اسلام کی برکات
دین ہر ایک انسان کی ضرورت ہے اور ہر کوئی کسی نہ کسی دین پر ہو گا۔ دین ہمیں دنیاداری کے اصول بھی سکھاتا ہے اور قیامت پر ایمان لانے کا بھی حُکم دیتا ہے۔ جس دین میں آخرت ، قیامت، حساب کتاب کا عقیدہ نہیں ہے وہ الہامی دین نہیں بلکہ دنیاداری کی اچھی مینجمنٹ کہلا سکتی ہے۔ اسلئے مختلف قسم کی عوام ہے جیسے:
1۔ پوری دُنیاکے انسان مختلف روایات، نظریات، رسومات، خواہشات اور گناہوں کے ”پابند“ نظر آئیں گے۔ ان میں سب سے اچھے وہ ہیں جو اچھے اصولوں کے پابند ہوں گے مگر لبرلز، سیکولر اور دیگر اسی طرح کے لوگ متفقہ طور پر اپنی کوئی کتاب اور عالم نہیں دکھا سکتے جس کی پیروی کرتے ہیں۔
2۔ البتہ دُنیا میں کسی نہ کسی”مذہب“سے تعلق رکھنے والے سب سے بہتر ہوتے ہیں جو مذہبی لڑائی نہ کرواتے ہوں بلکہ اپنے مذہب کی سچائی کو علمی و عقلی دلائل دے کر سمجھاتے ہوں۔
3۔ پاکستان میں ہرطرح کے لوگ رہتے ہیں جیسے مذہب کے نام سے بیزار، مذہب کے نام پر جذباتی اور مذہب کے نام پر کمائی کرنے والے لیکن مذہب کو ”سمجھنے سمجھانے“ والے لوگ بہت کم ہیں۔
ایمان
دین اسلام پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ دو ہستیوں کو ماننا، ایک اللہ اور ایک اُس کا رسول۔ ایک اللہ کے حُکم کو ماننا جو قرآن میں ہے اور دوسرا وہ کام جو نبی کریم کا طریقہ ہے جس پر صحابہ کرام نے چل کر دکھایا۔ ان دو ہستیوں پر جس کا ایمان نہیں وہ مسلمان نہیں۔
ہم اس لئے دین اسلام کو مانتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب کسی دین میں نہیں کیونکہ قرآن میں کسی نبی کا انکار نہیں، کسی پچھلی کتاب کا انکار نہیں اور اللہ کریم نے خود قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ دوسرا نبی کریم جیسا کردار کتابی صورت میں کسی نبی کا نہیں ہے مگر ایمان ہم سب انبیاء کرام پر لاتے ہیں۔
عقیدہ: اسلام یعنی اللہ کو مان جانے سے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اُس کے بعد اپنے عقیدے (توحید، رسالت، انبیاء کرام کی عصمت، مقرب فرشتوں کی عظمت، صحابہ کرام اور اہلبیت کا تقدس، چاروں خلفاء کرام اور عشرہ مبشرہ کا رتبہ، امامت ابوبکر، مشاجرات صحابہ، ضروریات دین، شریعت اور طریقت) کی حفاظت کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس عقیدے کی برکات دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت اور جہنم سے نجات ہے۔
اعمال: اُس کے بعد فرض اعمال نماز، روزہ، زکوۃ، حج کی برکات حاصل کرنی چاہئیں، اگر ان اعمال میں کوتاہی ہو تو اس کی قضا کرنی چاہئے کیونکہ یہ ہمارے اسلام کی بنیاد ہیں، جس نے اس کو چھوڑا اس نے دین کو ڈھا دیا۔
گناہ: گناہ کی نحوست اور نیکی کی برکات لینے کے لئے زبان کے گناہ چھوڑنے پڑتے ہیں جیسے غیبت، چغلی، بہتان، الزام، کج بحثی، لا یعنی گفتگو، بلیک میلنگ جذباتی تعریف، کفریہ کلمات وغیرہ کیونکہ زبان کے یہ گناہ چھوڑنے سے نفسانی بیماریاں حسد، کینہ، بغض، تکبر، انا، تعصب، عُجب کا علاج ہو جاتا ہے۔ دیگر معاشرتی گناہوں میں سود، ذخیرہ اندوزی، رشوت، وسائل کا غیر ضروری استعمال، عہدے کا غلط استعمال بھی اسلام کی برکات لینے میں مانع ہے۔
برکات: نکاح کی برکات، خلافت کی برکات، اسلام علیکم کہنے کی برکات، حلال کھانے کی برکات، قناعت کی برکات، کسب حلال کی برکات، جہا د کی برکات، علم کی برکات، عمل کی برکات، مہمان نوازی کی برکات، سخاوت کی برکات، ہر دن و رات کی برکات، قرآن کی برکات اس وقت حاصل ہوں گی جب رسول اللہ کے طریقے کے مطابق آخرت پر یقین رکھتے ہوئے ان پر کریں گے اور اگر اس کے اُلٹ عمل کریں گے تو برکت کی بجائے نحوست ملے گی۔
