عمرہ کے فضائل
جب بھی عُمرہ پر جانا ہو یہ پوسٹ پڑھ لیں آپ کے بہت کام آئے گی کیونکہ آسان علمی اور پریکٹیکل انداز میں سمجھایا گیا ہے جو پہلے آپ کواسطرح کسی نے نہیں سمجھایا گیا ہوگا۔
1۔ یکے بعد دیگرے حج و عمرہ کرتے رہو، اس لئے کہ یہ دونوں غریبی اور گناہوں کو ایسے ختم کرتے ہیں جیسے دہکتی ہوئی بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کرتی ہے۔(نسائی 2630، ترمذی 810، ابن ماجہ 2887)
2۔ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے۔ (صحيح بخاری 1773 و مسلم 3289) رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔“( بخاری 1863) حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کے مہمان ہیں، اگر وہ اللہ تعالی سے کوئی دعامانگتے ہیں تو وہ قبول فرماتا ہیں اور اگروہ مغفرت طلب کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان کو بخش دیتا ہے- (ابن ماجہ 3004)۔
3۔ جو شخص حج کے لئے نکلا پھر راستے میں مرگیا تو اسکے اعمال نامہ میں قیامت تک حج کا ثواب لکھا جاتا رہے گا اور جو شخص عمرہ کے لئے نکلا پھر راستے میں مرگیاتو اسکے اعمال نامہ میں قیامت تک عمرہ کا ثواب لکھا جاتا رہے گا۔ (طبرانی اوسط) جب بھی کوئی مومن اپنا دن احرام کی حالت میں گزارتا ہےتو اس دن کا سورج اس کے گناہوں کو ساتھ لے کر ڈوب جاتا ہے۔ (صحیح الترغیب)
4۔ تلبیہ کہنے والا لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ (صحيح بخاری 1549، مسلم 1184) جب تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں زمین کے آخری کونے تک پتھر، درخت اور مٹی کے ذرے بھی تلبیہ کہتے ہیں۔ (ترمذی 828، ابن ماجہ) جب کوئی تکبیر یا تلبیہ کہتے ہوئے آواز اونچی کرتا ہے اسے خوش خبری دی جاتی ہے، صحابہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول! جنت کی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔(طبرانی اوسط)
5۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: تلبیہ میں آواز بلند کرنا اور خون بہانا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) جو شخص طواف کے سات چکر لگائے اور اس میں کوئی لغو کام نہ کرےتو، اسے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ملتاہے۔ (طبرانی کبیر) جو شخص گن کر طواف کے پورے سات چکر لگائے اور دو رکعت نماز ادا کرے وہ ایسے ہے جیسے اس نےایک غلام آزاد کیا ہو۔ (ابن ماجہ 2956، احمد) جس نے بیت اللہ کا طواف کیااور توہر قدم اٹھانے اور رکھنے پر اللہ تعالی نے اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتاہے اور اس کی ایک برائی مٹادیتا ہے اور اس کے لئے ایک درجہ بلند کردیتا ہے ۔ (حاکم و ابن خزیمہ)
6۔ (طواف کرنے والا) جب کوئی حاجی طواف میں اپنا قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، دس گناہ مٹا دئے جاتے ہیں، اور دس درجے بلند کئے جاتے ہیں۔ (احمد) اور طواف کے بعد کی دو رکعتوں کا (ثواب ایسے ہے جیسے) بنی اسماعیل میں سے ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (طبرانی، بزار) بے شک حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے سے گناہ جھڑجاتے ہیں۔(احمد)، بے شک ان دونوں کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے۔ (ترمذی 959) بے شک اللہ تعالی قیامت کے دن حجر اسود کواس حال میں لے آئے گا اسکی دو آنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھے گا، اور ایک زبان ہوگی جس سے وہ بات کرے گا چنانچہ جس نے اسے حق کے ساتھ چھوا ہوگاتووہ اس کے بارے میں گواہی دےگا۔ (ترمذی) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ستر (٧٠) غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔(طبرانی، بزار)
7۔ زمزم کا پانی: وہ مبارک پانی ہے، بھوکے کو آسودہ کردیتا ہے۔ (مسلم) اور وہ بیمار کے لئے شفا ہے۔ (بزار) اسے جس نیک مقصد کے ساتھ پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)۔ اور تیرا اپنا سر مونڈھنا، تیرے ہر بال کے بدلے تجھے ایک نیکی ملے گی، ایک برائی مٹے گی۔ (طبرانی کبیر، بزار) اور تیرا سر مونڈھنا، زمین پر گرنے والا تیرا ہر بال قیامت کے دن نور ہوگا۔ (طبرانی) استرے سے سر مونڈھنے والے کے لئے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلمنے تین مرتبہ مغفرت کی دعا فرمائی (بخاری مسلم)
2۔ عُمرہ (کمائی کا ذریعہ)
1۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ عُمرہ ایک کاروبار ہے جس میں عوام کو لُوٹا جاتا ہے۔ پاکستان میں نعتوں کے ذریعے شوق پیدا کیا جاتا ہے۔ عوام قرضہ پکڑ کر اور عورتیں نامحرم کے ساتھ بھی عُمرہ کرنے چلی جاتی ہیں۔
2۔ عوام کو فرائض (نماز روزہ) ادا کرنے کا شوق نہیں ہے مگر عُمرہ ایک مستحب عمل ہے، اس کا بہت شوق ہے، اسلئے ٹکٹ بھی عمرہ کرنے کے لالچ کے دئے جاتے ہیں۔ البتہ اللہ کریم کی بندگی اور حضورﷺ کی غلامی کے لئے کہیں بھی جانا نہیں پڑتا بلکہ اپنے پانچ فُٹ کے جسم پر اسلام نافذ کرنا پڑتا ہے۔
3۔ کچھ لوگ اپنوں کی ٹکٹ کا انتظام اسلئے کرتے ہیں کہ ٹکٹ میں سے کمیشن کھایا جائے۔ کچھ لوگ 20 بندے تیار کرتے ہیں اور خود اُن کے صدقے میں فری چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ سال میں دو مرتبہ جانے کے لئے پاسپورٹ ڈپلیکیٹ تیار کراتے ہیں تاکہ 2 ہزار ریال ٹیکس نہ دینا پڑے۔ اب سُنا ہے کہ 300 ریال ہو گیا ہے۔
4۔ ایک پیر صاحب نے پانچ ہزار فی مرید عُمرہ کروانے والے سے لیا اور پورا جہاز اپنے مریدوں کا بھر کر لے گیا۔ پیر صاحب اور عُمرہ ایجنٹ نے لاکھوں کمائے۔ اس دُنیا میں ہم نے حضورﷺ کی محبت کی کمائی کرنی ہے اور بہت سے لوگوں نے ہماری محبت سے جہنم کی کمائی کرنی ہے۔
