پینٹ کو فولڈ کرنا
1۔ صحیح بخاری 5787: تہنبد (شلوار، دھوتی، پینٹ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہو گا۔ بخاری 5462: ایک صحابی حضور ﷺ کے پاس سے گذرے، ازار (شلوار، دھوتی، پینٹ) لٹک رہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی آزار اونچی کر، انہوں نے اُٹھا لی، آپ ﷺ نے فرمایا: اور اونچی کر۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: پنڈلی کے نصف تک۔ ابن ماجہ 3572 سیدنا خذیفہ کی پنڈلی کے نیچے کا پٹھا پکڑا اور فرمایا کہ تہ بند کا مقام یہ ہے، اگر نہیں تو تھوڑا نیچے رکھو اور آخر میں فرمایا کہ تمہیں ٹخنوں سے نیچے تہبند رکھنے کا کوئی حق نہیں۔
2۔ صحیح بخاری 5784، ابن ماجہ 3569: جو شخص تکبر کی وجہ سے تہبند گھسیٹا ہوا چلے گا تو اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر بھی نہیں کرے گا۔ ابو داود 4085: آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹےگا تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ یہ سُنا تو سیدنا ابوبکر نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔
تکبر کی سزا: صحیح بخاری 5789 و مسلم 5465 ایک شخص تکبر کرنے کی وجہ سے زمین میں دھنسا دیا گیا، اب وہ قیامت تک اس میں تڑپتا رہے گا یا دھنستا رہے گا۔
پینٹ فولڈ کرنے کا مسئلہ: صحیح بخاری 816: مجھے سات ہڈیوں پر اس طرح سجدہ کا حکم ہوا ہے کہ نہ بال سمیٹوں اور نہ کپڑے۔
1۔ ہر مسلمان نماز یا غیر نماز میں اپنی شلوار یا پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر رکھے تاکہ عذاب سے بچ سکے۔
2۔ تکبر کی وجہ سے کوئی پینٹ ٹخنوں سے نیچے نہیں کر رہا مگر سنت کے مطابق ٹخنوں سے اوپر رکھ بھی نہیں رہا، اس کو بندہ کیا کہے فیشن یا مجبوری؟
3۔ دیوبندی اور اہلحدیث کی رائے یہ ہے کہ نماز کے اندر بال یا کپڑے کو مٹی سے بچانا، کپڑے سمیٹنا وغیرہ غلط ہے مگر نماز سے پہلے اپنی پینٹ فولڈ کر کے حرام عمل سے بچنا چاہئے کیونکہ عوام نماز میں حضور کی حدیث پر عمل کرتی ہے۔
4۔ اہلسنت بریلوی علامہ بدرالدین عینی اور ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کا اس حدیث پر موقف بیان کر کے یہ رائے دیتے ہیں کہ نماز پینٹ فولڈ کئے بغیر پڑھ لیں کیونکہ پینٹ کا فولڈ کرنا کف ثوب میں آتا ہے۔ (دیوبندی بریلوی اور اہلحدیث کے فتاوی کمنٹ سیکشن میں)
5۔ دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث تینوں کے نزدیک کپڑا ٹخنوں سے اوپر ہونا چاہئے اور تینوں مذہبی عوام میں اس مسئلے میں تکبر نہیں ہے اور نیچے ڈھلکنے ہی نہیں دیتے۔
6۔ البتہ یہ مسئلہ مذہبی عوام کا کم اور عام عوام کا زیادہ ہے جو پینٹ یا شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھتی ہے اور ہمیشہ فولڈ یا انفولڈ کے مسئلے میں شکوک و شبہات کا شکار رہتی ہے۔ البتہ اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد عام عوام پر بھی حقیقت واضح ہو گئی ہو گی، اسلئے یہ نہ کہے کہ مولوی لڑتے کیوں ہیں، یہ مسئلہ احادیث کو سمجھنے کا ہے، آپس میں لڑنے کا نہیں۔ اصل اور لازم بات ہے کہ ٹخنوں سے اوپر کپڑا نماز اور غیر نماز میں رکھیں۔
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں