سیدنا خالد بن ولید
سیدنا خالد بن ولید، مخزوم قبیلہ، ولید بن مغیرہ کے بیٹے ہیں جس کے بارے میں قرآن کی آیات (القلم 10تا13) نازل ہوئیں۔ ماں کا نام لبانہ ہے۔ ابوجہل خالد بن ولید کا سگا چچا ہے، سیدنا عمر اور سیدنا عکرمہ بن ابو جہل دونوں سیدنا خالد بن ولید کے کزن ہیں۔ سیدہ میمونہ حضور کی بیوی اور سیدنا خالد کی خالہ ہیں اور حضور خالد بن ولید کے خالو ہیں۔ فوجی عہدے ان کے خاندان کا طرہ امتیاز تھا۔ (عقد الفرید ،جلد۲)
ظہور اسلام کے وقت سیدنا خالد اس عہدہ پر ممتاز تھے (مسند احمد بن حنبل:198/4) غزوۂ احد میں مسلمانوں کے خلاف بڑی شجاعت سے لڑے اور مشرکین مکہ کے اکھڑے ہوئے پاؤں ان ہی کی ہمت افزائی سے دوبارہ جمے۔ صحیح بخاری 2731: صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کا جو دستہ مسلمانوں کی نقل وحرکت کا پتہ لگانے آیا تھا، اس کے سردار سیدنا خالد تھے۔
اسلام: سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمرو بن العاص دونوں اکٹھے 6 یا 8ھ میں مسلمان ہوئے جس پر حضور کو بہت خوشی ہوئی۔ (اسد الغابہ:101/2)
غزوۂ موتہ: صحیح بخاری 4262 کے مطابق سیدنا زید بن حارثہ، پھر جعفر بن طیار، پھرعبداللہ بن رواحہ تینوں کی شہادت کے بعد جھنڈا سیدنا خالد بن ولید کے ہاتھ میں آیا، دو ہزار کا لشکر لاکھوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اسلئے سیدنا خالد اس میدان سے اسلامی فوج کو سخت کوشش کے بعد لے آئے جس پر انہیں سیف اللہ کا لقب عطا ہوا۔(پورا غزوہ موتہ کا باب صحیح بخاری 4260 سے 4268 پڑھیں)
فتح مکہ: فتح مکہ میں میمنہ کے افسر تھے (صحیح مسلم 4622) اور ان کو اپنے کزن عکرمہ بن ابو جہل سے لڑنا پڑا اور شکست کے بعد وہ یمن کی طرف بھاگ گیا اور بعد میں مسلمان ہوئے۔ (ابن سعد حصہ مغازی: 98، بخاری باب فتح مکہ)
غزوۂ حنین: میں بنو سلیم کا قبیلہ مقدمہ الجیش کی کمان سیدنا خالد کے ہاتھ تھی (ابن سعد حصہ مغازی: 108)، نہایت ہمت و شجاعت سے لڑلے، زخمی ہوئے، حضور عیادت کے لئے آئے اور دم کیا جس سے شفا ہوئی۔ (اسد الغابہ:۱۰۳/۲) اسی طرح غزوہ حنین کے مشرک جب طائف کے قلعہ میں بند ہوئے تو خالد کی ماتحتی میں فوج کا دستہ تھا۔ (ابن سعد حصہ مغازی:114)
تبوک: 9ھ میں ایک غلط خبر پر رومیوں کے مقابلے میں تبوک کے مقام پر پہنچے، وہاں قیام کیا، 20 دن قیام کیا (ابن سعد حصہ مغازی:114)ارد گرد کے علاقے ایلہ اور اوزح کے رئیسوں نے اطاعت قبول کرلی (رزقانی :86/3) اور سیدنا خالد بن ولید نے جو دومۃ الجندل کا رئیس اکیدر بن عبدالملک باقی رہ گیا تھا اُس کو گرفتار کیا جس نے جزیہ دے کر اطاعت قبول کی۔ (ابن سعد حصہ مغازی:120)
سریہ بنو حزیمہ: صحیح بخاری 4339: حضور نے سیدنا خالد کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔سیدنا خالدنے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں «أسلمنا.» ”ہم اسلام لائے“ کہنا نہیں آتا تھا، اس کے بجائے وہ «صبأنا.، صبأنا.» ”ہم بےدین ہو گئے کہہ بیٹھے جس پر قتل و غارت ہوئی اور حضور نے اللہ کے آگے عرض کی کہ یا اللہ میں خالد کے اس فعل سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں۔ پھرسیدنا علی کو سب کی دیت دے کر بھیجا (ابن سعد حصہ مغازی:۱۰۷) اور کتوں تک کا خون بہا ادا کیا اور اس کے بعد جتنا مال بچا سب ان ہی لوگوں میں تقسیم کردیا۔ (اسد الغابہ :102/2)
سریہ نجران: حضور نے سیدنا خالد سے کام لینا بند نہیں کیا بلکہ خاص ہدایات دے کر نجران کی طرف بھیجا۔ وہاں ان کی کوشش سے بنو عبدالمدان نے اسلام قبول کر لیا۔ (زرقانی:116/3)
سریۂ یمن:سیدنا علی اور سیدنا خالد کو یمن کی طرف بھیجا جس میں پہلے پتھر سے جواب ملا پھر محبت کی گئی تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (ابن سعد حصہ مغازی :122)
سریۂ عزیٰ: عزی قریش کا بت خانہ تھا، اس کو سیدنا خالد گرا کر آئے تو آپ نے فرمایا کچھ دیکھا، سیدنا خالد نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے ان کو دوبارہ بھیجا تو بھیانک شکل کی عورت نکلی جس کو سیدنا خالد نے مار دیا۔ (ابن سعد حصہ مغازی:105)
نبوت کا دعوی: سیدنا ابوبکر کے دور میں یمامہ کی لڑائی ہو یا منکرین زکوۃ سے لڑائی ہو ان سب کو ختم کرنے میں نمایاں کردار سیدنا خالد بن ولید کا ہے۔ (طبری واقعات:11ھ)
عراق پر فوج کشی: سیدنا خالد کو فتنہ ارتداد کے بعد عراق کی طرف روانہ کیا گیا، مقام نباج میں حضرت مثنیٰ سے مل گئے اوربانقیا اور بارسوما کے حاکموں کو مطیع کرتے ہوئے ایلہ کی طرف بڑھے، یہاں عرب وہندوستان کے بری وبحری خطوط آکر ملتے تھے، چنانچہ یہاں کا حاکم ہر مزان ہی راستوں سے دونوں مقام پر حملے کیا کرتا تھا (ابن خلدون :79/2) ہرمز کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبر ہوئی تو فوراً ارد شیر کو دربار ایران اطلاع بھیجی اورخود مقابلہ کے لیے بڑھا، کا ظمہ میں دونوں کا مقابلہ ہوا، ایرانیوں نے اپنے کو زنجیروں میں جکڑلیاتھا، کہ پاؤں نہ اکھڑنے پائیں، لیکن قعقاع بن عمر کی شجاعت نے زنجیر آہن کے ٹکڑے کر ڈالے، اورایرانیوں نے بری طرح شکست کھائی۔
مذار کی لڑائی: اس کے ساتھ ہی قارن بن قریانس کی ماتحتی میں ہرمز کی مدد کو آتی فوج نے شکست خوردہ فوج سردار قباز اورانوشجان کو امیر العسکر بنا کر نہر کے قریب پڑاؤ ڈالا، سیدنا خالد کو اطلاع ہوئی، تو وہ فوج لے کر مذار کی طرف بڑے، لب دریا دونوں کا مقابلہ ہوا، معقل نے قارن کو اور عاصم نے نوشجان کو اور عدی نے قباذ کو ختم کیا، اوراس شدت کی جنگ ہوئی کہ تیس ہزار ایرانی کام آئے، یہ تعداد اس کے علاوہ ہے جو نہر میں ڈوب کر مرے۔ (طبری:2027,2028،ابن خلدون:79/2)
کسکرکی لڑائی: ارد شیر نے اندر زغر اوربہمن کو یکے باد دیگرے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا مگر اُس وقت قدرت صرف خالد بن ولید پر مہربانی تھی اور سب کو شکست ہو رہی تھی۔ (طبری :2031/4)
الیس کی لڑائی: بہمن اور حاکم جاپان کو بری طرح شکست ہوئی (ابن خلدون:70/2، طبری:2031 تا 2037/4) اور مغیشیا عوام نے خود خالی کر دیا۔ حیرہ کے حاکم آزاد نے بھی لڑائی کی مگر شکست مقدر تھی کیونکہ سیف اللہ کہاں ٹوٹنے والی تھی۔ (ابن اثیر: 298/2)