5۔ لوگوں کو عُمرہ ایجنٹ سُہانے خواب دکھاتے ہیں کہ ہوٹل حرم کےپاس ہوں گے اور پھر دور ہوٹل دے دیا جاتا ہے۔ وہاں عُمرہ کرنے والوں کا پُرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ لاکھوں جھوٹ اس کمائی کا ذریعہ ہیں جس کا آخرت میں علم ہو گا۔
6۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سعودیہ میں یہ دو شہر مکہ و مدینہ نہ ہوتے تو اُس مُلک میں ہم کبھی نہ جاتے کیونکہ مسلمانوں کو وہاں “کفیل” کا غلام بنایا ہوا ہے۔ لاکھوں کجھوریں، ہوٹل بکنگ، کاروبار، ٹوپیاں، کپڑے، پٹرول وغیرہ یعنی سال میں اربوں کا کاروبار سعودیہ اس عُمرہ اور حج کے ذریعے سے کرتا ہے۔
7۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو عُمرے کو پسند نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ لوگوں کی مدد ہونی چاہئے، ایسے بندے نہ تو عُمرہ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مدد کرتے ہیں، صرف باتیں کرتے ہیں۔
8۔ ان ساری باتوں کے باوجود بھی ہر مسلمان یہ انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے حضور ﷺ کے در پر سلام کرنے اور اللہ کریم کے گھر کا طواف کرنےنہیں جانا کیونکہ ہر مسلمان کے دل میں حضورﷺ کے در اور اللہ کریم کے گھر دیکھنے کی شدید محبت ہے۔
3۔ عُمرہ سے پہلے مینجمنٹ
1۔ عُمرہ کرنے سے پہلے یہ غور کرنا چاہئے کہ اسقدر رقم پاس ہو کہ سعودی عرب میں اپنا خرچہ بھی کر سکیں اور اپنے گھر والوں کے لئے بھی خرچہ چھوڑ کر جائیں۔ عُمرہ کرنے والے کو پانچ جگہ پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں (1) ٹکٹ (2) ویزہ (3) ہوٹل (4) کھانا کھانا (5) واپسی پر دوستوں رشتے داروں کے لئے کچھ لانا۔
2۔ ٹکٹ، ویزہ لگوانا، رہائش اور وہاں پر معمول کی زیارتیں کروانے کے پیسے یہاں ہی ایجنٹ کو دے جاتے ہیں۔ اسلئے جب (1) ویزہ لگنے کے بعد پاسپورٹ آ جائیں تو ان کے فرنٹ اور جہاں ویزہ لگا ہے اُس کی کاپی (2) ہوٹل ووچر دیا جاتا ہے اُس کی کاپیاں (3) اپنے شناختی کارڈ کی کاپیاں ہر کوئی اپنے پاس رکھے۔ پاکستانی کرنسی کا علم ہونا چاہئے کہ ہم کتنے پیسے لے کر یہاں سے جا سکتے ہیں۔ البتہ ریال یہیں سے لے لیں تو بہتر ہے۔
3۔ ٹکٹس کو غور سے دیکھ لیں کہ جہاز کتنے بجے چلنا ہے جیسے جہاز 28 اکتوبر بروز اتوار 4.40 پر ہے، اُس نے 6.30 پر کویت رُکنا ہے، اُس کے بعد 9.10 پر چل کر 11.15 پر مدینہ ائرپورٹ پر رُکنا ہے۔ اسلئے ہفتے کا دن گذار کر جو رات آتی ہے اُس میں ائرپورٹ پہنچنا ہے تاکہ سحری کے وقت جہاز چلے وہ دن اتوار کا ہو گا۔ انٹرنیشنل فلائٹ کے لوگوں کو ہمیشہ 4 گھنٹے پہلے ائرپورٹ پر پہنچنا چاہئے۔
4۔ اگر کوئی بیمار ہے تو پہلے ہی یہاں سے دوائی وغیرہ کی جو پرچی ہوتی ہے ڈاکٹر سے مُہر لگوا کر ساتھ لے لے تاکہ فلائٹ میں پریشانی نہ ہو۔ اگر کسی نے ویل چئیر لینی ہے تو یہ بھی پتا کریں کہ کیا یہاں ائر پورٹ پر ویل چئیر دی جاتی ہے تو کس طرح ملتی ہے۔
5۔ بیگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ہینڈ بیگ اور دوسرا کپڑوں والا بیگ۔ اسلئے ہینڈ بیگ میں کتنے کلو کا وزن رکھ سکتے ہیں اور کتنے بیگ کتنے کتنے کلو کے لے کر جا سکتے ہیں اُس کا علم بھی لازمی ہے تاکہ کوئی غیر قانونی وزن نہ لے کر جائیں اور نہ وہاں سے لائیں۔
6۔ ہو سکے تو پہلے مدینہ پاک جائیں، حضورﷺ کو سلام پیش کریں، سفر کی تھکاوٹ دور کریں، احرام کی پابندی بھی نہیں کرنی ہو گی۔ اُس کے بعد وہاں سے تازہ دم نکلیں اور عُمرہ کرنے جائیں۔
7۔ جس مسلمان نے پہلی دفعہ جانا ہے وہ چاہتا ہے پورا ماہ رہے، قیام بڑھ جاتا ہے، خرچہ بڑھ جائے گا، البتہ 15 دن کافی ہوتے ہیں۔ مکہ و مدینہ پاک میں کپڑے اتنے گندے نہیں ہوتے اور پسینہ بھی اتنا نہیں آتا، اگر رنگ دار کپڑے استعمال کئے جائیں تو پانچ دن آسانی سے نکل جائیں گے۔ رات کو سونے والے کپڑے علیحدہ ہونے چاہئیں۔ اسلئے ہر کوئی جو بھی پہنتا ہے یعنی پینٹ، شرٹ، شلوار، قمیص، بنیان، رومال، چادر، تسبیح، خوشبو، کنگھی، نیل کٹر، ریزر، چُھری، ٹشو، وغیرہ سب کی ایک لسٹ بنا لے اور اُس کے بعد اپنا سامان سیٹ کر لے۔ اگر کسی گروپ کے ساتھ ہیں تو واٹس اپ گروپ بنا کر جو سامان رکھا ہے اُس کا سب کو بتائیں تاکہ وہ بھی اُسی طرح تیاری کریں۔
4۔ عُمرہ اور پابندیاں
1۔ پاکستان میں ہر مسلمان ائر پورٹ جا کر جب عُمرہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس نے ایک کتاب پڑھی ہوتی ہے یا کسی سے سُنا ہوتا ہے۔ اسلئے عام انداز میں سمجھا دیتے ہیں۔ پاسپورٹ چیک کروا کر، بورڈنگ کارڈ لے کر ائرپورٹ کے لانج میں پہنچ کر جدہ جانے والی فلائٹ کا انتظار کرنا ہے، اسلئے عام طور پر عُمرہ کرنے والا ”احرام“ وہاں سے ہی باندھ لیتا ہے۔
2۔ مرد کا احرام دو ان سلی چادریں کسی بھی رنگ کی ہو سکتی ہیں، البتہ زیادہ تر سفید رنگ کا پہنتے ہیں مگر کوئی دوسرا رنگ منع بھی نہیں ہے۔ احرام کی ایک چادر کاندھوں پر لی جاتی ہے اور دوسری نیچے باندھی جاتی ہے۔ اس میں مرد کو یہ یاد رکھنا ہے کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہوتا ہے، اسلئے اس میں احتیاط کرے۔ نیچے والی چادر اسطرح باندھیں کہ چلنے میں کوئی مشکل محسوس نہ ہو۔ اسکو باندھنے کے طریقے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ عورت کا احرام اُس کے وہی کپڑے ہیں جو اُس نے پہنے ہوئے ہیں۔
