Sayyidina Saad Bin Abi Waqas (R.A)

سیدنا سعد بن ابی وقاص

1۔ حضور ﷺ کی والدہ سیدہ آمنہ (بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ) اور سیدنا سعد کے دادا ایک ہی تھے۔ ان کے والد وقاص آمنہ کے ماموں زاد تھے۔ صحیح بخاری ‏‏‏‏Q3725: بنو زہرہ نبی کریم ﷺ کے ماموں تھے، ان کا اصل نام سعد بن ابی مالک ہے۔ ترمذی 3752: سیدنا سعد آئے تو حضور ﷺ نے فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں، تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں۔ صحیح بخاری 3727: "سیدنا سعد کا بیان ہے کہ میں اسلام لانے والوں میں 3را مسلمان تھا”۔ سیدنا ابوبکر کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔ ترمذی 3747: عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سیدنا ”ابوبکر جنتی، عمر جنتی، عثمان جنتی، علی جنتی، طلحہ جنتی، زبیر جنتی، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی، سعد جنتی، سعید (سعید بن زید) جنتی اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں”۔

2۔ قرآن کی آیات جو سیدنا سعد کی وجہ سے نازل ہوئیں:

صحیح مسلم 6238: سیدنا سعد کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کا دین) نہ چھوڑیں گے اور نہ کھائے گی نہ پیئے گی۔ وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ نے تجھےحکم دیا ہے ماں باپ کی اطاعت کرنے کا اور میں تیری ماں ہوں تجھ کو حکم کرتی ہوں اس بات کا، پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا آخر ایک بیٹا اس کا جس نام عمارہ تھا کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ وہ بددعا کرنے لگی سیدنا سعد کے لیے، تب یہ آیت اتری ”اور ہم نے حکم دیا آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا لیکن وہ اگر زور ڈالیں تجھ پر کہ شریک کرے تو میرے ساتھ اس چیز کو جس کا تجھےعلم نہیں تو مت مان ان کی بات (یعنی شرک مت کر) اور رہ ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق۔“ (لقمان)

سیدنا سعد فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کو بہت سا غنیمت کا مال ہاتھ آیا اس میں ایک تل و ا ر بھی تھی۔ میں نے رسول اللہ سے عرض کی: یہ مجھ کو انعام میں دے دیجئیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔“ میں گیا اور میں نے قصد کیا، پھر اس کو گدام میں ڈال دوں لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ ﷺ کے پاس لوٹا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ مجھے دے دیجئیے۔ آپ ﷺ نے سختی سے فرمایا: ”رکھ دے اسی جگہ جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔“ تب یہ آیت اتری ”تجھ سے پوچھتے ہیں لوٹ کی چیزوں کو۔“(الأنفال: 1)

سیدنا سعد فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلا بھیجا۔ آپ ﷺ تشریف لائے، میں نے کہا: مجھ کو اجازت دیجئیے میں اپنے مال کو بانٹ دوں جس کو چاہوں۔ آپ ﷺ نے نہ مانا، میں نے کہا: اچھا آدھا مال بانٹ دوں۔ آپ ﷺ نے نہ مانا، میں کہا: اچھا تہائی مال بانٹ دوں، آپ ﷺ چپ ہو رہے، پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال تک بانٹنا درست ہے۔

صحیح بخاری 1295: سیدنا سعد کی سخت بیماری میں عیادت کے لئے رسول اللہ ﷺ حجتہ الوداع کے سال (10 ھ میں) تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر (حجتہ الوداع کر کے) مکہ سے جا رہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں کو (مسلمانوں کو) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو (کفار و مرتدین کو) نقصان۔ (پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ”شراب، جوا، تھان اور پانسے یہ سب نجس اور شیطان کے کام ہیں۔“ (المائدہ: 90) میری وجہ سے اُتری۔

