Jhooti Karamat Ya Waqiaat

جھوٹی کرامات یا واقعات

1۔ کسی نیک آدمی کا بغیر دعوی نبوت کئے خلافِ عادت کام کے ظاہر ہونے کو ’’کرامت‘‘ کہتے ہیں جیسے سورۃ النمل آیات 38، 39، 40 میں حضرت سلیمان علیہ اسلام کے دربار میں آصف بن برخیا کا حضرت بلقیس کا تحت لانا اور آل عمران آیت 37 میں حضرت مریم کے پاس بے موسمی پھل کا ہونا کرامات میں سے ہے۔

2۔ اسی طرح صحیح بخاری 3614 میں سیدنا اُسید بن حضیر، صحیح مسلم 2974 میں سیدنا عمران بن حصین، صحیح بخاری 3805 میں سیدنا عباد بن بشر اور اسید بن حضیر، صحیح مسلم 5365 میں سیدنا ابوبکر، صحیح بخاری 3045 میں سیدنا حبیب، ترمذی 3854 میں براء بن مالک، ترمذی 3751 میں سیدنا سعد کی کرامات موجود ہیں جن کا مطالعہ کمنٹ سیکشن میں کر سکتے ہیں۔

عقیدہ: کراماتِ اولیاء کا عقیدہ دیوبندی اور بریلوی کے نزدیک ضروریاتِ مذہبِ اہلسنت میں سے ہے، لہذا جو اس کا انکاری بدمذہب وگمراہ ہے۔ البتہ کوئی کسی کی کرامت نہ مانے تو گناہ گار نہیں ہے۔ شرح فقہ اکبر میں ہے: کراماتِ اولیاء حق ہیں یعنی قرآن وسنت سے ثابت ہیں اور معتزلہ اور بدعتیوں کا کراماتِ اولیاء کا انکار کرنا، معتبر نہیں‘‘۔ (شرح فقہ اکبر، صفحہ 130، مطبوعہ ملتان)

3۔ ہر دین کے پنڈت، پادری، عامل، مربی، جادوگر، ہپناٹائزر اور شریعت کے خلاف چلنے والے نام نہاد مسلمان سے بھی ایسے محیر العقول واقعات ہو سکتے ہیں جو بالکل شریعت پر چلنے والے اولیاء کرام سے ہو سکتے ہیں مگر ان کے واقعات کو "استدراج” کہا جاتا ہے۔ نیک و بد کی کرامات میں فرق وہی کر سکتے ہے جس کو علم ہے کہ ولی کی شرط میں پرہیزگار ہونا لازم ہے، کرامت دکھانا لازم نہیں اور وہ کسی غیر شرعی انسان سے دم نہیں کرواتا۔

4۔ بہت سے مرید اپنے پیر کی جھوٹی کرامات سُنا کر بندے پھنسا کر پیر کے دھندے کو کامیاب کرواتے ہیں۔ پیری مریدی کرنے والے دو بڑے گروپ دیوبندی اور بریلوی اگر پیر کی شرائط بیان کر دیں تو 80% پیر دھندا کرنے والے نکلیں گے اور اصل پیروں کی پیری بھی خطرے میں پڑ جائے گی جیسے کرامات میں سے مندرجہ ذیل کرامات بیان کرنا جھوٹ ہے:

1۔ مشہور کتاب "تفریح الخاطر” میں حضور سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ کی نسبت سے یہ روایت داخل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک خادم فوت ہو گیا- اس کی بیوی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آہ وزاری کرنے لگی- اس نے آپ سے اپنے شوہر کو زندہ کرنے کی التجا کی- آپ نے علم باطن سے دیکھا کہ ملک الموت اس دن قبض کی گئی تمام روحوں کو لے کر آسمان پر جا رہے ہیں- آپ نے اسے روکا اور کہا کہ میرے خادم کی روح واپس کر دو تو ملک الموت نے یہ کَہ کر منع کر دیا کہ میں نے یہ روحیں اللہ تعالی کے حکم سے قبض کی ہیں۔
جب ملک الموت نے روح واپس نہیں کی تو آپ نے اس سے روحوں کی ٹوکری (جس میں اس دن قبض کی گئی تمام روحیں تھیں، وہ) چھین لی! اس سے ہوا یہ کہ جتنی روحیں تھیں وہ سب اپنے اپنے جسموں میں واپس چلی گئیں۔
ملک الموت نے اللہ تعالی کے حضور عرض کی: مولا تُو تو جانتا ہے جو تکرار آج میرے اور عبد القادر کے درمیان ہوئی، اس نے تمام ارواح چھین لیں۔
اس پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اے ملک الموت بے شک عبد القادر میرا محبوب ہے۔ تو نے اس کے خادم کی روح کو واپس کیوں نہیں کیا؟ اگر ایک روح کو واپس کر دیتے تو اتنی روحیں اپنے ہاتھوں سے دے کر پریشان نہ ہوتے۔ (ملخصاً: تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر، المنقبۃ الثامنۃ، ص 68، قادری رضوی کتب خانہ لاہور)