مشورہ: احرام ائر پورٹ سے باندہ لیا جائے، غُسل کر کے نفل بھی پڑھ لیں مگر”عُمرہ“ کی نیت نہ کریں بلکہ نیت اُس وقت کریں جب جہاز اُڑے۔ بعض اوقات ناگہانی حالات میں جہاز دیر سے اُڑتا ہے، اسلئے نیت کرنے کے بعد بندہ احرام کی پابندیوں میں آ جاتا ہے۔ اسلئے نیت جہاز اُڑنے کے بعد کریں یا جس کو میقات کا علم ہے وہ وہاں پر جا کر ”نیت“ کرے۔
3۔ میقات: دُنیا کے ہر کونے سے آنے والوں کے لئے میقات مقرر کیاگیا ہے۔ میقات وہ جگہ ہے کہ عُمرہ کرنے والوں کو اس سے پہلے احرام باندھ لینا چاہئے ورنہ عُمرہ کرنے والے کا جہاز میقات سے گذر گیا تو ایک بکرے کی قربانی مکہ میں دے گا۔ یہ پانچ جو نبی کریم ﷺ نے مقرر کئے ہیں اور چھٹا بعد میں مقرر کیا گیا: (1) ذوالخلیفہ مدینہ پاک والوں (2) حجفہ مُلک شام (3) قرن المنازل، نجد (4) یلملم، یمن (5) ذات عرق، عراق (6) اور ابراہیم مرسیا، بھارت و پاکستان سے سمندری راستے سے آنے والوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔
4۔ نیت: میقات سے پہلے پہلے ہر عُمرہ کرنے والے نے احرام (فرض) باندھ کر دل میں نیت کرنی ہے یا اللہ تیرے لئے عُمرہ کی نیت کرتا ہوں قبول فرما اُس کے بعد تلبیہ پڑھے لبیک الھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمتہ لک و الملک، لا شریک لک
5۔ پابندیاں شروع: (۱) احرام باندھنے والا اپنا سر، منہ اور پاؤں کی اوپر والی درمیانی اُبھار والی ہڈی ننگا رکھا گا یعنی قینچی چپل پہنے گا۔ (۲) جسم کا کوئی بال یا ناخن نہیں کاٹے گا حتی کے وضو کرتے ہوئے بھی داڑھی اور سر کا مسح بھی احتیاط سے کرے گا۔ (۳) خوشبو والی کوئی چیز نہیں استعمال کرے گا چاہے وہ کوئی ٹیشو پیپر ہو یا خوشبو والا صابن (۴) ہر حرام کام جس کا تعلق زبان (غیبت، گالی، چغلی)اور شرم گاہ سے ہے اس سے بچنا ہے۔
5۔ عُمرہ اور حرم میں داخلہ
1۔ حرم: مکہ معظمہ سے 23 کلو میٹر دور جہاں بڑا سا لکھا ہوتا ہے للمسلین فقط، اس سے آگے کافروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر کبھی عمرہ یا حج کا دَم (جُرمانہ) دینا پڑے تو پاکستان میں نہیں بلکہ اسی حرم کی حدود کے اندر دیتے ہیں۔
2۔ رشتے داروں سے مل کر، چار گھنٹے پہلے ائرپورٹ پہنچ کر احرام باندھ لینا، نیت کر کے احرام کی پابندیوں میں آ جانا، پانچ گھنٹے جہاز میں سفر، جدہ میں اُترکر باہر نکلنے میں ایک گھنٹہ، پھر جدہ سے مکہ تک کا 2 گھنٹے کا سفر، ہوٹل میں سامان رکھنا۔ بندہ مکہ پاک میں مسجد حرم کے پاس پہنچ گیا۔
3۔ آپ آرام بھی کر سکتے ہیں لیکن احرام کی پابندیاں وہی رہیں گی، بال نہ ٹوٹیں، پاؤں کی ہڈی کا ابھار نظر آئے، سر ننگا ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ مسجد حرام میں جانے سے پہلے چاروں طرف دیکھیں کہ آپ کے ارد گرد کونسے ہوٹل ہیں، وہاں پہلی دفعہ جانے والے اکثر لوگ ہوٹل بھول جاتے ہیں ویسے تو موبائل دور ہے پھر بھی ایسا کریں۔ بھوک لگی ہے تو کھانا کھا لیں اگر نہیں تو عُمرہ کے لئے تیار ہو جائیں۔
4۔ عُمرہ کے دو فرض اور دو واجب
فرض: (1) احرام اور (2) سات چکر خانہ کعبہ کے یہ فرض ہیں اس کے بغیر عُمرہ نہیں ہو سکتا۔
(1) صفا مروہ کی سعی کرنا (2) سر منڈوانا یا بال کٹوانا یہ دو واجب ہیں، اگر یہ دو واجب عمل نہ ہوں تو حرم پاک کے اندر”دَم دینا“ ہو گا۔ اسی طرح احرام کی پابندیاں جو ہیں اس کو مد نظر نہ رکھا تو دَم دینا پڑے گا۔ آپ مسجد میں داخل ہو گئے خانہ کعبہ میں پہنچ گئے۔
5۔ طواف: خانہ کعبہ میں حجر اسود کے سامنے آئیں جو خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس ہے، دایاں کندھا ننگا کر لیں جسے اضطباع کہتے ہیں۔ ایک نیت عُمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے کی تھی، اب دوسری نیت کریں کہ یا اللہ تیرے گھر کا طواف کرنے لگا ہوں، قبول فرما۔ اب خانہ کعبہ کا طواف کرنا ہے، حجر اسود کی طرف ہاتھ کر کے اشارہ کریں، اپنے ہاتھ کو بوسہ دیں، بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھیں جسے استلام کہتے ہیں۔ طواف کے ”سات چکر“ ہوتے ہیں، ہر چکر پربغیر رُکے ہوئے استلام کرتے ہوئے ”سات پھیرے“ لگانے ہیں۔
6۔ طواف کے دوران ابتدائی تین پھیروں میں مرد ”رمل“ کرتے ہیں یعنی جلد چلد چھوٹے قدم رکھے، شانے ہلاتے چلیں، بعض لوگ علم نہ ہونے کی وجہ سے مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں، بھیڑ میں اکثر رمل نہیں بھی ہو پاتا تو کوئی گناہ نہیں، سات پھیروں کے بعد، آٹھویں مرتبہ حجر اسود کا استلام پھر کریں۔ رمل اور اضطباع نہیں کیا تو کوئی دم دینا نہیں پڑتا۔ کوئی بھی دعا خانہ کعبہ کے گرد گھومتے ہوئے پڑھ لیں کوئی گناہ نہیں ہے۔
7۔ طواف فرض تھا ختم ہو گیا اب اس کی خوشی میں دو نفل ”مقام ابراہیم“ پر پڑھیں لیکن یہاں رش ہوتا ہے اسلئے آپ حجر اسود کی سیدھ میں پیچھے جائیں تو صفا مروہ شروع ہوتا ہے، اُس سے پہلے عورتیں اور مرد وں کیلئے جگہ بنی ہوتی ہے وہاں جا کر آپ اب اضطباع ختم کریں یعنی اب دونوں کاندھوں پر احرام لے کردو نفل پڑھیں۔ طواف کے بعد نفل میں کندھا ڈھانکنا ہے۔
8۔ مُلتَزَم: نماز اور دُعا سے فارغ ہو کر ملتزم سے لپٹ جائے۔ دروازۂ کعبہ اور حجر اسود کے درمیانی حصہ کو ملتزم کہتے ہیں۔ اس میں دروازہ کعبہ شامل نہیں۔ یہاں بھی رش ہوتا ہے، خوشبو بھی لگی ہوتی ہے، اسلئے اگر اس وقت دُعا دور سے کر لیں تو بھی ٹھیک ہے۔
9۔ آب زم زم: صفا مروہ کی سعی سے پہلے آب زم زم کے کولرلگے ہوتے ہیں، وہاں خوب آپ زم زم پئیں، دُعا مانگیں (اے اللہ مجھے علم نافع نصیب فرما، وسعت اور فراخی سے روزی عطا فرما اور ہر بیماری سے شفا دے)، اُس کے بعد صفا مروہ کی سعی شروع کریں۔
