سیدنا علی اور معاویہ کے تعلقات
پہلی بات: تاریخ کی کتابوں (طبری، البدایہ و النہایہ، ابن خلدون) سے عقائد نہیں بنتے بلکہ عقائد قرآن و سنت سے بنتے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہلبیت نے حضور ﷺ کی جو احادیث اکٹھی کیں، وہ سب اہلسنت کی صحاح ستہ (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود، نسائی) میں موجود ہیں جس میں صحابہ کرام اور اہلبیت (حضور ﷺ کی بیویاں، سیدہ فاطمہ،سیدہ زینب، سیدہ ام کلثوم، سیدہ رقیہ، مولا علی، سیدنا حسن و حسین) کے متعلق حضور ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔
دوسری بات: قرآن میں انبیاء کے نام موجود ہیں مگر صحابہ کرام اور اہلبیت کے نام موجود نہیں ہیں سوائے سیدنا زید کے۔ اسلئے حضور ﷺ کی احادیث میں جن صحابہ کرام اور اہلبیت کے نام موجود ہیں، وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ اگر یہ صحاح ستہ کو جھوٹا مان لیا جائے تو صحابہ کرام اور اہلبیت کون ہیں، کچھ معلوم نہیں ہو سکتا۔
تیسری بات: حضور ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام کے صحابہ کرام، اہلبیت کے صحابہ کرام اور اہلبیت کے اہلبیت کے ساتھ "معاملات” کا علم بھی اہلسنت کی کتابوں سے ہوتا ہے جس میں جمل و صفین کی لڑائی بھی شامل ہے، امامت سیدنا ابوبکر، فدک، حدیث قرطاس وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر یہ احادیث کی کتابیں نہ ہوں تو ہمیں ان "معاملات” کا علم بھی نہیں ہو سکتا۔
اہم بات: اہلتشیع کے پاس حضور ﷺ، سیدہ فاطمہ، مولا علی، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں نہیں ہیں، اسلئے بے بنیاد ہیں اور مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ منافقت یہ ہے کہ اہلبیت کو اہلسنت کی کتابوں سے مظلوم ثابت کر کے خود ہی اہلبیت کا مقدمہ لڑنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اہلبیت نے کہیں بھی کسی کو بھی نہیں کہا کہ ہم پر ظلم ہوا ہے اور تم ہمارے لئے مسلمانوں سے لڑنا۔ اسلئے اہلتشیع دین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
تعلقات: حضرت معاویہ کے خلاف بولنے والےحضور ﷺ، مولا علی کے دشمن ہیں کیونکہ اہلبیت ان کے خلاف نہیں بولے تو اہلتشیع منافق دین کیوں اور کس کے کہنے پر بولتے ہیں؟
1۔ ترمذی 3842: اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت پانے والا بنادے اور معاویہ کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔ ترمذی 3843: جب سیدنا عمر بن خطاب نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ سیدنا معاویہ کو والی بنایا تو لوگوں نےباتیں کیں توعمیر نے خود کہا: تم لوگ سیدنا معاویہ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا:اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے۔
2۔ صفین کی لڑائی کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت معاویہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو سیدنا علی نے ایک گشتی مراسلہ اپنے زیر حکومت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا۔ اس مراسلہ کو نہج البلاغہ کے شیعہ مصنف نے صفحہ 151 پر بھی درج کیا ہے:
"ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ ) کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک، ہمارا اور ان کانبی ایک، ہماری اور ان کی دعوت اسلام میں ایک، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول ﷺ کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ، پس معاملہ دونوں کا برابر ہے۔ صرف خونِ عثمان کے بارے میں ہم اور ان میں اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں۔ معاویہ میرے بھائی ہیں۔”
حضرت سیدنا علی سےصفین کے موقع پر پوچھا گیا: جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں؟ سیدنا علی نے فرمایا: وہ مشر ک نہیں ہیں۔ پوچھنے والے نے کہا: کیا وہ منافق ہیں؟ آپ نے فرمایا:وہ منا فق بھی نہیں ہیں۔ پوچھنے والے نے کہا: پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے؟ جواب میں سیدنا علی نے فرمایا:”ہم اخواننا بغواعلینا” وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف زیادتی کی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد: 4 ص: 1013)
جو لوگ حضرت معاویہ کے ساتھیوں میں سے قیدی بن کر سیدنا علی کے پاس پہنچے اور ان میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علی نے حکم دیا کہ انہیں غسل دیا جائے اور کفن دیا جائے، پھر انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسی طرح سیدنا علی سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ سیدنا علی نے فرمایا:ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد:4 ص: 1036)
