Namaz e Jumma

نمازِ جمعہ

ہر مسلمان پرجمعہ کی نماز پڑھنا فرض ہے اورنماز جمعہ سے پہلے ظہر نہیں پڑھتے، اگر پڑھ لی توتب بھی نماز جمعہ پڑھیں اور ظہر ضائع ہو گئی۔
عورت، بیمار اور مسافر پرنمازِجمعہ نہیں لیکن اگر پڑھ لیں تو نمازظہر ادا نہ کریں۔
سورہ جمعہ آیات 9، 10 اور 11 میں نماز جمعہ کا حکم ہے، اسلئے ظہر سے زیادہ اس کی اہمیت ہے۔ ابوداود 1067، 342: جمعہ کی نماز جماعت سے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے چار لوگوں: غلام، عورت ، نابالغ بچہ اور بیمار۔ اگر یہ بھی جماعت سے پڑھ لیں تو نماز ظہر ادا نہیں کریں گے۔
فضیلت: صحیح مسلم 1976: جمعہ کا دن افضل دن ہے، جمعہ کے دن سیدنا آدم پیدا ہوئے، جمعہ کو جنت میں گئے اور جمعہ کے دن دنیا میں تشریف لائے۔ صحیح بخاری 876، مسلم 1982: ہم پیچھے آنے والے کل قیامت والے دن اسلئے یہود و نصاری پر برتری حاصل کریں گے کیونکہ ان کو جمعہ کا دن دیا گیا مگر یہود نے ہفتہ اور نصاری نے اتوار کو قبول کیا مگر ہم نے جمعہ کا دن قبول کیا۔
صحیح بخاری 881: جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کر کے نماز پڑھنے جائے تو پہلے جانے والے نے گویا ایک اونٹ، دوسرے نے ایک گائے، تیسرے نے مینڈھے، چوتھے نے ایک مرغی کی قربانی دی اور پانچویں نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ابو داود 1048: جمعہ کے دن عصر کے بعد ایک ساعت ( گھڑی ) ایسی ہے کہ جس میں دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے۔
معافی: ترمذی 498، صحیح مسلم 1987: اچھی طرح وضو کر کے جمعہ میں امام کے قریب صف میں بیٹھ کر غور و خاموشی سے خطبہ سننے والے کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک بلکہ مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور جس نے ادھر ادھر ہاتھ چلایا اس نے بیہودہ کام کیا۔ صحیح بخاری 934: جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو تو جس نے دوسرے کو چُپ کرنے کا کہا اس نے لغو کیا۔ ابن ماجہ 1086: ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
نقصان: ترمذی 550 "جو تین جمعہ سستی اور حقیر جان کر چھوڑے تو اللہ کریم اس کے دل پر مہر لگا دے گا”۔
اذان اور خطبہ: صحیح بخاری 916: نبی کریم، سیدنا ابوبکر و عمر کے دور میں موذن اس وقت اذان دیتا جب امام منبر پر بیٹھتا جب سیدنا عثمان کے دور میں نمازی زیادہ ہوئے تو آپ نے جمعہ کے دن زوراء مقام پر ایک اذان دلوائی۔ ابو داود 1092: آپ منبر پر بیٹھتے تو اذان ہوتی جب اذان ہو جاتی تو پھر آپ دو خطبے دیتے۔ صحیح بخاری 928: نبی کریم جمعہ میں دو خطبے دیتے اور ایک خطبہ دے کر بیٹھتے پھر دوسرا دیتے۔ صحیح مسلم 2005: نبی کریم کی آنکھیں جمعہ کے خطبے کے دوران جوش الہی سے سُرخ اور آواز بلند ہو جاتی۔ صحیح مسلم 2009: امام کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے۔