10۔ صفا مروہ کی سعی: کوہ صفا پر کھڑے ہو کر سورہ بقرہ کی یہ آیت یاد ہو تو پڑھیں ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ۔۔۔فان اللہ شاکر علیم۔ حجر اسود کی طرف دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دعا پڑھیں بسم اللہ والحمدللہ و اللہ اکبر یہ استلام ہوا۔
11۔ نیت: اے اللہ میں تیری رضا اور خوشنودی کی خاطر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے سات چکر کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں تو اسے میرے لئے آسان فرما دے اور قبول فرما۔
12۔ قرآن، درود، کلمہ جو کچھ مرضی پڑھتے ہوئے یہ چکر لگائیں یا خاموشی سے لگائیں کوئی گناہ نہیں ہے۔ صفا سے مروہ جاتے ہوئے سبز لائٹ لگی ہو گی، سبز لائٹ کے درمیان مرد دوڑتے ہیں۔ صفا سے جب مروہ آئے تو ایک چکر ہو گیا۔ مروہ سے صفا آئے تو دو چکر ہوگئے، پھر صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا چار چکر ہو گئے، پھر صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا چھ چکر ہو گئے، اُس کے بعد صفا سے مروہ گئے تو سات چکر پورے ہو گئے۔ کچھ لوگ صفا اور مروہ دو چکروں کو ایک سمجھتے ہیں جس پر وہ 14 چکر لگاتے ہیں۔ صفا اور مروہ کی سعی کے بعد، اگر ہو سکے تو دو نفل حجر اسود کی سیدھ میں کھڑے ہو کر پڑھ لیں اگر مکروہ وقت نہیں ہے۔
14: حَلق یا تَقصیر: تقصیر یعنی کم از کم چوتھائی سر کے بال انگلی کے پورے برابر کٹوانا۔ اس میں یہ احتیاط رکھیں کہ ایک پورے سے زیادہ کٹوائیں۔ کچھ لوگ قینچی سے چند بال کاٹ لیا کرتے ہیں حنفیوں کے نزدیک یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔ عورتوں کے لئے اتنا ہے کہ اپنے بالوں کے آخیر سے ایک پورے کے برابر کاٹ لیں۔ اس سے عُمرہ مکمل ہو جاتا ہے۔
15۔ صفا و مروہ کی سعی میں وضو ٹوٹ جائے تو پھر بھی سعی ہو سکتی ہے کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ ناپاکی کی حالت میں بھی سعی کی جا سکتی ہے۔ البتہ طواف بغیر وضو کے نہیں ہوتا۔
ضروری: عمرہ میں احرام، میقات سے پہلے نیت و تلبیہ اور احرام کی پابندیاں بہت ضروری ہیں۔ بال، میل، ناخن، خوشبو کا استعمال، سر ننگا، قینچی چپل تاکہ ابھری ہوئی ہڈی نظر آئے۔ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر حجر اسود کے پاس طواف کی نیت کر کے سات چکر لگا کر 2 نفل پڑھکر صفا و مروہ کے سات چکر لگا کر بال کٹوانا یا ٹنڈ کروانا بہت ضروری ہے۔ عمرہ میں استلام، اضطباع، رمل، دعائیں، ملتزم پر نہ جا سکیں، آب زم زم نہیں پیا توعمرہ ہو جائے گا۔ ضروری پر غور کرکے جائیں اورباقی اعمال میں بھی احتیاط کریں۔ حرم یا احرام کی وجہ سے جن کاموں کا کرنا ناجائز ہوجاتا ھے ان کے ارتکاب سے یا حج کے واجبات میں سے کسی واجب کے چھوٹ جانے سے دم واجب ہوتاہے۔ اگر عمرہ صحیح نہیں ہوا تو دم نہ دیں بلکہ مسجد عائشہ جائیں اور عمرہ دُہرا لیں، اس سے دم نہیں دینا پڑے گا۔
6۔ عُمرہ کرنے کے بعد
1۔ عُمرہ کرنے کے بعد عوام کو سوائے کھانے پینے، پھرنے پھرانے یعنی زیارات کرنے، اپنی حیثیت کے مطابق بازار چیزیں خریدنے اور نمازیں مسجد حرام میں پڑھنے کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اسلئے عوام جہاں سے سستا کھانا ملے یا اچھا کھانا ملے اُس کی تلاش میں رہتی ہے۔ امیر لوگ زیادہ تر کلاک ٹاور کے ہوٹل میں کھانا کھانے کی کوشش کرتے ہیں یا عوام البیک کی قطاروں میں کھڑی نظر آتی ہے۔
2۔ پاکستان میں عورت مسجد میں نماز ادا نہیں کرتی لیکن عُمرے پر جب جاتی ہے تو وہاں مساجد میں نماز ادا کرتی ہے۔ قانون عورت کے لئے بھی مسجد حرام اور مسجد نبوی میں بھی وہی ہے کہ اپنی رہائش پر نماز ادا کر لے اُس کا ثواب زیادہ ہے مگر عوام کو علماء نہیں سمجھا سکتے۔ عورتیں بھی کہیں گی کہ کسی بھی شاپنگ مول میں ہم جا سکتی ہیں تو امام کے پیچھے نماز کیوں نہیں ادا کر سکتیں۔ اسلئے یہ سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔ البتہ کم از کم عورتوں کو چاہئے کہ جو عورتوں کی نماز کے لئے وقف جگہ ہے اُس میں نماز ادا کریں، طواف میں بھی مردوں کے ساتھ لگنے میں احتیاط کریں۔ البتہ عُمرے سے فارغ ہونے کے بعد اگر ہر مسلمان پانچ نمازوں کے ساتھ پانچ طواف کرے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ بار بار عُمرہ کرنے سے بھی بڑی سعادت ہے۔
3- چھوٹا عُمرہ ہم رسم و رواجی کرتے ہیں اور ماں باپ کے ایصالِ ثواب کے لئے کرتے ہیں۔ چھوٹا عُمرہ کرنا بھی نفلی کام ہے اور بڑا عُمرہ کرنا بھی مستحب ہے اسلئے ہر مسلمان جب بڑا عُمرہ یعنی جب پہلا عُمرہ کرے تواُس کو چاہئے کہ یہ کہے کہ یا اللہ میں نے یہ عُمرہ کیا، اس پر جو تو نے ثواب عطا فرمایا، یہ ثواب میں دُنیا کے تمام زندہ ،وفات پا جانے والے اور دنیا میں آنے والے مسلمانوں کو ایصالِ ثواب کرتا ہوں۔ اُسکے بعد ہر مسلمان کوئی بھی نفل، طواف کے سات چکر، قرآن پڑھ کر ہر ایک کو ایصالِ ثواب کرتا رہے۔
چھوٹا عُمرہ حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی مسجدیا مقام جعرانہ سے کرتے ہیں، کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ عُمرہ پر جانے والے یہ جان لیں کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں چار عُمرے کئے ہیں، اسطرح باربارعُمرے نہیں کئے لیکن عمرے پر جانے والا فارغ ہوتا ہے، اسلئے اماں عائشہ کی مسجد یا مقام جعرانہ سے احرام باندہ کر عُمرہ کرتا رہتاہے، کوئی ممانعت نہیں ہے۔
چھوٹا اور بڑا عُمرہ کے الفاظ احادیث کے نہیں ہیں بلکہ یہ عوام کی اپنی ایجاد ہے کیونکہ عُمرہ عُمرہ ہی ہوتا ہے۔ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ البتہ حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی مسجد سے احرام باندھنے کا ثواب زیادہ اسلئے ہو گا کہ حضورﷺ نے وہاں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو احرام باندھنے کا فرمایا۔
4۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ حرم شریف مکہ مکرمہ میں اگر جوتے باہر چھوڑ کر اندر جائیں تو واپسی پر ان کا ملنا مشکل ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں واپسی پر باہر جو جوتے پڑے ہوتے ہیں ان کا پہن کر ساتھ لے جانا جائز ہے یا نہیں؟
(۱) جن جوتوں کے بارے میں خیال ہو کہ مالک ان کو تلاش کرے گا ان کا پہننا جائز نہیں۔ اورجن کو اس خیال سے چھوڑدیا گیا کہ خواہ کوئی لے، ان کا پہننا جائز ہے۔
(۲) اگر کوئی شخص اپنے جوتے کسی چیز میں ڈال کر کندھے پر لٹکا کر حرم شریف کے اندر لے آئے اور طواف کرے، یا صفاء مروہ کی سعی کرے یا اس کے ساتھ نماز پڑھے تو اگر اس کے جوتے میں نجاست لگی ہوئی نہیں ہے تو سب اعمال صحیح ہیں، اور اگر جوتے میں نجاست لگی ہوئی ہے تو نماز نہ ہوگی، اورطواف کراہت کے ساتھ درست ہوجائے گا اور سعی بلاکراہت درست ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے جوتوں کو صاف اور پاک کرکے اپنے بیگ کے اندر رکھ کر نماز، طواف اور سعی کریں۔
7۔ عُمرہ اور مکہ مکرمہ کی زیارات
1۔ عُمرہ میں مکہ مکرمہ کی زیارات کرنے کا مزہ اُس وقت ہے جب تاریخ کا علم ہو، قرآن و احادیث کا علم ہو۔ یہ یاد رہے کہ اگر کوئی عُمرہ کرنے جائے اور زیارتیں کرنے نہ جائے تو عُمرہ پھر بھی ہو جاتا ہے۔ عُمرہ کرنے کا زیارتوں سے تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح ہر متبرک جگہ پر دُعا یا نفل پڑھنا ہر ایک کی اپنی مرضی ہے ورنہ لازم نہیں ہیں۔ یہ اسلئے بتایا کہ عوام غارِ حرا اور غارِ ثور میں نفل پڑھنے پر لڑ رہی ہوتی ہے اور یہ بھی نہیں دیکھتی کہ مکروہ وقت ہے۔
2۔ زیارتیں کریں کیونکہ غارِ حرا میں حضورﷺ پر پہلی وحی آئی، غارِ ثور میں ہجرت کے وقت حضورﷺ تشریف لے گئے، جبلِ ابو قبیس پہاڑی جودنیا کا سب سے پہلا پہاڑ ہے جو کوہِ صفا کے پاس ہے اور جس پر کھڑے ہو کر حضورﷺ نے چاند کے دو ٹکرے کئے، مسجدِ جن جہاں جنوں نے اسلام قبول کیا، کوہ مروہ کے پاس وہ لائبریری جہاں حضورﷺ کا گھر تھا جس میں آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی، مروہ کے پاس چھتا بازار میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا گھرجہاں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا حضورﷺ کی ساری اولاد پیدا ہوئی اور وہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تھے۔ دارِ ارقم وہ مکان جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور اب وہاں صفا کے پاس ”باب دار ارقم“ لکھا ہوا ہے، جنتِ معلی قبرستان کے متعلق حضورﷺ نے فرمایا کہ اس قبرستان والے کل قیامت والے دن امن سے اُٹھیں گے اور جہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی قبر مبارک بھی ہے۔ مسجد عائشہ رضی اللہ عنھا تنعیم کا علاقہ جہاں حضورﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو بھیج کر عُمرے کی نیت کروائی، اور مسجد جعرانہ جہاں حضورﷺ نے غزوہ طائف کے بعد عُمرے کے لئے احرام باندھا تھا۔
3۔ منٰی کا علاقہ جہاں پر علامتی شیطان بھی موجود ہیں، جن کو حاجی کنکریاں مارتے ہیں، مسجد حیف بھی منٰی میں موجود ہے جہاں 70 انبیاء کرام نے نماز پڑھی جن میں حضرت موسی علیہ السلام بھی شامل ہیں اور70 انبیاء کرام کی قبریں زیر زمین ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو قربان کرنے کی کوشش کی وہ مقام بھی منٰی میں ہے۔ مزدلفہ میں مسجد مشعر الحرام بھی ہے جہاں اللہ کریم کو یاد کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے،وادی عرفات میں مسجد نمرہ بھی ہے جو سال میں ایک بار کھلتی ہے اور خطبہ حج اُسی میں دیا جاتا ہے۔ جبل رحمت کو کس نے رحمت کا پہاڑ کہا معلوم نہیں ہے، البتہ اسے جبل عرفات کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت اماں حوا اور حضرت آدم علیہ السلام کی ملاقات اس مقام پر ہوئی، ایک دوسرے کو پہچانا، توبہ بھی اسی مقام پر قبول ہوئی۔
4۔ ایک بندہ منٰی میں علامتی شیطان کے پاس سے گذرا اور اُن کو بڑا سا پتھر مارا۔ پوچھا یہ کیا کیا، کہنے لگا اس شیطان کو زور سے لگا ہو گا، مجھے ثواب ہو گا۔ اب ایسوں کو کون سمجھائے کہ یہ علامتی شیطان ہے اور جو تم نے کام کیا اُس کا کوئی ثواب نہیں ہے، یہاں کنکر صرف حج میں مارنے ہوتے ہیں۔
5۔ اسی طرح ہر متبرک جگہ پر ہماری عوام ”مارکر یا رنگ“ سے اپنے اپنے نام لکھتے رہتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں اس سال نام لکھو اگلے سال پھر آنا نصیب ہو گا۔ یہ مذاق عوام کا اپنا ہے اور یہ وہی عوام ہے جو ٹوائلٹ کے دروازوں پر لکھتی رہتی ہے۔ یہ بھی بڑا مجاہدہ ہے کہ آپ وہاں کی حقیقت سمجھتے ہوئے وہاں اپنا نام نہ لکھیں، البتہ یہ یقین ضرور رکھیں کہ اللہ کریم کے ریکارڈ میں آپ کا نام آ گیا ہوا ہے۔
دم اور صدقہ: کوئی غلطی ہو تو ضرور بتائیں۔ دم اور صدقہ کس پرلگتا ہے یہ وہی سمجھے گا جسے عمرے کے واجبات سمجھ آ جائیں گے۔
عمرہ اور زیارات کے بعد مدینہ روانگی
1۔ عُمرے کا مدینہ پاک کی زیارت سے کوئی تعلق نہیں ہے، عُمرہ مکہ پاک میں ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ مکہ پاک میں توحید کا اثر لینے کے بعد رسالت کی مہک سے دماغ کو معطر کرنے کے لئے ہر مسلمان مدینہ پاک کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ سُنی سنائی باتوں سے بہتر خود علمی مشاہدہ کرنا ہے۔