ابنار کی تسخیر (طبری:2059,2061،وفتوح البلدان بلاذری:255) عین التمر، مقام کرخ کو تسخیر کیا گیا(طبری جلد4:2063، فتوح البلدان بلاذری:255- 257) اس کے بعد دومۃ الجندل میں عیاض بن غنم کی مدد کوسیدنا خالد کو بھیجا گیا،حضرت عاصم نے بنو کلب کو امان دیدی (طبری:2066/4، و ابن اثیر : 303/6) اورسیدنا خالد نے جودی کو قتل کرادیا اور قلعہ کا پھاٹک اکھاڑکے اندر گھس گئے اورقلعہ پر قبضہ ہوگیا۔ اسی طرح حصید وخنافس (طبری:2067 تا 2070/4) ثنی وبشر، فرائض کی لڑائیوں میں بھی سیدنا خالد نے سب کو شکست دی۔
فتوحات شام: عراق کے بعد سیدنا خالد شام کی طرف بڑھتے ہیں۔ بصری والوں کو جزیہ دے کر حفاظت میں لیا۔ (فتوح البلدان بلاذری :119)
اجنادین: اس وقت مسلمان شام کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے تھے اور ہر قل نے ان کے مقابلہ کے لیے الگ الگ دستے بھیجے تھے لیکن فلسطین کی مہم سیدنا عمر وبن العاص کے متعلق تھی، بصریٰ کے بعد تذارق اور قبقلاء نے اجنادین (فلسطین) میں اپنی فوجیں ٹھہرائیں، سیدنا خالد اور عبیدہ بصریٰ سے فارغ ہوکر سیدنا عمروبن العاص کی مدد کو پہنچے، 13ھ میں مقام اجنادین میں دونوں کا مقابلہ ہوا، تذارق اور قبقلا دونوں مارے گئے۔
دمشق: اجنادین کے بعد دمشق کی طرف بڑھے، امیر فوج ابو عبیدہ نے تین سمتوں سے اس کا محاصرہ کیا،ایک سمت پر سیدنا خالد مامور ہوئے، تین مہینے تک کامل محاصرہ قائم رہا، ایک دفعہ غفلت کی نیند میں تھے کہ تکبیر کی آوازسے حملہ کیا، چند آدمیوں کے ساتھ کمند ڈال کر شہر پناہ کی دیوار کے اس پار اتر گئے، دمشق والے ابھی تک غافل سورہے تھے اس ناگہانی حملہ سے گھبرا گئے اوردوسری سمت میں سیدنا ابوعبیدہ سے صلح کی درخواست کرکے شہر پناہ کے تمام دروازے خود کھول دیے، ایک طرف سے سیدنا خالد فاتحانہ داخل ہوئے اور دوسری طرف سےسیدنا ابو عبیدہ مصالحانہ وسط شہر میں دونوں سے ملاقات ہوئی (ابن اثیر:329/6) گونصف حصہ بزور شمشیر فتح ہوا، لیکن شرائط سب مصالحانہ رکھے گئے۔ (فتوح البلدان بلاذری:130)
فحل میں بھی رومیوں نے شکست کھائی۔ فحل کے بعد سیدنا ابو عبیدہ اور سیدنا خالد حمص کی طرف بڑھے اور یزید ابن سفیان کے ساتھ ملکر سب رومی مار دئے (ابن اثیر:371/2)، حمص کو بھی سیدنا ابو عبیدہ نے فتح کر لیا۔
یرموک: میں دو لاکھ رومی ٹپک پڑے، بہت جوانمردی کے ساتھ مقابلہ ہوا، مدتوں جاری رہی، مسلمان افسروں نے غیر معمولی شجاعت وبہادری کا ثبوت دیا، آخر رومیوں نے ایسی شکست کھائی کہ پھر ان کی اتنی بڑی تعداد نہ فراہم ہوسکی۔ یرموک کے بعد مقام حاضر میں سیدنا خالد نے میناس رومی کو شکست دی (طبری:2393) پھر قنسرین میں ہرقل کو نکال باہر پھینکا (ابن اثیر:384/2)
بیت المقدس: قنسرین کے بعد بیت المقدس کا محاصرہ ہوا، عیسائی اس شرط سے بلاجنگ حوالہ کرنے کو آمادہ ہوگئے کہ خود امیر المومنین اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں ،چنانچہ سیدنا عمر نے صلح نامہ لکھنے کے لیے شام کا سفرکیا اورتمام افسران فوج کو حابیہ میں طلب کیا، سیدنا خالد بھی آئے، ان کا دستہ دیباوحریر میں ملبوس تھا، حضرت عمرؓ کی نظر پڑی تو گھوڑے سے اتر پڑے اور کنکریاں مارکر فرمایا تم لوگوں نے اتنی جلدی اپنی عادتیں بدل دیں؛ ان لوگوں نے اسلحہ دکھا کر کہا کہ لیکن سپہ گری کا جوہر نہیں گیا ہے، فرمایا تب کوئی مضائقہ نہیں۔ (طبری فتح بیت المقدس)
