بادشاہ پیر اور گیارھویں شریف
1۔ بادشاہ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک عظیم بزرگ گذرے ہیں جنہوں نے عوام کو گمراہی سے نکال کر حضورﷺ کی شریعت پر چلنے کی دعوت دی اور کثیر مسلمانوں کو آپ کی بدولت ہدایت نصیب ہوئی۔ آپ 470ھ، رمضان کے مہینے میں ایران کے شہر ”گیلان“ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم جناب ابو صالح موسی جنگی رحمتہ اللہ علیہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کی والدہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں، اسلئے آپ حسنی حُسینی بزرگ ہیں۔
2۔ آپ کو اولیاء اللہ کی فہرست میں بادشاہ پیر کہا جاتا ہے۔ آپ کو کھیل کود سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بچپن کی تعلیم اپنے ہی شہر اور اعلی تعلیم بغداد کے علماء سے حاصل کی۔بغداد میں رہتے ہوئے درس و تدریس اور فتوی دینے کا کام شروع کیا۔ آپ حنبلی طریقے اور تصوف میں قادریہ سلسلے کے بانی ہیں۔آپ کے مرشد حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
3۔ آپ نے پچاس سال کی عمر کے بعد چار نکاح کئے اور آپ کے بیس لڑکے اور انیس لڑکیاں پیدا ہوئیں۔غوثِ اعظم، پیران پیر دستگیر، محی الدین وغیرہ آپ کےالقابات ہیں۔ آپ کی کتابیں الفتح البانی و الفیض الرحمانی، فتوح الغیب، بہجتہ الاسرار ہیں۔ آپ ساری زندگی علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، فنی علوم اور فتاوی دیتے رہے۔
4۔ آپ کا وصال 11ربیع الثانی کو ہوا اسلئے آپ کو گیارھویں والا پیر بھی کہا جاتا ہے۔ مسلمان اللہ کریم کی عبادت کر کے ثواب حضورﷺ کو ہدیہ کرتا ہے اور گیارھویں شریف کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان کی علمی و عملی کاوش بیان کر کے اللہ واسطے عوام کو کھانا کھلا کر حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو ایصالِ ثواب کرنا۔
5۔ اگر کوئی کہے کہ یہ گیارھویں والے کے نام کی ہے تو عوام کو تعجب ہوتا ہے، اسلئے کہنا چاہئے کہ یہ گیارھویں والے کو ایصال ثواب کیا ہے اُس کے لئے کھانا تقسیم کیا ہے۔
گیارھویں شریف
نام رکھنا: نماز ایک عمل ہے اور حضور ﷺ نے اعمال کے نام رکھنا سکھائے جیسے فجر،ظہر، عصر، مغرب، عشاء۔ صدقہ و خیرات کے نام ہیں زکوۃ اور فطرانہ۔ حج کے نام ہیں حج افراد، تمتع، قِران۔ نام رکھنے کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، اہلسنت نے حضور ﷺ کا ذکر (نعت، درود و سلام) میلاد کہلاتا ہے اور قبر کی زیارت کرنے کو عُرس کا نام دیا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو ایصال ثواب کرنے کے پروگرام کو گیارھویں شریف کا نام دیا ہے۔ اگر نام رکھنا بدعت ہے تو پھر بدعتی کون ہوا؟؟؟
مذاق: ایک پوسٹ پر پوچھا گیا جناب یہ ختم شریف کیا ہوتا ہے، نیچے اہلحدیث جماعت کی عوام نے ہنسی کے ایموجی لگا دئے، کسی نے کہا ختم شریف جیسے نواز شریف، بابرا شریف ویسے بریلویوں کا ختم شریف، عرس شریف۔ کسی نے کہا قرآن ختم کر کے کہنا لو جی شُکر ہے ختم ہوا، اسلئے ختم شریف۔ افسوس
رواج: ایک ہوتے ہیں دُنیا کے رسم و رواج جیسے تیل مہندی، بسنت، ویلنٹائن ڈے، ہیپی نیو ائیر اور یہ سارے کام ”دینی“ نہیں بلکہ عوام دل پشوری کرنے کےلئے کرتی ہے کیونکہ عوام entertainment (تفریح) چاہتی ہے enlightenment (معرفت) نہیں۔
تعلیم: حضور ﷺ کی امت کو علم ہونا چاہئے کہ ہم لوگ دو کام انفرادی کریں یا اجتماعی طور پر کریں اس سے ہمارے زندوں اور مرنے والوں کو فائدہ ہوتا ہے بس اسی کا نام ختم شریف، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، برسی، گیارھویں شریف یا میلاد بھی حضور ﷺ کو تحفہ نذرانہ بھیجنا ہے:
۱) روزانہ 24 کروڑ عوام اپنے زندہ اور مردہ والدین، رشتے دار اور حضور ﷺ کی امت کے لئے ہاتھ اُٹھا کر یا ہاتھ اُٹھائے بغیر جس وقت مرضی بخشش کی دُعا کرے۔
صحیح مسلم 5091: ”جانور تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یا اللہ میری طرف سے، میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما“