2۔ مدینہ پاک کی حاضری سے مقصود حضورﷺ کی ذات اقدس کے حضور ”درود و سلام“ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنی قبر انور میں ذات و صفات اورکمالات و معجزات کے ساتھ حیات ہیں، آپ ﷺ رحمتہ اللعالمین ہیں، البتہ بعد از وصال آپ ﷺ کے اس دُنیا میں کوئی فرائض نہیں ہیں کیونکہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ حضورﷺ بعد از وصال ہماری اس دُنیا میں یہ یہ کام کرنے کے ذمہ دار ہیں، البتہ یا رسول اللہ مدد کہنا ایسے ہی ہے جیسے حضورﷺ کے توسل سے دُعا کرنا۔ اسی طرح اللہ کریم کے حُکم سے خواب میں تشریف لائیں یا کسی اور وسیلے سے مدد ہو جائے وہ بھی حق ہے۔
3۔ حضورﷺ کی مسجد میں داخل ہو کر حضورﷺ کے گنبد حضرا (سبز) کے پاس آ کر قبر انور کے چاروں طرف سے کہیں سے بھی حضورﷺ پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ مخصوص طریقہ یہی ہے کہ باب السلام سے داخل ہوا جاتا ہے اور قطار میں شامل ہو کر جب حضورﷺ کے روضے کی جالیوں کے پاس بندہ آتا ہے تو جالیوں کے اندر دیکھتا ہے، وہاں ایک تعویذ پر سبز رنگ کا کپڑا دیا ہوا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہی قبر انور ہے حالانکہ قبر انور تو صدیاں ہو گئیں کسی نے دیکھی ہی نہیں ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ قبروں کی ترتیب کیا ہے کیونکہ قبروں کی ترتیب میں بھی دو رائے ہیں۔ البتہ روضے کی جالیوں کی زیارت کو قبر کی زیارت ہی سمجھا جاتا ہے اور وہاں پر درودوسلام پڑھ کر اپنے لئے دعا کی جاتی ہے۔ جالیوں کے درمیان میں سبز رنگ سے حضورﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھم کے نام لکھے ہیں، اُس مقام پر ایک ایک کو سلام پیش کریں اور آخر پر اپنی بخشش کی دعا مانگ کر باہر نکل جائیں۔
4۔ کنجری نے کتے کو پانی پلایا بخشی گئی یہ حدیث ہم سُنتے آئے ہیں، کیا کوئی مسلمان اس وقت بتا سکتا ہے کہ کس وقت، کس محفل، کونسی نماز یا ذکر کرتے ہوئے، کس جماعت میں شامل ہو کر اُس کی ”بخشش“ ہو چُکی ہے، اگر ہو چُکی ہے تو اب مانگنا کیا ہے؟ اگر بخشش نہیں ہوئی تو لڑائی نہ کریں کیونکہ دُعا ہر جگہ قبول ہے اور فرائض پورے ہونے کے بعد بھی دُعا قبول ہے، متبرک جگہوں پر بھی دُعا قبول ہے۔
5۔ یاد رکھیں کہ بخشش کا کوئی وقت نہیں ہوتا، کسی لمحے اور کسی بھی نیک کام سے ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے گھر میں اللہ کریم نہیں دیتا مگر اللہ کریم کے محبوب کے در پر اللہ کریم ضرور دیتا ہے حالانکہ اللہ کریم ہر ایک کو اُس کے گھر میں بھی دیتا ہے، اسلئے اللہ کریم کی ذات کو محدود نہ کریں وہ ہر وسیلے سے دیتا ہے اور بغیر وسیلے کے بھی عطا فرماتا ہے۔ایک اور بات بتا دیں کہ سارے مسلمان ہر جگہ دُنیا مانگ رہے ہیں یا دین مانگ رہے ہیں؟ ہماری خواہشات کا مسئلہ ہے یا صبر شُکر کا مسئلہ ہے؟
6۔ مسجد نبوی میں 40 نمازیں پوری کرنا ایک وظیفہ ہے، اگر کوئی یہ وظیفہ کرے تو ٹھیک ورنہ کوئی 40 نمازیں جماعت سے ادا نہ کر سکے تب بھی گناہ گار نہیں ہے، اپنی جماعت کروا کر40 نمازیں ادا کر لے تب بھی ٹھیک ہے۔ نمازیں مسجد میں پڑھنے کا حُکم ہے صحن میں نہیں، بہت سے لوگ گنبد حضرا کے سائے تلے نماز ادا کرنا سعادت سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسجد وہی ہے جو دروازہ گذر کر اندر جا کر آتی ہے، اسلئے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب مسجد کے اندر ملے گا۔ صحن میں نہیں ملے گا، البتہ مسجد بھر جائے تو پھر صحن میں بھی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد وہی ہے جو زمین کے نیچے سے لے کر آسمان تک مسجد ہے، اُس کے نیچے کوئی کار پارکنگ یا وضو خانے نہیں ہو سکتے۔
مسجد نبوی
1۔ کہیں اور کسی مُلک کا سفر کرنا ہو تو وہاں کی مشہور جگہوں کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرا اُن کی زبان سیکھ لینی چاہئے۔ البتہ عُمرہ کرنے جانا ہو تو وہاں کے متبرک مقامات کیا ہیں اور موجودہ اُن کی حیثیت کیا ہے، یہ دیکھ لینا چاہئے۔
2۔ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب مسجد حرام سے آدھا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ نماز مسجد کے اندر پڑھیں، باہر چھتریوں کے نیچے یا گنبد حضرا کے پاس اُس وقت پڑھیں جب مسجد میں جگہ نہ ہو۔
3۔ مسجد نبوی میں حضورﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ روضہ کا مطلب ہے کہ وہ قبر (مزار) جس پر گنبد بنا ہو۔ حضورﷺ کی قبر انور مسجد نبوی کے ساتھ روضے کی جالیوں کے اندر ہے۔
4۔ روضے کے ارد گرد یعنی مسجد کے د دروازوں پر کچھ نام لکھا ہے۔ مسجد نبوی کے ہر دروازے کا اپنا نام اورتاریخ ہے، علمی حضرات عُمرہ کرنے جائیں تو کتابوں سے تفصیل پڑھ کر جائیں جیسے:
باب جبرائیل: اس مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تھے، متبرک مقام ہے۔
باب النساء: یہ ابو العباس سفاح کی بیٹی کا نام تھا، یہ گھر اُن کے گھر کے سامنے تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی توسیع کے وقت فرماتے کہ یہ باب النساء ہے اور ادھر سے کبھی نہ گذرتے۔ یہ دروازہ عورتوں کے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا۔
باب النبیﷺ: اس دروازے سے حضورﷺ گھر داخل ہوتے تھے، اس دروازے کو بند کر کے ایک کھڑکی کھول دی گئی جس پر لکھ دیا گیا ان اللہ و ملئکتہ یصلون
باب علی: باب جبرائیل کے پاس ہی چھوٹی سی کھڑکی کھول دی گئی ہے جس کو باب علی کہتے ہیں، یہ حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حجرے کے مقابل ہے۔