حمص کی بغاوت: 17ھ میں حمص کے باشندے باغی ہوگئے لیکن سیدنا ابوعبیدہ اور سیدنا خالد کی بروقت توجہ سے بہت جلد بغاوت فرو ہوگئی اور شام کے پورے علاقہ پر مسلمانوں کا کامل تسلط ہوگیا۔
معزولی: 17ھ میں حضرت عمر نے سیدنا خالد کو معزول کردیا، معزولی کے سنہ میں مورخین کا بیان مختلف ہے، عام شہرت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے تخت خلافت پڑ بیٹھتے ہی معزول کیا تھا، لیکن یہ بیان صحیح نہیں ہے۔
صحیح روایت یہ ہے کہ 17ھ میں یعنی خلافتِ فاروقی کے 5 سال بعد معزول ہوئے، ابن اثیر کی بھی یہی تحقیق ہے، وہ لکھتےہیں فی ھذہ السنۃ وھی سنۃ سبعۃ عشر عزل خالد بن ولید یعنی 17 ھ میں خالد بن ولید معزول کیے گئے۔
ان کی معزولی کا سبب یہ ہے کہ سیدنا خالد فوجی آدمی تھے، ان کا مزاج تند تھا، اس لیے ہر معاملہ میں خود رائی سے کام لیتے تھے اور بارگاہ خلافت سے استصواب ضروری نہیں سمجھتے تھے، فوجی اخراجات کا حساب و کتاب بھی نہیں بھیجتے تھے، عراق کی پیش قدمی روکنے کے بعد حضرت ابوبکر کی مرضی کے خلاف بغیران کی اجازت کے خفیہ حج کو چلے گئے، ان کا یہ طرز عمل حضرت ابوبکر کو ناگوار ہوا (طبری:2/75)
اورآپ نے تنبیہ کی انہوں نے بارہا لکھا کہ بغیر میرے حکم کے کوئی کام نہ کیا کرو اورنہ کسی کو کچھ دیا لیا کرو، انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ مجھ کو میری موجودہ حالت پر چھوڑ دیجئے تو کام کرسکتا ہوں، ورنہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں (اصابہ:2/200)
اسی زمانہ سے سیدنا عمر ان سے برہم رہتے تھے اور باربار سیدنا ابوبکر کو ان کے معزول کرنے کا مشورہ دیتے تھے، لیکن وہ ہمیشہ جواب دیتے کہ میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں کرسکتا، جس کو اللہ نےبے نیام کیا ہے (طبری:6/2085)
سیدنا عمر کے عہدِ خلافت میں بھی سیدنا خالد نے یہ روش نہ چھوڑی، لیکن انہوں نے بھی فورا ًمعزول نہیں کیا؛بلکہ عرصہ تک سمجھاتے رہے، چنانچہ پھر ایک مرتبہ لکھاکہ بغیر میری اجازت کے کسی کو ایک بکری بھی نہ دیا کرو، مگرسیدنا خالد نے کوئی اثر نہیں لیا اورسیدنا عمر کو بھی وہی جواب دیا جو سیدنا ابوبکر کو دے چکے تھے۔ (اصابہ:2/100)
دوسری وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کو خیال پیدا ہوگیا تھا کہ اسلامی فتوحات کا دارومدار خالدؓ کے قوت بازو پر ہے (ابن اثیر:2/419)جس کو سیدنا عمر پسند نہیں کرتے تھے۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ سیدنا خالد کے اخراجات اسراف کی حدتک پہنچ جاتے تھے جو دوسرے افسروں کے لیے نمونہ نہ بن سکے تھے، چنانچہ شعراء کو بڑی بڑی رقمیں دے ڈالتے تھے، اشعث بن قیس کو دس ہزار انعام یکمشت دیا، سیدنا عمر کو اطلاع ہوئی تو سیدنا ابو عبیدہ بن جراح کے پاس حکم بھیجا کہ سیدنا خالد سے دریافت کریں کہ انہوں نے یہ روپیہ کس مد سے دیا ہے، اگر مسلمانوں کے مال سے دیا ہے تو خیانت کی اور اگر اپنی جیب سے دیا ہے تو اسراف کیا ہے، اس لیے دونوں حالت میں وہ معزولی کے قابل ہیں، یہ فرمان عین میدان جن گ میں سیدنا ابو عبیدہ کو ملا، انہوں نے سیدنا خالد سے پوچھا، تم نے یہ روپیہ کہاں سے دیا، کہا اپنے مال سے، اس کے بعد سیدنا عمر کا فرمان سنا کر معزولی کی علامت کے طورپر ان کے سرسے ٹوپی اتارلی اور عمامہ گردن میں ڈالدیا۔ سیدنا خالد نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں نے فرمان سنا اور مانا اوراب بھی اپنے افسروں کے احکام سننے اور خدمات بجالانے کو تیار ہوں۔ (ابن اثیر: 2/419)
اس واقعہ سے سیدنا عمر کے دبدبہ اورسیدنا خالد کی حق پرستی، دونوں کا اندازہ ہوتا ہے، معزولی کے بعد دربار خلافت سے طلبی ہوئی، چنانچہ خالد حمص سے ہوتے ہوئے سیدنا عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے شکایت کی کہ آپ نے میرے معاملہ میں زیادتی سے کام لیا ہے، سیدنا عمر نے سوال کیا، تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی جواب دیا، مال غنیمت کے حصوں سے،
اگر میرے پاس ساٹھ ہزار سے زیادہ نکلے تو آپ لے لیجئے، سیدنا عمر نے فورا حساب کرایا کل 20 ہزار زیادہ نکلے، وہ بیت المال میں جمع کرادیے اور فرمایا کہ سیدنا خالد اب بھی میرے دل میں تمہاری وہی عزت ومحبت ہے اور تمام ممالک محروسہ میں فرمان جاری کرادیا کہ میں نے سیدنا خالد کو خیانت کے جرم یا غصہ وغیرہ کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے بلکہ محض اس لیے معزول کیا کہ مسلمانوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اسلامی فتوحات کا دارومدارسیدنا خالد کے قوت بازو پر نہیں ہے۔
مذکورہ بالا فتوحات کے علاوہ سیدنا خالد دوسری مہموں میں بھی شریک ہوکر دادِ شجاعت دیتے رہے، لیکن ان میں آپ کی حیثیت معمولی مجاہد کی تھی، اس لیے ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
گورنری: سیدنا عمر نے سیدنا خالد کو معزول کیا مگر ان کی صلاحیت سے فائدہ لینے کے لئے ان کو حران، آمد اور لرتہ کا گورنر مقرر کردیا لیکن ایک سال کے بعد وہ خود مستعفی ہوگئے۔ (مستدرک حاکم: 3/297)
وفات: گورنری سے استعفادینے کے بعد مدینہ میں مقیم ہوگئے اورکچھ دن بیمار رہ کر 22ھ میں وفات پائی، بعض لوگ آپ کی وفات حمص میں بتاتے ہیں، مگریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سیدنا عمر آپ کے جنازہ میں شریک تھے (اصابہ :2/100 اور مستدرک حاکم:3/297) اور 22ھ میں انہوں نے شام کا کوئی سفر نہیں کیا، آپ کی وفات سے مدینہ کی عورتوں خصوصاً بنی عذرہ میں کہرام برپا تھا۔
اولاد: اولاد کی تعداد کی تفصیل نہیں ملتی، صرف دولڑکوں ،مہاجر اورعبدالرحمن کا نام ملتا ہے ان دونوں میں باپ کی شجاعت کا اثر تھا، چنانچہ مہاجربن خالد نے صفین میں سیدنا علی کی حمایت میں تھے (استیعاب:1/276) اور سیدنا معاویہ کے عہد میں قسطنطنیہ کے مشہور معرکہ میں فوج کے ایک کماندار عبدالرحمن بن خالدبن ولید تھے (ابوداؤد کتاب الج ہاد باب قولہ تعالی ولا تلقوابایدیکم الی التھلکۃ )۔