صحیح مسلم 6241:‏‏‏‏ سیدنا سعد فرماتے ہیں، مشرکوں نے کہا: آپ ﷺ ان لوگوں کو اپنے پاس سے بھیج دیجئیے یہ جرأت نہ کر یں گے ہم پر، ان لوگوں میں میں بھی تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور دو شخص اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا۔ آپ ﷺ کے دل میں جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ آپ ﷺ نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ» (الأنعام: 52) ”مت ہٹا ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضامندی۔“

3۔ مشرکین نے مسلمانوں کو چُھپ کر نماز ادا کرتے دیکھا تو مارنے لگے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی مار کر کافر کو زخمی کیا جو اسلام کی طرف سے پہلا وار تھا۔ حبشہ کی طرف سے ہجرت کر کے واپس آئے حضرت عثمان بن مظعون کو مغیرہ کے بیٹے نے تھپڑ مارا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے ناک کی ہڈی توڑ دی۔ (اسد الغابہ : 2/191، سیر الصحابہ: 2/601)

4۔ صحیح بخاری 3925: سب سے پہلےہجرت کر کے مدینہ پاک سیدنا مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم (نابینا) آئے یہ دونوں (مدینہ کے) مسلمانوں کو قرآن پڑھنا سکھاتے تھے۔ اس کے بعد سیدنا بلال، سعد اور عمار بن یاسر۔ پھر سیدناعمر بن خطاب نبی کریم ﷺ کے بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اور نبی کریم ﷺ (ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ کو ساتھ لے کر) تشریف لائے۔ مدینہ کے لوگوں کو جتنی خوشی اور مسرت آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ہوئی میں نے کبھی انہیں کسی بات پر اس قدر خوش نہیں دیکھا۔

صحیح بخاری Q2328: مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ سیدناعلی اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور ابوبکر کی اولاد اور عمر کی اولاد اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ابن سیرین سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔

غزوات اور سرایہ

1۔ جب مشرکین مکہ نے مدینہ پاک کے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کیا تو رمضان 1ھ میں آپ ﷺ نے ابو جہل کی سربراہی میں شام سے مکہ لوٹنے والے قریش کے قافلے کو روکنے کے لیے سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کی قیادت میں 30 مہاجرین کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ فریقین کے مابین صف آرائی ہو چکی تھی کہ مجدی بن عمرو نے صلح کرا دی۔

2۔ شوال 1ھ میں آپ ﷺ نے عبیدہ بن حارث کی سربراہی میں 60 یا 70 افراد کا سریہ رابغ کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ جحفہ سے 10 میل آگے احیا کے چشمے پر پہنچا تو ابوسفیان (یامکرز بن حفص ) کے 200 افراد پر مشتمل قافلے سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی۔ لڑائی نہ ہوئی تاہم، سیدنا سعد نے تیر اندازی کی۔ صحیح بخاری 3728: "سیدنا سعد کا بیان ہے کہ اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر میں نے چلایا”۔

3۔ ذی قعد 1ھ میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنا سعد کو 20 مہاجرین کے ساتھ خرار بھیجا۔ آپ ﷺ نے مقداد بن عمرو کو سفید پرچم عطا کیا۔ دن کو چھپتے اور رات کو پیدل سفر کرتے ہوئے یہ 5 دن کے بعد خرار پہنچے تو معلوم ہوا، مشرکین کا قافلہ ایک روز پہلے یہاں سے جا چکا ہے۔ آپ ﷺ نے خرار سے آگے نہ جانے کی ہدایت فرمائی تھی اس لیے یہ دستہ (سریہ سعد بن ابی وقاص) واپس لوٹ آیا۔

4۔ غزوۂ ابوا: ربیع الاول 2 ھ میں حضور ﷺ نے ودّان کا سفر کیا ،بنو ضمرہ کے سردار مخشی نے جیش نبوی ﷺ سے صلح کر لی اس لیے کوئی معرکہ پیش نہ آیا۔

5۔ ربیع الثانی 2 ھ میں آپ ﷺ 200 صحابہ کے ساتھ100 افراد اور 2500 اونٹوں پر مشتمل قریش کے ایک تجارتی قافلے کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے جو امیہ بن خلف کی سربراہی میں جا رہا تھا۔ آپ ﷺ کا پرچم حضرت سعد بن ابی وقاص نے تھام رکھا تھا۔