اسی روایت کے بارے میں امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا، بس فرق اتنا ہے کہ یہاں خادم کی بیوی کا ذکر ہے اور سوال میں خادم کے بیٹے کا۔ سوال میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب ملک الموت نے روح واپس کرنے سے انکار کیا تو حضور غوث پاک نے انھیں ایک تھپڑ مارا جس کی وجہ سے ملک الموت کی آنکھ باہر نکل گئی!
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ یہ روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے اور اس کا پڑھنا اور سننا دونوں حرام! احمق، جاہل، بے ادب یہ سمجھتا ہے کہ (اس روایت کو بیان کر کے) حضرت غوث اعظم کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کر رہا ہے۔ (انظر: فتاوی رضویہ، ج 29، ص 630، رضا فاؤنڈیشن لاہور، س1426ھ)

2۔ بارہ سال پہلے ڈوبی ہوئی بارات
چند کتابوں میں حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کی ایک کرامت کا ذکر ملتا ہے کہ آپ نے بارہ سال پہلے ڈوبی ہوئی بارات کو واپس نکال دیا۔ یہ روایت عوام و خواص میں بہت مشہور ہے لہذا مکمل واقعہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اس روایت پر گفتگو کرتے ہوئے خلیفۂ اعلی حضرت، حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ کی کرامات درجۂ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں جیسا کہ امام یافعی نے لکھا ہے کہ "آپ کی کرامات متواتر یا تواتر کے قریب ہیں اور علما کے اتفاق سے یہ امر معلوم ہے کہ آپ کی مانند کرامات کا ظہور آپ کے بغیر آفاق کے مشائخ میں سے کسی سے نہیں ہوا” مگر یہ بارات والی روایت کسی معتبر نے نہیں لکھی لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت غوث اعظم علیہ الرحمہ اس درجے کے نہ تھے- اکثر میلاد خواں (مقررین) واقف نہ ہونے کی وجہ سے مہمل روایات اولیا و انبیا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ یہاں غلط ہے تو بھی ان کی تعریف پوری ہم نے کر دی- یہ ثواب کی توقع بھی کرتے ہیں، خیر خدا ان پر رحم کرے۔
ہزاروں کرامات اولیاءاللہ سے اور اصحاب رسول علیہ السلام سے ظاہر نہ ہوئیں تو کیا جھوٹی روایت کَہ دینے سے ان کا رتبہ بڑھ جائے گا؟ ہرگز نہیں؛ اصحاب رسول تمام غوث و قطب و اولیا سے افضل ہیں اور تحقیق سے ثابت ہے کہ اولیاءاللہ کی کرامات اکثر اصحاب سے زیادہ ہیں- بہر حال یہ روایت کسی معتبر نے نہیں لکھی ہے اور امکان عقلی سے کوئی امر یقینی نہیں ہو سکتی-(ملخصاً: فتاوی دیداریہ، ص 45)

امام اہل سنت، اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے جب اس روایت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ روایت نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں لہذا اس کا انکار نہ کیا جائے۔ (انظر: فتاوی رضویہ، ج 29، ص 630، ط رضا فاؤنڈیشن لاہور، س 1426ھ)

معلوم ہوا کہ اس روایت کا کوئی معتبر و مستند ماخذ موجود نہیں اور ایک پہلو یہ ہے کہ بہ قول امام اہل سنت اس روایت کا انکار بھی نہ کیا جائے لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ ایسی روایات کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے کے لیے دیگر صحیح روایات کو شامل بیان کیا جائے۔

