران ایک شیر نے مار دیا۔(شرح المواهب ،باب فی ذکر اولادہ الکرام، جلد4 صفحہ 325, 326 (ملخصاً) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

دین دشمن: مسلمانوں میں اتفاق پیدا کرنا ایمان کی نشانی ہے اور مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنا منافق ہونے کی نشانی ہے۔ ہر مسلمان اس بات پر غور وفکر کرے:

تعلیم: دیوبندی اور بریلوی دونوں کے عقائد ایک، تعلیم ایک مگر مسجدیں جُدا جُدا۔ دو مسالک کہلانے والے قیامت کے خوف سے ڈر کیوں نہیں جاتے۔ اسلئے نہیں ڈرتے کہ خوف خدا نہیں ہے۔ بریلوی حضرات کی فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند دونوں سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک بدعت و شرک ہے۔ عوام کو بریلوی عالم احمد رضا یا دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی پر ایمان نہیں لانا بلکہ قرآن و سنت یا عقائد اہلسنت پر چلنا ہے۔ دونوں طرف کے علماء اگر تعلیم بتا دیں تو سمجھ آئے گی:

پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، ایصال ثواب، قبر پر اذان، جنازے کے بعد دعا، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم سب اعمال ہیں، ان کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ سب اعمال نہ کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔

نتیجہ: کیا عوام سوال کر سکتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر عالم ہو یا علماء دونوں ظالم ہوئے جو اپنی نسلوں کے جاہل بنا کر لبرلز، سیکولرز اور رافضیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔

غائب امام: اہلحدیث حضرات قرآن و صحیح احادیث پر ہیں مگر شخصیت پرست ہیں۔ ان کی صحیح احادیث کا انکار کس نے کیا مگر جس شخصیت نے ان کو قرآن و صحیح احادیث کا فارمولہ دیا اس کا نام تو بتائیں لیکن اہلحدیث حضرات رافضیوں کی طرح جھوٹ بولتی رہیں گے اور ہمیشہ کہیں گے کہ بس قرآن و سنت۔ البتہ اپنی غائب شخصیت کا بتائیں گے تو مقلد ہو جائیں گے اور اگر نہیں بتائیں گے تو جھوٹے۔

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

نجات: دجالی سسٹم سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے، اپنی اپنی مسجد میں امام و خطیب سے پوچھا جائے کہ دیوبندی کو بریلوی بنانا ہو تو کیا کرنا ہو گا؟ بریلوی کو دیوبندی بنانا ہو تو کیا کرنا ہو گا؟ اہلتشیع کے پاس کونسی پنجتن کی احادیث ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو صحابہ کرام کے خلاف کس کے کہنے پر بول رہے ہیں، اہلبیت کا تو کوئی حُکم نہیں؟؟ اہلحدیث حضرات کا کونسا مجتہد ہے جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general