باب البقیع: حضورﷺکی قبر انور کے چاروں طرف جہاں مرضی کھڑے ہو کر حضورﷺ پر درود و سلام بھیجیں، البتہ مخصوص طریقہ یہی ہے کہ مسجد نبوی کے باب السلام سے داخل ہوتے ہیں اور آخر میں روضے کی جالیوں کے پاس سلام کر کے گذرتے ہوئے باب البقیع سے باہر نکل جاتے ہیں۔ باب البقیع سے نکلیں نظر اُٹھائیں توسامنے قبرستان (جنت البقیع) میں دس ہزار صحابہ آرام فرما رہے ہیں۔
باب صدیق: بعض دروازے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے گھر کی وجہ سے رکھے گئے ہیں جو مسجد نبوی کی توسیع سے پہلے آس پاس موجود تھے۔
5۔ باب البقیع سے باہر نکل کر روضے کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگیں توشُرطے اُس کو شرک شرک کہتے پڑ جائیں گے حالانکہ ”شرک“ اللہ کریم کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ماننا ہے۔ اسلئے شاھد (حاضر ناظر)، عالم الغیب، مُختارِ کُل اور نور و بشر کے مجازی الفاظ پر شرک نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی نبی کریم ﷺ کو اللہ کریم کے برابر کسی بھی صفت میں نہیں سمجھتا۔
6۔ مسجد، بازار، گھر، بیت الخلاء وغیرہ کی دُعائیں کیا ہاتھ اُٹھا کر کرتے ہیں، بالکل نہیں، اگر کوئی مسلمان صرف روضے کی طرف مُنہ کر کے ہاتھ اُٹھائے بغیر دُعا کرے تو اُس کو کیسے سمجھائیں گے۔ اسلئے مُشرک وہی ہے جو کسی کو ”الہ“ سمجھتا ہے۔ ہمارا پروردگار وحدہ لا شریک ہے۔ اسلئے قرآن و احادیث کے مطابق مُشرک کی بخشش نہیں ہے۔ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے کسی کتاب میں قرآن و احادیث کے خلاف نہیں لکھا۔ اسلئے آل وہاب کا اہلسنت کو بدعتی و مُشرک کہنا بنتا ہی نہیں۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ اس کو کفریہ نہ ماننے والوں کو توبہ کرنی چاہئے۔
مسجد نبویﷺ اور ریاض الجنتہ
1۔ حضورﷺ کے دور کا شہر اب مسجد نبوی بن چُکا ہے۔ مسجد میں ہر قدم پر برکتیں ہیں۔ البتہ مسجد نبوی میں ریاض الجنتہ کی اہمیت اسلئے ہے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے”جو جگہ میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔“
2۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد رسول اللہ ﷺ جہاں نماز ادا کرتے تھے، آپ ﷺ کے قدموں کی جگہ چھوڑ کر سجدے والی جگہ تک دیوار کر دی گئی تاکہ آپ ﷺ کے سجدے کے مقام پر کسی کے پاؤں نہ لگیں، محراب میں نفل پڑھنے والا ”سجدہ“ رسول اللہ ﷺ کے قدموں پر کرتا ہے۔ اس محراب کے اوپر سورہ احزاب کی آیت نمبر 56 لکھی ہوئی ہے جس میں درود پاک پڑھنے کا حکم مومنین کو دیا گیا ہے۔ اس منبر سے لے کر رسول اللہ ﷺ کی قبر انور جس گھر تک ہے وہ ٹکڑا جنت کا ٹکڑا کہلاتا ہے۔
3۔ جہاں آجکل اذان دی جاتی ہے یا امام اونچی سی سیڑھیوں پر آ کر بیٹھتا ہے وہ جگہ حضورﷺ کے دور میں نہیں بنائی گئی بلکہ اذان مسجد سے باہر ہوا کرتی تھی۔
4۔ ریاض الجنتہ میں نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کا نہیں ہے بلکہ مسجد نبوی میں کہیں بھی صف بندی کرکے نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار کا ہے۔ البتہ عوام کاوہاں نفل پڑھنا جائز ہے مگر عوام کو یہ بھی نہیں علم ہوتا کہ یہ مکروہ وقت ہے وہ بس نفل ادا کرنا شروع ہو جاتی ہے۔
5۔ ریاض الجنتہ میں مختلف ستون ہیں اور ان کے نام یہ ہیں۔
ستون حنانہ: یہ منبر رسول ﷺ کے پاس جگہ ہے کیونکہ کھجور کا تنا حضورﷺ کا منبر بننے کے بعد رویا تھا۔
ستون عائشہ: روضہ رسول ﷺ کی جانب چلیں تو راستے میں آنے والا تیسرا ستون جس پر ستون عائشہ رضی اللہ عنھا لکھا ہوا ہے، یہاں نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ملتا ہے، یہ نشاندہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھانے کی تھی۔
ستون ابی لبابہ: روضہ رسولﷺ کے بالکل سامنے ستون ابی لبابہ رضی اللہ عنھا جسے ستون توبہ بھی کہتے ہیں، یہاں ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو رسیوں سے باندھا تھا کیونکہ انہوں نے یہودیوں کو بتا دیا تھا کہ تم کو اب قتل ہونا ہے اور اس میں ان کی سوچ غلط نہ تھی، اسلئے اللہ کریم نے ان کو معاف کیا اور حضورﷺ نے ان کو فجر کے بعد رسیوں سے آزاد کیا۔
ستونِ سریر: سریر کا مطلب ہے سونے کی جگہ۔ اس جگہ آپ نے اعتکاف فرمایا اور سونے کے لئے چٹائی بچھائی۔ اسلئے اس ستون کا نام ستونِ سریر ہے۔
ستون وفود: مدینہ پاک میں غیر مسلم یا مسلمان وفود سے حضورﷺ یہیں ملاقات فرماتے۔
ستون حضرت علی: یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہتے، نوافل ادا کرتے اور صحابہ کرام آ کر آپ کے پاس بیٹھ جاتے۔
ستونِ تہجد: اصحاب صفہ کے چبوترے کے سامنے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے حجرے کے کونے پر واقع ہے جہاں حضورﷺ تہجد کی نماز ادا کرتے۔
ستونِ جبرائیل: یہ ستون روضے میں شامل ہو چکا ہے۔ یہاں سے داخل ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
صفہ کا چبوترہ: یہ ریاض الجنتہ میں داخل نہیں ہے لیکن یہ وہ تھڑا ہے جہاں فقرا صحابہ کرام مستقل طور پر رہتے اور حضورﷺ سے تعلیم لیتے۔
تجزیہ: کتاب لکھنے سے نہیں بلکہ مسجد نبویﷺ میں ان ستونوں کو دیکھنے کے بعد ان جگہوں کی ہسٹری پڑھنے کے بعدعلم والوں کوسمجھ آتی ہے، البتہ اگر یہ ستون، ممبر کا قصہ، ریاض الجنتہ کا حصہ، اصحابِ صفہ کا چبوترہ وغیرہ کسی کی سمجھ نہ آئے، تو کوئی گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہماری عبادت پانچ وقت کی نماز ادا کرنا ہے اور اپنے اپنے فرائض پورے کرنے ہیں۔