اذان: جمعہ کی پہلی اذان جب ہو جائے تو کاروبار کرنا منع ہے، اس لئے پہلی اذان کے بعد جمعہ کے لئے تیاری کریں اور مسجد میں دوسری اذان سے پہلے پہلے پہنچ جائیں۔ خطیب صاحب کی اردو تقریر سننا لازمی نہیں بلکہ عربی خطبہ سننے کے لئے دوسری اذان سے پہلے پہنچنا چاہئے مگر مسائل سیکھنے کے لئے تقریر ضرور سُنیں۔
وقت: اذان کے بعد کاروبار منع ہے لیکن پاکستان میں جمعہ کی نماز کا ایک وقت نہیں ہے اور بہت سے مقرر یا خطیب 2 جگہوں پر ”تقریر“ کرتے ہیں۔ جمعہ والے دن ”عوام“ جمعہ کی نیت سے نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر کام پر چلی جاتی ہے۔ جمعہ کی اذان کے بعد ”عوام“ کاروبار بند نہیں کرتی بلکہ ایک بھائی 1:30 پر جمعہ کی نماز پڑھ آتاہے اور دوسرا 2:15 پر پڑھ لیتا ہے۔ اس لئے امام اورعوام دونوں ٹھیک ہیں اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ جمعہ کی اذان سے کتنی دیر کے بعد نمازادا کرنی چاہئے۔ 12.15 پر جمعہ کی پہلی اذان ہوتی ہے اور بعض مسجدوں میں نماز 2.30 پراداکی جاتی ہے۔جواب: علماء کرام کا اختلاف ہے کہ عربی خطبے سے پہلے والی ”اذان“ کا جواب دینا چاہئے کہ نہیں، اس لئے عوام چاہے تو اذان کا جواب دے اور چاہے تو خاموشی سے اذان سُنے۔غور: کھانا پینا، سلام کرنا، خارش کرنا وغیرہ جو نماز میں منع ہے، عربی خطبہ سُنتے ہوئے بھی منع ہے۔

وقت: اذ ان کے بعد کاروبار منع ہے لیکن پاکستان میں جمعہ کی نمازکا ایک وقت نہیں ہے اور بہت سے مقرر یا خطیب 2 جگہوں پر”تقریر“ کرتے ہیں۔ جمعہ والے دن ”عوام“ جمعہ کی نیت سے نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر کام پر چلی جاتی ہے۔ جمعہ کی اذان کے بعد ”عوام“ کاروبار بند نہیں کرتی بلکہ ایک بھائی 1:30 پر جمعہ کی نماز پڑھ آتا ہے اور دوسرا 2:15 پر پڑھ لیتا ہے۔ اس لئے امام اورعوام دونوں ٹھیک ہیں اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ جمعہ کی اذان سے کتنی دیر کے بعد نمازادا کرنی ہے۔
جواب: علماء کرام کا اختلاف ہے کہ عربی خطبے سے پہلے والی ”اذان“ کا جواب دینا چاہئے کہ نہیں، اس لئے عوام چاہے تو اذان کا جواب دے اور چاہے تو خاموشی سے اذان سُنے۔
غور: کھانا پینا، سلام کرنا، خارش کرنا وغیرہ جو نماز میں منع ہے، عربی خطبہ سُنتے ہوئے بھی منع ہے۔

انداز: عربی خطبہ سنتے ہوئے جس طرح آسانی سے ہو با ادب انداز میں بیٹھیں اور حدیث میں التحیات کی طرح بیٹھنے کا نہیں آیا۔ نبی کریم ﷺ کا نام آئے تو انگوٹھے نہیں چومنے بلکہ دل میں درود پاک پڑھیں۔

شرائط: ابن ماجہ 1121: "جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے” یعنی اس کا جمعہ ہو گیا کیونکہ جمعہ کی شرائط میں خطبہ سننا ہے جمعہ پڑھنے والے کے لئے صرف دو رکعتیں پڑھنے سے جمعہ ہو جاتا ہے چاہے عربی خطبہ نہ بھی سُنے لیکن جمعہ میں پہلے جانے کی فضیلت بیان کر دی گئی ہے۔
صحیح مسلم 2036: جب کوئی جمعہ پڑھے تو اس کے بعد چار سنت پڑھے۔ صحیح مسلم 2039: عبداللہ بن عمر گھر آ کر دو سنت پڑھتے اور کہتے کہ نبی کریم بھی یہی کرتے تھے۔ ابو داود 1130: عبداللہ بن عمر دو اور چار دونوں رکعتیں پڑھتے۔