6۔ جمادی الثانی 2ھ میں رسول اکرم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے عبدﷲ بن جحش کی سربراہی میں 12 مہاجرین کا ایک دستہ جس میں سیدنا سعد بھی تھے، مکہ اور طائف کے بیچ واقع نخلہ کی طرف روانہ فرمایا۔حران کے مقام پرعتبہ بن غزوان کا اونٹ کھو گیا، جس پر سیدنا سعد بھی اپنی باری سے سفر کر رہے تھے تو دونوں اسے تلاش کرنے لگ گئے۔

ابن جحش قافلے کو لے کر چلتے رہے اور نخلہ پہنچ گئے۔ کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر قریش کا قافلہ گزرا تو انھوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ واقد بن عبدﷲ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیا اور عثمان بن عبدﷲ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔ نوفل بن عبدﷲ فرار ہو گیا ۔عبدﷲ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کرکے 1/5 حصہ حضور ﷺ کے لیے رکھ لیا حالانکہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا۔ قریش نے اپنے قیدی چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا تو آپ ﷺ نے اس وقت تک قبول نہ فرمایا جب تک حضرت سعد اور عتبہ صحیح سلامت واپس نہ آگئے۔

دوسری روایت کے مطابق یہ غزوہ رجب کی ابتدائی تاریخوں میں ہوا۔ مشرکین کی طرف سے حرام مہینے کی حرمت پامال کرنے کا الزام لگا توارشاد ربانی نازل ہوا ،’’ماہ حرام میں قتال کرنا بہت برا ہے لیکن ﷲ کی راہ سے لوگوں کو روکنا، اسے نہ ماننا، مسجد حرام کا راستہ بند کرنا اور وہاں کے رہنے والوں کو نکال باہر کرنا اس سے بھی بد تر ہے۔‘‘(سورۂ بقرہ:217)

صحیح مسلم 6230: قرآن کریم کی آیت ”واللہ یعصمک من الناس“ اُترنے سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضورﷺ کی کافروں سے حفاظت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کوئی نہیں تھا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھلا انسان آ جاتا جو پہرے داری کرتا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسلحہ سمیت آ گئے تو حضورﷺ مسکرائے، دعا دی اور آرام سے سو کر خراٹے لینے لگے۔

5۔ غزوہ بدر میں دو کافروں کو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قیدی بنایا (ابو داود: 3388) اور سیدنا سعد کے بھائی سیدنا عمیر نے بھی اسی وقت شہادت پائی۔ یہ وہی کم عمر تھے جن کو سرکار نے فرمایا تو واپس چلا جا تو رونا شروع کر دیا تو سرکار نے فوج میں شامل کرلیا اور سیدنا سعد نے اپنی تل و ار کی حمائل لڑنے کے لئے انہیں دے دی۔

6۔ صحیح مسلم 6233:‏‏‏‏ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن سیدنا سعد کو خوش ہو کر فرمایا ”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے۔“ صحیح مسلم 6237: ‏‏‏‏ ایک شخص مشرکوں میں سے تھا جس نے احد والے دن مسلمانوں کو مارا تھا اور اس کے تیرمارنے سے ایک مسلمان عورت کی شرم گاہ ظاہر ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تیر مار اے سعد“ میں نے اس کے لیے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور گرا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ ﷺ یہ دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی کچلیوں کو دیکھا۔ صحیح مسلم 6004: سیدنا سعد نے احد کے درن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے اور بائیں حضرات جبرئیل اور میکائیل علیھما السلام کو لڑتے دیکھا۔ سبحان اللہ

7۔ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:“اللھم ادخل من ھذا الباب عبداً یحبک و تحبہ“ اے اللہ ! اس دروازے سے اس شخص کو داخل کر جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تو اس سے محبت کرتا ہے ۔ تو اس دروازے سے سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) داخل ہوئے۔(المستدرک للحاکم 499/3 ح 6117، تاریخ دمشق 223، 224/22)