فضل و کمال: سیدنا علی جیسے حضور کے دور میں ہر لڑائی میں جتاتے تھے، اسی طرح سیدنا خالد حضور کے بعد ہر لڑائی میں اہم کردار تھے۔ سیدنا ابن عباس، جابربن عبداللہ، مقدام بن معدی کرب، قیس بن ابی حازم، اشترنخعی ،علقمہ، ابن قیس، جبیرین نضیر وغیرہ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں (تہذیب التہذیب:2/124) ان کی مرویات کی تعداد کل اٹھارہ ہے جن میں سے دو متفق علیہ ہیں اورایک میں بخاری منفرد ہیں۔
احترام نبویﷺ: نجد کے ایک بندے نے جب حضور کو کہا کہ انصاف کرو تو سیدنا خالد کو اتنا غصہ آیا کہ اس کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی ؛لیکن آپ نے روک دیا۔ (بخاری :2/105)
آثار نبویﷺ سے تبریک: آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک ایک ٹوپی میں سلوالیے تھے،جس کو پہن کر میدان میں جاتےتھے،یرموک کے معرکے میں یہ ٹوپی گر گئی تھی، سیدنا خالد بہت پریشان ہوئے اورآخر بڑی تلاش و جستجو کے بعد ملی۔ (اصابہ:2/99)
جہ ا د فی سبیل اللہ: جسم میں ایک بالشت حصہ بھی ایسا نہ تھا جوکسی ہتھ یار سے زخمی نہ تھا (اسد الغابہ:2/102)
فرماتے کہ مجھے میدان کی وہ سخت رات جس میں اپنے دشمنوں سے لڑوں، اس شب عروسی سے زیادہ مرغوب ہے، جس میں میری محبوبہ مجھ سے ہمکنار ہو (اصابہ:2/99) آخروقت جب اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تو بڑی حسرت اورافسوس کے ساتھ کہتے تھے کہ افسوس میری ساری زندگی میدان جن گ میں گذری اورآج میں بستر مرگ پر جانور کی طرح ایڑیاں رگڑ کے جان دے رہا ہوں (استیعاب: 1/158)
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرؓ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل ، سیدنا خالد، اورسیدنا عباس نے دینے سے انکار کیا، آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا، تو فرمایا کہ "ابن جمیل فقیر تھا،اللہ نے اس کو دولتمند کیا، یہ اس کا بدلہ ہے، لیکن خالد پر تم لوگ زیادتی کرتے ہو،انہوں نے اپنا تمام سامان اللہ کی راہ میں وقف کردیا ہے، پھر ان پر زکوٰۃ کیسی، رہا عباس کا معاملہ تو ان کا میں ذمہ دار ہوں ،کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ چچا باپ کی جگہ ہے۔ (ابوداؤد:1/163 و مسلم :1/262،مصر)
حق پرستی: معزولی کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے کہ مجمع عام میں اس طرح معزول کیا جاتا ہے کہ سر سے ٹوپی اتارلی جاتی ہے، عمامہ گردن میں باندھ دیا جاتا ہے اورآپ دم نہیں مارتے اورجب ان کی جگہ پر ابو عبیدہؓ سپہ سالار مقرر ہوتے ہیں تو یہ لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اب اس امت کا امین تم پر امیر مقرر کیا گیا ہے۔ (اصابہ:2/99)
تفصیل: سیدنا خالد بن ولید کی تفصیل سیدنا ابوبکر کی زندگی پر جو کتاب حسین ہیکل نے لکھی اس میں موجود ہے۔ دوسرا سیر الصحابہ میں بھی بہت شاندار لکھا ہے جس کو مکمل آزاد دائرہ معارف والوں نے لکھا ہے جس کا لنک کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔
لڑائی: ہماری لڑائی صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک ہو جائیں اور جو منافق ہیں وہ توبہ کریں۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