نیت: جمعہ کے دن ظہر نہیں ہوتی، 4 سنت جمعہ، 2 فرض جمعہ، 4 سنت جمعہ، 2 سنت جمعہ اور 2 نفل جمعہ نیت کریں۔

اختلاف: جمعہ کی نماز کے بعدکوئی 2، 4 یا 6 سنتیں جمعہ پڑھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے 2 سنتیں بھی پڑھی ہیں اور ایک حدیث کے مطابق 4 سنتیں بھی پڑھی ہیں، اسلئے اہلسنت و جماعت دونوں حدیثوں پر عمل کرتے ہوئے 6 سنتیں پڑھتے ہیں۔ ہر نماز کی سنتیں نوافل گھر جا کر پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، اس لئے مسلمان ہر نماز کے بعد اپنے بیوی بچوں کے سامنے گھروں میں سنتیں پڑھ کر احادیث پر عمل کرے۔

قضا نماز

بالغ ہونے پر لڑکا اور لڑکی ’’نماز‘‘ نہ پڑھیں تو سخت گناہ گار ہیں لیکن اگر سوتے ہوئے یا بھول کر’’نماز‘‘ اپنے وقت پر نہ پڑھی جا سکے تو اس نماز کو وقت نکلنے کے بعد ’’قضا‘‘ کرتے ہیں۔

صاحبِ ترتیب: جس مسلمان نے ساری زندگی بالغ ہونے کے بعد ’’پانچ‘‘ نمازیں اپنے وقت پر پڑھی ہیں، اُس کو صاحبِ ترتیب کہتے ہیں اور کسی مسلمان کی ساری زندگی میں چھ سے زیادہ نمازیں قضا ہوں تواُس کو صاحب ترتیب نہیں کہتے جب تک اُن نمازوں کی قضا ’’ادا‘‘ نہ کر لے۔

قضائے عُمری یہ ہے کہ ساری زندگی کی نمازیں قضا ادا کرنے کے لئے اور صاحبِ ترتیب بننے کیلئے’’حساب‘‘ لگائیں کہ ’’بالغ‘‘ ہونے کے بعد کتنی نمازیں ’’قضا‘‘ ہوئیں، پھر جتنے مرضی سال لگیں، پہلے ساری نمازیں قضا کریں، اس دوران اگر کوئی ’’نئی‘‘ نماز فوت ہو جائے توساتھ ساتھ وہ بھی ادا کرتے جائیں۔

ثواب: اللہ کے گھر میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب 1 لاکھ نمازوں کا ہے لیکن ساری عُمر کی قضا نمازیں ادا ’’نہیں‘‘ ہوتیں۔ یہ بھی کتنا بڑا دھوکہ ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ 2 نفل پڑھنے کو قضائے عمری کہتے ہیں۔

وقت: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرنمازِ فجر قضا ہوجائے تو اگلے دن کی فجر کی نماز کے ساتھ’’قضا‘‘ کرکے پڑھتے ہیں حالانکہ جب صبح اُٹھیں توسب کاموں سے پہلے بلکہ ناشتہ کرنے سے پہلے بھی نماز فجر قضا پڑھیں۔

ضروری: صاحب ترتیب نمازِ فجر ’’قضا ‘‘ہو نے پر جب تک فجر کی نماز قضا نہ پڑھ لے، اُس وقت تک ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ نمازوں میں ترتیب ضروری (واجب) ہے۔

فرض: قضا نمازوں میں صرف ’’فرض‘‘ قضا کرتے ہیں لیکن سنتیں یا نفل نہیں البتہ عشاء کے 3 وتر ایک علیحدہ نماز ہے، اس کی ’’قضا‘‘ بھی عشاء کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