4۔ دینی جماعتوں کے ہر ”راہنما“کو معذرت کے ساتھ یہ عرض ہے کہ عوام کو ”عقیدہ“ نہیں بلکہ ”عقیدت“ کا زہردیاگیا ہے۔ دینی جماعتوں کے مفادات اور مولوی حضرات کے کمزورکردار کی وجہ سے عوام نے”حقیقیدین“سے کنارہ کشی کر لی ہے اور اب ہر ایک کا اپنا اپنا دین ہے۔
5۔ پاکستان میں مذہب کے نام پربڑی(main) بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اورشیعہ جماعتیں موجود ہیں مگر ایک دوسرے کے دوست ہر گز نہیں ہیں۔ یوٹیوب پرتقریباً ہر مسلک کا عالم مل جائے گا جو دوسرے مسالک کے”علماء“ کو بُرا بھلا کہ رہا ہے، جس سے ہماری ذہنی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔
6۔ تقریباًپوری دُنیا میں اب ہر مذہب، مسلک یا جماعتNGOs، Welfare Societies بناتی ہیں اور لوگوں کی ضرورتوں کو پورا(funding) کر کے عوام کو اپنے اپنے مذہب، مسلک یا جماعت میں شامل کر رہی ہے، زیادہ تر عوام غریب، پریشان اور مجبور ہے اور اس کا ”مذہب“ صرف ”روٹی“ ہے جس سے تمام مسالک و مذاہب کے علاوہ سرمایہ دار (investor) اور مافیا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
برکات: دین کی برکات لینے کے لئے ہمیں مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہو گا اور یہ بہت آسان ہے، اگر ہر کوئی اپنے اپنے گھر میں دین سکھائے اور حق کی پیروی کرے جیسے
تعلیم: دیوبندی اور بریلوی دونوں کے عقائد ایک، تعلیم ایک مگر مسجدیں جُدا جُدا۔ دو مسالک کہلانے والے قیامت کے خوف سے ڈر کیوں نہیں جاتے۔ اسلئے نہیں ڈرتے کہ خوف خدا نہیں ہے۔ بریلوی حضرات کی فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند دونوں سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک بدعت و شرک ہے۔ عوام کو بریلوی عالم احمد رضا یا دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی پر ایمان نہیں لانا بلکہ قرآن و سنت یا عقائد اہلسنت پر چلنا ہے۔ دونوں طرف کے علماء اگر تعلیم بتا دیں تو سمجھ آئے گی:
پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، ایصال ثواب، قبر پر اذان، جنازے کے بعد دعا، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم سب اعمال ہیں، ان کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ سب اعمال نہ کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔
نتیجہ: کیا عوام سوال کر سکتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر عالم ہو یا علماء دونوں ظالم ہوئے جو اپنی نسلوں کے جاہل بنا کر لبرلز، سیکولرز اور رافضیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔
غائب امام: اہلحدیث حضرات قرآن و صحیح احادیث پر ہیں مگر شخصیت پرست ہیں۔ ان کی صحیح احادیث کا انکار کس نے کیا مگر جس شخصیت نے ان کو قرآن و صحیح احادیث کا فارمولہ دیا اس کا نام تو بتائیں لیکن اہلحدیث حضرات رافضیوں کی طرح جھوٹ بولتی رہیں گے اور ہمیشہ کہیں گے کہ بس قرآن و سنت۔ البتہ اپنی غائب شخصیت کا بتائیں گے تو مقلد ہو جائیں گے اور اگر نہیں بتائیں گے تو جھوٹے۔
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
نجات: دجالی سسٹم سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے، اپنی اپنی مسجد میں امام و خطیب سے پوچھا جائے کہ دیوبندی کو بریلوی بنانا ہو تو کیا کرنا ہو گا؟ بریلوی کو دیوبندی بنانا ہو تو کیا کرنا ہو گا؟ اہلتشیع کے پاس کونسی پنجتن کی احادیث ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو صحابہ کرام کے خلاف کس کے کہنے پر بول رہے ہیں، اہلبیت کا تو کوئی حُکم نہیں؟؟ اہلحدیث حضرات کا کونسا مجتہد ہے جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا؟