8۔ صلح حدیبیہ میں معاہدہ کی گواہی میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی گواہی بھی ڈالی گئی۔ صحیح مسلم 3613: فتح مکہ پرسیدنا سعد نے ایک بچے کے متعلق عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ میرے بھائی عتبہ کا ہے، شکل بھی دیکھ لیں اس سے ملتی ہے۔ دوسری طرف سیدنا عبداللہ بن زمعہ نے کہا کہ یارسول اللہ! یہ لڑکا میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے فراش پر اس کی لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، رسول اللہ نے فیصلہ سنایا کہ جس کے بستر پر بچہ پیدا ہو، اسی کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے۔

فاتح ایران: قادسیہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کِسریٰ کو نیست و نابود کردیا۔(سر اعلام النبلاء (115/1)

1۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں سیدنا سعد کمانڈر تھے۔ 14ھ کوسیدنا سعد کو عراق پر حملہ کرنے کی کمان دی گئی۔ عراق میں موجود جرنیل اُن کے ساتھ کر دئے گئے۔ قادسیہ ایران کا دروازہ تھا، پہلے عذیب کا معرکہ پیش آیا، شیر زاد کو شکست دی۔ ایران کے شاہ یزدگرد نے رستم کو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا مگر مسلمانوں کا عزم تھا کہ ہم بت پرستی مٹانے کے لئے آئے ہیں۔ رستم نے آ کر مسلمانوں سے کئی میٹنگز کیں مگر مسلمانوں کا ایک ہی نعرہ تھا، اسلام قبول کرو ورنہ جزیہ دو۔

2۔ معرکہ شروع ہونے سے پہلے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، سورہ انفال کی تلاوت کر کے اپنے فوجیوں کو گرمایا، تین دفعہ نعرہ اللہ اکبر لگوا کر مسلمانوں کو گرمایا، حملہ کرتے ہوئے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا وظیفہ سمجھایا۔ عاصم بن عمرو، عمرو بن معدی کرب کے شاندار حملے، ہاتھیوں کی آنکھوں میں تیر مار کر آنکھیں پھوڑیں۔ دوسرے دن کو یوم اغواث کہا جاتا ہے، کمک مسلمانوں کو مزید مل گئی، قعقاع کی قیادت میں ہزار گھڑ سوار، گھمسان کی لڑائی لیکن فیصلہ ابھی باقی ہے۔ تیسرا دن لاشیں دونوں طرف کی موجود ہیں مگر جذبہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ امیر ہاشم بن عتبہ کی قیادت میں کمک مزید پہنچ گئی، ایران کے سفید ہاتھی کا کام کیا، سب ہاتھیوں میں بگھدڑ مچ گئی۔

3۔ چوتھی رات تک لڑائی ہوتی رہی اور ایرانی فوج کے پاؤں اُکھڑگئے، رستم کا تحت گرا، بھاگا، نہر عتیق میں کودا، مسلمانوں نے ٹانگیں پکڑ پیشانی پر تلوار مار کر جہنم رسید کیا۔ ضرار بن خطاب نے ایرانی پرچم ”درفش کاویان“ اپنے قبضے میں لیا، مفرور ایرانیوں کا تعاقب کیا گیا۔ سیدنا سعد نے اپنے گھر شر اب پئے ہوئے قیدی ابو محجن ثقفی کو باندھ رکھا تھا، اُس نے حضرت سعد کی بیوی کا ترلے منتیں کر کے رسیاں کھلوا کر لڑائی میں شامل ہو ا اور ایرانیوں کو نیست و نابود کیا۔ بعد میں سیدنا سعد نے اُسے معاف کر دیا۔

4۔ ایران کی طرف مزید پیش قدمی جاری تھی حتی کہ کسری کا سفید محل نظر آ رہا تھا۔ مسلمان دجلہ کے کنارے کھڑے ہیں اور پھر یہی جذبہ بلند ہوا کہ اس دریا میں گھوڑے ڈال دئے جائیں اور باقی سب حکمت عملی سے تیر اندازی کریں۔ ایرانی ڈر چُکے تھے کہ یہ مسلمان مجنوں ہیں یا دیو، کہنے لگے دیو آگئے، دیو آگئے۔ عاصم، قعقاع کے ساتھی، دریا میں گھوڑے ہی گھوڑے۔ کوئی ایک چیز گم نہ ہوئی۔