۲) اسلئے اہلسنت کے نزدیک ہر فرض نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی، صدقہ، خیرات، کھانا کھلانا، قرآن خوانی، کپڑے دینے، دیگیں دینا یعنی فرض، واجب، سنت اور مستحب اعمال اپنے زندہ یا وفات پانے والے والدین (رشتے دار اور حضور ﷺ کی ساری امت) کو ایصال ثواب کر سکتے ہیں اور یہی ختم شریف ہے۔ (دیوبندی اور بریلوی علماء کے فتاوی کمنٹ سیکشن میں ہیں، جن کے نزدیک فرض اور واجب اعمال ایصال ثواب کر سکتے ہیں)
اجتماعی: اسلئے ہر مسلمان بلکہ 24 کروڑ عوام یہ کرے تو یہ عمل خود اجتماعی ہو جائے گا مگر ایسا وہ کرے گا جو دین پر عمل کرے گا ورنہ بدعت و مستحب کی لڑائی جو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے ڈالی ہے ختم نہیں ہو گی۔ 100سالوں میں یہ کام کسی نے نہیں کیا اسلئے اس نسل کو زور لگانا ہو گا اور حضور ﷺ کے دین کے علم کو بلند کرنا ہو گا۔
فیصلہ: ایک محفل میں اس فقیر نے مرنے والے کے بیٹے سے کہا کہ بیٹا اپنے والد کے لئے دُعا کرو، اُس نے دُعا کر دی تو ایک بوڑھے نے کہا کہ آج تم نے مولوی صاحب کی روٹی مار دی، ہمارا رواج ہے کہ مولوی صاحب ختم پڑھتے ہیں تو ہم اُن کو سبحان اللہ کہہ کر کچھ روپے دیتے ہیں جن سے ان کی روٹی چلتی ہے، آج تو نے اُن کی روٹی مار دی۔ میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں نے اُس کی روٹی ماری بلکہ میں نے سوچا کہ میں مولوی بن کر بغیر پیسوں کے دین کا کام کروں گا اور دین کو پیشہ نہیں بناؤں گا۔
دُکھ: جماعتوں کو علم ہے کہ اگر اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں برسی، عرس، میلاد ساری زندگی کوئی نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں مگر اصل کام پہچان کی ہے کہ اہلسنت سعودیہ والے ہیں یا خلافت عثمانیہ والے ہیں۔ یہ پہچان عوام کو اسی پیج سے ملے گی اور عوام کو اب کام کرنا ہو گا ورنہ دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث جماعتیں اس وقت رافضی پریشر میں ہیں۔
پاک و ناپاک جماعتیں: اسطرح دیندار عوام کو سمجھنا چاہئے کہ مسلمان قرآن و سنت پر ہوتا ہے مگر اہلتشیع کی طرح ناجائز دین نہیں ہوتا جس کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ پنجتن سے بھی نہیں ہیں کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا۔
جُرم: اہلبیت کے فضائل کے لئے اہلسنت کی کتابیں، اہلسنت میں اختلاف ڈالنے کے لئے اہلسنت کی احادیث کی کتابوں کی اپنی مرضی سے تشریح۔ اہلتشیع سے سوال کرو کہ تمہاری پنجتن کی کوئی احادیث کی کتابیں ہیں تو کہیں گے کہ قرآن سے بڑھکر کوئی کتاب نہیں یعنی رسول اللہ اور اہلبیت کی احادیث تو ہیں نہیں اور امام جعفر کی منگھڑت احادیث کے مُنکر ہو جائیں گے۔ اب اس بے بنیاد دین کو گھوڑا دین نہ کہیں تو کیا کہیں؟
اہلسنت: دیوبندی اور بریلوی دونوں کی تعلیم و عقیدہ ایک ہے۔ فتاوی رضویہ پڑھ لیں یا دیوبندی علماء کی المہند کتاب پڑھ لیں، یہ دونوں کتابیں اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک بدعت و شرک ہے لیکن رافضیوں کی طرح تقیہ بازی ہے کہ اہلحدیث اور دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے عقائد پر ایک نہیں ہوتے اور اہلسنت کی تعلیم بیان نہیں کرتے جس میں بدعت و شرک نہیں ہے۔
اعلان: اگر دیوبندی اور بریلوی علماء اعلان کر دیں کہ اہلسنت وہی ہیں جو خلافت عثمانیہ کے دور کے اہلسنت علماء کرام کے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا تو مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ بات قرآن و سنت کے قانون و اصول پر چلنے کی ہے۔ اصول اہلحدیث جماعت بھی بتاتی نہیں کہ اُن کے کس "امام غائب” نے کس دور میں کہا تھا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور ہم نے قرآن و صحیح احادیث پر اب عمل کرنا ہے؟ سوال کا جواب ۔۔ پاکستان میں دینی انقلاب