نماز مسافر
78 کلو میٹرفاصلہ طے کر کے کسی دوسرے شہرمیں ریل، ہوائی جہاز وغیرہ سے جانے والے کو مسافر کہتے ہیں لیکن اگر اپنے شہر میں کسی بھی سواری پر اتنا کلو میٹر سفر طے کر بھی لے تو مسافر نہیں بنتا۔

حدود : مسافر جب اپنے شہر کی حدود سے باہر نکلے گا توپھرنماز میں قصر (کمی) شروع ہو گی۔

کمی: سفر میں صرف فرض نماز( ظہر، عصر اور عشاء ) کی 4 رکعت کم کر کے 2 رکعت پڑھتے ہیں۔

سنتیں: سنتیں اور نفل نہ بھی پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر پڑھیں توپوری پڑھیں گے، البتہ فجر کے دو (2) فرضوں کے ساتھ 2 سنتیں پڑھ لے اورعشاء کے چار (4) فرضوں کے ساتھ 3 وترضرور پڑھتے ہیں۔

* لاہور کا شہری راولپنڈی ’’کام‘‘ کرتا ہے اور ہفتے بعد گھر واپس لاہور آتا ہے، راولپنڈی میں امام کے پیچھے فرض نماز (ظہر، عصر اور عشاء) پوری پڑھے گا لیکن اکیلا صرف 2 فرض (ظہر، عصر، عشاء) پڑھے گا۔

* اگر بھول کر 2 فرض کی جگہ 4 فرض پڑھ گیا تو اخیر میں ’’سجدہ سہو‘‘ کر لے تاکہ دو نفل ہو جائیں گے لیکن اگر جان بوجھ کر 4 فرض پڑھے گا تو گناہ گار ہو گا۔ ٹرین یا بس کے ڈرائیور ،کنڈیکٹر وغیرہ بھی اگر 78 کلو میٹر سفر کے ارادے سے نکلے ہیں تو وہ بھی (ظہر، عصر، عشاء) نماز میں قصر (کمی) پڑھیں گے۔

* اگرراولپنڈی میں 15 دن رہنے کا ارادہ کر لیا تو اب راستے میں قصر لیکن راولپنڈی پہنچ کرپوری پڑھے گا۔ اگر 15دن رہنے کاارادہ نہیں لیکن کام ختم نہ ہوا اور 25 دن نکل گئے تو نمازیں قصر (کم) ہی پڑھے گا۔

امام: مسافرکو امام نہیں بننا چاہئے کیونکہ اس دور میں بہت سے لوگوں کو سفرکی نماز کا علم نہیں ہے۔ البتہ اگر مسافر امام بن جائے تو نماز سے پہلے اور بعد میں اعلان کر دے کہ ہم مسافر ہیں اسلئے اپنی نمازپوری کر لیں۔

طریقہ: مسافر امام جب نماز(ظہر، عصر، عشاء) 2 رکعت پڑھا لے تو مقیم عوام سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی 2 رکعت پوری کرنے کیلئے کھڑی ہو جائے اور بقیہ دو رکعت اس طرح پڑھے گی جیسے امام کے پیچھے پڑھ رہی ہے، ان دونوں رکعتوں میں قرات نہیں کرے گی بلکہ خاموش رہے گی لیکن رکوع ، سجود، التحیات میں پڑھے گی۔

اکٹھی 2 نمازیں: سفر کے دوران کچھ لوگ اکٹھی دو نمازیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں لیکن:

اصل طریقہ: جس مسلمان کو ’’نماز کے وقت‘‘ کا علم ہے، وہ 2 نمازیں اس طرح اکٹھی کرے گا کہ فرض کریں اس وقت مغرب کاوقت 6.36 ہے اور عشاء کا وقت 7.56 ہے۔ مسافرنمازی 7.50 پر یعنی آخری وقت میں مغرب پڑھے گا اورجیسے ہی عشاء کا وقت آئے گا وہ 7.56 پر عشاء پڑھ لے گا۔ اسی طرح عصر کا وقت 4.34 ہے تو ظہر کے 2 فرض 4.31 پر پڑھ کر 4.34 پر عصر ادا کرے گا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general