5۔ ایران پر قبضہ، نماز جمعہ محل میں، مال غنیمت، کسری کے کنگن سیدنا عمر نے سیدنا سراقہ کو پہنا کر حضورﷺ کی پیش گوئی پوری کی۔ ایرانیوں سے مزید لڑائیاں جاری، غلام مدینے میں آتے رہے، سڑکیں گلیاں بنتی رہیں۔ رومیوں سے مقابلہ شروع ہو گیا اور تاریخ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کا نام بلند کیا۔

گورنر:: سیدنا عمر نے سیدنا سعد کو کوفے کا گورنر مقرر کیا تھا۔ سیدنا جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ نے سیدنا سعد کی شکایت سیدنا عمر بن خطاب سے کی تو سیدنا عمر نے ان کو معزول کر کے سیدنا عمار کو کوفہ کا حاکم بنادیا۔ ایک دفعہ سیدنا سعد نے کوفہ میں خطبہ دیا پھر پوچھا: اے کوفے والو! میں تمہارا کیسا امیر ہوں؟ تو ایک آدمی نے جواب دیا: ”اللہ جانتا ہے کہ آپ میرے علم کے مطابق رعیت سے انصاف نہیں کرتے ، مال صحیح تقسیم نہیں کرتے اور نہ جہا د میں شریک ہوتے ہیں “۔ سعد نے فرمایا: اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اسے اندھا کردے، اسے فقیر کردےاور اس کی عمر لمبی کردے، اسے فتنوں کا شکار کردے۔ (مصعب بن سعد) نے کہا، وہ پھر آدمی اندھا ہوگیا، وہ دیواریں پکڑ کر چلتاتھا، وہ اتنا فقیر ہوا کہ پیسے مانگتا تھا اور وہ مختار (ثقفی کذاب) کے فتنے میں مبتلا ہو کر مارا گیا ۔( تاریخ دمشق ج 22 ص 233، 234، و سیر اعلام النبلاء 113 ،114/1)

صحیح بخاری 3700: سیدنا عمر کے نزدیک سیدنا سعد خلافت کے حقدار تھے۔

بیعت: سیدنا سعد سے سیدنا عثمان کے بعد سیدنا علی کی بیعت کر لی مگر جب پوچھا گیا کہ آپ کس گروہ کے ساتھ ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:”ما أنا مع واحدۃ منھما” میں کسی ایک کے ساتھ بھی نہیں ہوں ۔(المستدرک 501 ،502/3 ح 6126)

صحیح مسلم 7432:‏‏‏ سیدنا سعد اپنے اونٹوں کے پاس تھے، اتنے میں ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے لڑا اور جس نے دنیا کے لیے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد نے ان کو دیکھا تو کہا: پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سوار کے شر سے۔ پھر وہ اترا اور بولا: تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لیے جھگڑ رہے ہیں (یعنی خلافت اور حکومت کے لیے) سیدنا سعد نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا: چپ رہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ دوست رکھتا ہے اس بندہ کو جو پرہیز گار ہے، مالدار ہے۔ چھپا بیٹھا ہے ایک کونے میں (فساد اور فتنے کے وقت) اور دنیا کے لیے اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔“ اس کے بعد اپنی وفات 55 ھ تک خانہ نشین رہے۔

ازواج: حضرت سعدبن ابی وقاص صنے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں،ازواج کے نام یہ ہیں:(1) بنت الشہاب (2) بنت قیس بن معدی کرب (3) ام عامر بنت عمرو (4) زہد (5) ام بلال بنت ربیع (6) ام حکیم بنت قارظ (7) سلمہ بنت حفض (1f60e ظیہ بنت فامر (9) ام حجر۔