3۔ حضور غوث پاک اور دھوبی کا جھوٹا واقعہ
بیان کیا جاتا ہے کہ حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کا ایک دھوبی تھا، جب اس کا انتقال ہوا تو قبر میں فرشتوں نے اس سے سوال کیے جیسا کہ سب سے کرتے ہیں- اس نے ہر سوال کے جواب میں کہا کہ "میں غوث پاک کا دھوبی ہوں” اور اسے بخش دیا گیا۔
اس روایت کے متعلق فقیہ ملت، حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت بے اصل ہے۔ اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے اور آئندہ اس روایت کے نہ بیان کرنے کا عہد کرے، اگر وہ ایسا نہ کرے تو کسی معتمد کتاب سے اس روایت کو ثابت کرے۔ (انظر: فتاوی فقیہ ملت، کتاب الشتی، ج 2، ص 411، شبیر برادرز لاہور، س2005 ء)

شارح بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حکایت نہ مَیں نے کسی کتاب میں دیکھی ہے اور نہ کسی سے سنی ہے۔ احادیث میں تصریح ہے کہ اگر (مرنے والا) مومن ہوتا ہے تو قبر کے تینوں بنیادی سوالوں کا جواب دے دیتا ہے، منافق یا کافر ہوتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ہاے ہاے میں نہیں جانتا لہذا یہ روایت حدیث کے خلاف ہے۔ (ملخصاً و ملتقطاً: فتاوی شارح بخاری، کتاب العقائد، ج 2، ص 125، ط دائرۃ البرکات گھوسی، س1433ھ)

مفتی اعظم ہالینڈ، حضرت علامہ مفتی عبد الواجد قادری رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ غالباً یہی واقعہ یا اس کے مثل "تفریح الخاطر” میں ہے لیکن اس کے بیان میں تحقیق ضروری ہے- یوں ہی مبہم طور پر بلا توضیح کے بیان کرنا خلاف احتیاط ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ (انظر: فتاوی یورپ، کتاب الصلوٰۃ، ص 220)

حضرت مولانا محمد اجمل عطاری صاحب اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فقیہ ملت کا قول بیان کرتے ہیں کہ روایت مذکورہ بے اصل ہے۔ اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے…. الخ (انظر: امام الاولیاء، ص70، ط مکتبہ اعلی حضرت لاہور، س1433ھ)

4۔ جا تجھے سات بیٹے ہوں گے
حضرت سیدنا غوث اعظم کی کرامت بتا کر یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یا حضرت مجھے بیٹا دو! آپ نے فرمایا کہ لوح محفوظ میں تیری قسمت میں بیٹا نہیں ہے۔
عورت نے کہا: اگر لوح محفوظ میں ہوتا تو آپ کے پاس کیوں آتی؟
آپ نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ یا خدا تو اس عورت کو ایک بیٹا دے دے، جواب آیا کہ لوح محفوظ میں نہیں- عرض کیا کہ دو بیٹے دے، حکم ہوا کہ جب ایک نہیں تو دو کہاں سے دوں؟
عرض کیا کہ تین بیٹے دے، ارشاد ہوا کہ ایک بھی نہیں تو تین کہاں سے دوں، اس کی تقدیر میں بالکل نہیں!
جب وہ عورت ناامید ہو گئی تو غوث اعظم نے غصے میں آکر اپنے دروازے کی خاک سے تعویذ بنا کر دے دی اور کہا کہ جا! تیرے سات لڑکے ہوں گے- وہ عورت خوش ہو کر چلی گئی اور اس کے سات لڑکے ہوئے۔
اس روایت کے متعلق حضرت علامہ مفتی شاہ محمد اجمل قادری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کسی معتبر و مستند کتاب میں نظر سے نہ گزرا اور بہ ظاہر بے اصل اور لغو معلوم ہوتا ہے، ان سے احتراز کرنا چاہیے اور "بہجۃ الاسرار” سے حضرت کی کرامات بیان کرنی چاہییں۔ (ملخصاً: فتاوی اجملیہ، کتاب الخطر والاباحۃ، ج 4، ص 9، ط شبیر برادرز لاہور، س 2005 ء)

زبان بندی: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث پاک کو پڑھئے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ” بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جسکے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔” (متفق علیہ)۔

کرامت: اس وقت علماء اور جماعتوں پر نہیں بلکہ عقائد اہلسنت پر مسلمانوں کو اکٹھا کرنا سب سے بڑی کرامت ہے اور اصل اہلسنت کو اسطرح سمجھیں:

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔

البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general