دُکھ: ایک بندہ حضورﷺ کے روضے پر سلام کر کے باہر نکلا اور پوچھنے لگا کہ حضورﷺ کو سلام کرنے کے بعد نفل کہاں پڑھنے ہیں تو اُسے سمجھایا نفل نہیں پڑھے جاتے تو کہنے لگا تم وہابی ہو۔ وہابی وہی ہیں جنہوں نے چار مصلوں والے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مُشرک کہہ کر جہا د کیا اور دیوبندی وہی ہیں جو ”چار کفریہ عبارتوں“ پر فتوی لگنے کے بعد اپنے علماء کے کفر کو کفر نہیں مانتے۔ اسلئے دیوبندی علماء کو اس سے توبہ کرنی چاہئے۔
مدینہ منورہ کی زیارات
جنت البقیع: مدینہ منورہ کا سب سے پہلا قبرستان ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے ہاتھوں سے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اس قبرستان میں سپر دخاک کیا۔ جنت البقیع میں ہزاروں صحابہ کرام آرام فرماہیں۔
جبل احد: مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان دوسرا غزوہ پیش آیا تھا جو غزوۂ احد کے نام سے مشہور ہے۔ احد پہاڑ کی فضیلت کے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ جبل احد کے قریب سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ سمیت تقریباً ستر صحابہ کرام کے مزارات ہیں جو غزوۂ احد میں کفار سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ہر سال کی ابتداء میں شہدائے احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام بھی شہدائے احد کے مزارات پر جایا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جو شخص ان شہداء کے پاس سے گزرے اور انہیں سلام کر ے تو قیامت کے دن تک شہداء اس کو سلام کا جواب دیتے رہیں گے۔ (تاریخ مدینہ)
مسجد قبا: حضور نبی اکرم ﷺ جب مکہ ہے ہجرت کرکے شہرِ مدینہ کی اس بیرونی بستی قبا میں پہنچے تو چند دن یہاں قیام فرمایا اور اسی مقام پر ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ ابتداء ً اس مسجد میں بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی۔ مسجد قبا عالم اسلام کی وہ پہلی مسجد ہے جس کی تعمیر کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پتھر اور گارا اٹھایا۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ہفتہ کے دن پیدل یا سوار ہوکر اس مسجد میں تشریف لاتے تھے اور دو رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔ (بخاری: ۱۱۹۳) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا پھر مسجد قبا جاکر نماز پڑھی تو اسے عمرے کا ثواب ملے گا۔ (ابن ماجہ: ۱۴۱۲)
مسجد الغمامہ: اس مسجد میں نجاشی بادشاہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی اور عید کے روز بادل چھا گئے۔
مسجد قبلتین: دو قبلوں والی مسجد یعنی ایک قبلہ خانۂ کعبہ کی طرف اور دوسرا مسجد اقصیٰ کی طرف۔ مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں یہ مسجد واقع ہے جہاں 2ھ میں نماز کے دوران تحویل قبلہ (قبلہ تبدیل کرنے ) کا حکم آیا اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی جانب پھیرا۔ چونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو "مسجد قبلتین”یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد بئر رومہ کے قریب واقع ہے۔
مسجد جمعہ: قبااور مدینہ منورہ کے درمیان محلہ بنو سالم بن عوف میں واقع ایک مسجدہے جہاں نبی کریم ﷺ نے سفر ہجرت کے دوران نماز جمعہ ادا کی تھی۔
مسجد خندق: یہ سات مسجدیں تھیں جن میں سے پانچ کو شہید کر کے بڑی مسجد مسجد خندق بنا دی گئی ہے اور دو مسجدیں ’’ مسجد فتح اور مسجد علی‘‘ کو سعودی انتظامیہ نے بند کر دیا ہے۔ مسجد علی میں زیادہ تر شیعہ حضرات جاتے ہیں۔ یہ سات مسجدیں بھی غزوہ خندق کے دوران جہاں پر سپہ سالار صحابہ نے پڑاؤ ڈالا تھا وہاں پر بنائی گئی تھیں۔سعودی گورنمنٹ کے نزدیک ان مساجد کی زیارات کرناضروری نہیں کیونکہ یہ مساجد نشانی کے طور پر تھیں اوران دو مساجد میں نماز نہیں ہوتی۔
خاک شفاء:مدینہ منورہ کی خصوصیت میں لکھا ہے کہ اس کا غبار جذام اور برص کے لئے خصوصیت کے ساتھ شفاء ہے۔ علامہ زرقانی رحمتہ اللہ علیہ بعض لوگوں کے حالات میں لکھتے ہیں جن کو برص کی بیماری تھی اور مدینہ کی پاک مٹی سے وہ اچھے ہوگئے ۔ (تاریخ مدینۃ منورۃ ۷۱) بعض لوگوں نے شفا کو خاص کیا بطحان کی مٹی کے ساتھ، تو اس میں کوئی تخصیص کی وجہ نہیں جب کہ دوسری احادیث کے عموم سے پورے مدینہ منورہ کی مٹی مراد ہے۔
وادئی جن: مدینہ پاک کی زیارات میں یہ بھی نظر آیا کہ لوگ وادئی جن جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں کار وغیرہ بڑی تیزی سے آگے پیچھے ہوتی ہے۔ وادئی جن کی کوئی سچی حدیث نہیں ملتی البتہ یہ وادئی جن تھوڑا عرصہ ہوا زیادہ مشہور ہوئی ہے ورنہ پہلی کتابیں کھول لیں کیا وہاں وادئی جن کا تذکرہ ہے۔ یہاں کوئی انسان ، گدھا، گھوڑا اونٹ وغیرہ 120 کی سپیڈ سے نہیں چلتا بلکہ صرف کار وغیرہ تیز چلتی ہے جو کہ کشش ثقل کی وجہ سے ہے۔ کار سے پہلے وادئی جن کا کوئی تذکرہ نہیں تھا اور اب وادئی جن کے متعلق جھوٹی روایات اور احادیث بیان کی جاتی ہیں۔ بہت سے سادہ لوگ 60 سے لے کر 100 ریال تک بلکہ زیادہ پیسے دے کر وہاں جاتے ہیں۔ یہ کھیل بچوں کے لئے اچھا ہے، تماشا دیکھنے والوں کے لئے اچھا ہے۔ پیسہ ضائع کرنے والوں کے لئے اچھا ہے۔ مگر عبادت گذار کے لئے نہیں جیسے نبی کریمﷺ وحی آنے سے پہلے غار حرا میں جاتے رہے ہیں لیکن وحی آنے کے بعد صرف مسجدوں میں جاتے تھے۔ اگر تاریخ کے لحاظ سے کوئی غاریں دیکھنے جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر عبادت سمجھ کر مسجد کی نمازیں چھوڑ کر جائے تو بہتر نہیں۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