اولاد: بیٹوں کے نام (1) اسحاق اکبر (2) عمر (3) محمد (4) عامر (5) اسحاق اصغر (6) اسماعیل (7) ابراہیم (1f60e موسیٰ (9) عبد اللہ (10) عبد اللہ اصغر (11) عبد الرحمن (12) عمیر اکبر (13) عمیر الاصغر (14) عمرو (15) عمران (16) صالح (17) عثمان اور بیٹیوں کے نام (1) ام الحکیم کبریٰ (2) حفصہ (3) ام القسم (4) کلثوم (5) ام عمران (6) ام الحکیم صغریٰ (7) ام عمرو (1f60e ہند (9) ام الزبیر (10) ام موسیٰ (11) حمنہ (12) ام عمر (13) ام ایوب (14) ام اسحاق (15) ملہ (16) عمرہ (17) عائشہ ہیں۔

انتقال اور تدفین: سیدنا سعد بن ابی وقاص کا انتقال مدینہ منورہ سے باہر "عقیق” نامی مقام پر ہوا، اور ان کاجنازہ مدینہ لایا گیا، یہیں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور بقیع میں تدفین ہوئی، مشہور قول کے مطابق یہ واقعہ سنہ 55ہجری میں اور دوسرے قول کے مطابق 57 ہجری میں پیش آیا (البدایۃ والنھایۃ اور الاصابۃ)۔

غلط فہمی: صحابی رسول سیدنا سعد کا جو مزار چین میں ہے، اسکی اصل حقیقت کا علم نہیں ہے کہ کیسے اور کس نے بنایا۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم لوگ لڑ رہے ہیں کہ دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہلحدیث یا شیعہ کون ہیں حالانکہ بہت آسان ہے سمجھنا:

تعلیم: دیوبندی اور بریلوی دونوں کے عقائد ایک، تعلیم ایک مگر مسجدیں جُدا جُدا۔ دو مسالک کہلانے والے قیامت کے خوف سے ڈر کیوں نہیں جاتے۔ اسلئے نہیں ڈرتے کہ خوف خدا نہیں ہے۔ بریلوی حضرات کی فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند دونوں سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک بدعت و شرک ہے۔ عوام کو بریلوی عالم احمد رضا یا دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی پر ایمان نہیں لانا بلکہ قرآن و سنت یا عقائد اہلسنت پر چلنا ہے۔ دونوں طرف کے علماء اگر تعلیم بتا دیں تو سمجھ آئے گی:

پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، ایصال ثواب، قبر پر اذان، جنازے کے بعد دعا، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم سب اعمال ہیں، ان کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ سب اعمال نہ کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔

نتیجہ: کیا عوام سوال کر سکتی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر عالم ہو یا علماء دونوں ظالم ہوئے جو اپنی نسلوں کے جاہل بنا کر لبرلز، سیکولرز اور رافضیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔

غائب امام: اہلحدیث حضرات قرآن و صحیح احادیث پر ہیں مگر شخصیت پرست ہیں۔ ان کی صحیح احادیث کا انکار کس نے کیا مگر جس شخصیت نے ان کو قرآن و صحیح احادیث کا فارمولہ دیا اس کا نام تو بتائیں لیکن اہلحدیث حضرات رافضیوں کی طرح جھوٹ بولتی رہیں گے اور ہمیشہ کہیں گے کہ بس قرآن و سنت۔ البتہ اپنی غائب شخصیت کا بتائیں گے تو مقلد ہو جائیں گے اور اگر نہیں بتائیں گے تو جھوٹے۔

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

نجات: دجالی سسٹم سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے، اپنی اپنی مسجد میں امام و خطیب سے پوچھا جائے کہ دیوبندی کو بریلوی بنانا ہو تو کیا کرنا ہو گا؟ بریلوی کو دیوبندی بنانا ہو تو کیا کرنا ہو گا؟ اہلتشیع کے پاس کونسی پنجتن کی احادیث ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو صحابہ کرام کے خلاف کس کے کہنے پر بول رہے ہیں، اہلبیت کا تو کوئی حُکم نہیں؟؟ اہلحدیث حضرات کا کونسا مجتہد ہے جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general