3۔ سیدناعلی اورسیدنا معاویہ کے مابین لڑائی جاری ہے اور قیصر روم نے سیدنا علی کے علاقے پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا اور سمجھا کہ حضرت معاویہ اس کے ساتھ دیں مگر قیصر روم کو سیدنا معاویہ کا خط پہنچ گیا:اے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن !!!پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی تیرے خلاف صلح کرلیں گے۔ پھر تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ کردیں گے۔ (البدایہ و النہایہ، جلد: 8 ص:119)
سیدنا علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان، سیدنا علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ ایک بار عقیل، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر سیدنا علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر، خوبصورتی میں موسم بہار، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا: ’’اے ابو یزید (عقیل)! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں۔علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا: ’’آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی۔‘‘ (ابن عساکر 42/416)
ایک شخص نے حضرت معاویہ سے کوئی دینی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ نے علم سے عزت بخشی ہے؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا:’علی! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ابن عساکر 42/170)
حضرت معاویہ نے بھی فرمایا: میرا سیدنا علی سے اختلاف صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ ص 259)
خوارج نے سیدنا علی، معاویہ اور عمرو کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت معاویہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا: "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا۔ ” آپ نے فرمایا: "بیان کرو۔” کہنے لگا: "آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا۔” آپ نے فرمایا: "کاش! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے۔ (طبری۔ 3/2-357)
4۔ سیدنا علی نے وفات سے پہلے سیدنا حسن کو وصیت کی تھی کہ بیٹا معاویہ کی امارت سے نفرت نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو ضائع کر دیا تو آپس میں کشت و خون دیکھو گے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد: 8 ص: 131، شرح نہج البلاغہ ابن ابی لحدید شیعی جلد: 3 ص: 836)
5۔ جب سبائیوں نے دیکھا کہ سیدنا حسن حضرت معاویہ سے صلح کرکے خلافت ان کے سپر د کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے سیدنا حسن پر قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ نیزہ کے زخم کی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ کی قسم میں معاویہ کو اپنے لیے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو میرا پیروکار کہتے ہیں انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا ، میرا خیمہ لوٹا، میرے مال پر قبضہ کیا۔ (جلاء العیون، احتجاج طبرسی، ص:148)
زخم مندمل ہوجانے کے فورا بعد امیر المومنین سیدنا حسن نے سیدنا حسین سے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ حضرت معاویہ سے صلح کرلینا ہی بہتر ہے چنانچہ آپ نے ربیع الاول 41ھ کو حضرت معاویہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی۔ (الاستیعاب لابن عبد البر جلد:3 ص: 298)
صحیح بخاری 2704: سیدنا حسن کے صلح کرنے سے رسول اکرم ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی جو آپ نے اس وقت فرمائی تھی جب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار بیٹا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا۔ اس حدیث سے صحیح بخاری 447، حدیث عمار کا مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ باغی حضرت معاویہ نہیں بلکہ نہروان کا گروپ تھا جو سیدنا علی اور حضرت معاویہ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتا رہا تھا جس کو سیدنا علی نے زندہ جلا دیا۔
6۔ سیدنا حسن کے ساتھ سیدنا حسین نے بھی حضرت معاویہ کی بیعت کر لی تو سبائیوں نے جو صلح کے مخالف تھے، سیدنا حسین کوآمادہ کرنا چاہا کہ وہ بیعت ختم کر کے مقابلہ کریں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا: ہم نے معاویہ کی بیعت کر لی، عہد کر لیا ہے، اب ہمارا بیعت توڑنا ممکن نہیں۔ (اخبار الطوال، ص: 234، رجال کشی، ص: 102)
سیدنا حسن اور سیدنا حسین دونوں بھائی اکثر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جایا کرتے تھے وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے، محبت و شفقت سے پیش آتے اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے اور ایک ایک دن میں ان کو دو، دو لاکھ درہم عطا کرتے۔ سیدنا حسن کی شہادت کے بعد سیدنا حسین بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جاتے اور وظائف او رعطایا حاصل کرتے۔ (البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص: 150)
حضرت معاویہ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ سیدنا حسین کی زوجہ اولیٰ تھیں، اسلئے سیدنا حسین حضرت معاویہ کے داماد تھے۔ (طبری، جلد: 13 ص: 19) جیسے حضرت معاویہ کی ہمشیرہ ام حبیبہ نبی اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات "مومنوں کی مائیں”، اس لحاظ سے سیدنا معاویہ تمام مومنوں کے ماموں ہوئے۔
8۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں: جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتاہے۔ (احکام شریعت، جلد:1 ص: 55) اسی طرح حضرت امیر معاویہ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں۔ (المفوظ، جلد: 3 ص: 71)
نصیر الدین نصیر: اختلافی اُمور کے باوجود حضرت معاویہ کو دائرہ صحابیت سے خارج کرنا، کافر، مشرک ثابت کرنا نہ صرف گناہ عظیم بلکہ توہین رسول ہے اور موجب کفر ہے۔ (نام و نسب باب نہم صفحہ نمبر 519)
9۔ شہادت سیدنا حسین پر ہر دل دُکھی ہے مگر ابن معاویہ کو حضرت معاویہ نے منتخب کروایا، اس کو اہلسنت نے حضرت معاویہ کی اجتہادی غلطی قرار دیا۔ ابن معاویہ کو کوئی مسلمان نہ کہے اسلام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نتیجہ: اہلتشیع کے پاس حضور ﷺ، سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، حسن و حسین کی احادیث کی کوئی کتابیں نہیں ہیں اور اہلبیت کے فضائل کے لئے بھی وہ اہلسنت کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ حدیث فدک، حدیث ثقلین، حدیث غدیر، حدیث قرطاس، حدیث عمار یہ سب اہلسنت کی ہیں، اہلتشیع کے پاس ان احادیث کی شرح کے اصول بھی نہیں ہیں۔ یہ امام جعفر کے قول کو حدیث کہتے ہیں اور حضور ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کر دیتے ہیں کیونکہ بتا دیں حضور ﷺ کی احادیث نہیں تو منکر احادیث، منکر رسول، منکر ختم نبوت ہوئے یا نہیں؟
تعلیمات اور شخصیات: عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔
بریلوی اور دیوبندی کوئی دو مسالک نہیں، احمد رضا ہو یا اشرف علی تھانوی ان دونوں پر ایمان لانے کا حُکم نہیں مگر عوام کو دونوں کی تعلیمات نہیں سکھائی گئیں بلکہ دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم کر دیا۔ اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہو گا مگر پہلے جس تعلیم کی وجہ سے فتوی لگا اُس عقائد کا علم ہونا چاہئے۔ دیوبندی اور بریلوی کی تعلم اور عقائد ایک ہیں۔
اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے مگر تقیہ بازی یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک بریلوی اور دیوبندی کی تعلم بدعت و شرک ہے۔ البتہ سعودی وہابی علماء دیوبندی کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور اہلحدیث کو بھی چندہ ملتا رہتا ہے۔ اسلئے ساری دنیا جانتی ہے کہ اہلحدیث حضرات وہابی غیر مقلد ہیں اور سعودی حنبلی کہلاتے ہیں۔
نتیجہ: پہلے بریلوی اور دیوبندی کی تعلیم جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند کتاب میں ہے، اُس پر اہلسنت کو ایک ہونا چاہئے۔ دوسرا اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء پہلے ایک ہو جائیں اور پھر بتائیں کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا تو جھوٹ سمجھ میں آ جائے گا۔ بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا، یہ سب اہلحدیث حضرات پلس سعودی وہابی علماء کا اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا ہے جس سے لبرلز، سیکولر، رافضیت کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اصل اہلسنت وہی ہوں گے جو دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر ہوں گے۔ جو دیوبندی سعودیہ کے ساتح ہیں وہ اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک بنا رہے ہیں۔