Sayyadina Abu Ubaida Bin ul Jarrah

امین الامت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح

1۔ سیدنا ابو عبیدہ مشہور صحابی رسول اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ آپ کا نام عامر، کنیت ابو عبیدہ، لقب امین الامہ اور والد کا نام:عبد اللہ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب ” عامر بن عبد اللہ بن الجراح بن ہلال بن اہیب بن ضبہ بن الحارث بن الفہربن القرشی بن الفہر ی …الخ“ ہے اور آپ داد کی طرف منسوب ہو کر ابن الجراح کے نام سے مشہور ہوئے۔ (سیر الصحابہ :2 /124)

2۔ سیدنا ابو عبیدہ سیدنا ابو بکرصدیق کی دعوت سے مسلمان ہوئے۔ ابن سعد کہتے ہیں:”رسول اللہ ﷺ کے دارالارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ابوعبیدہ مسلمان ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کے دوسرے سفر میں ہجرت فرمائی پھر (مدینہ) واپس آئے تو بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے ” (طبقات ابن سعد 384/7) مدینہ میں حضورِﷺ نے ان میں اور سیدنا معاذ بن جبل میں باہمی بھا ئی چارہ کرایا۔ (الاصابہ :4/ 76)

3۔ سورہ مجادلہ آیت 22 سیدنا عبیدہ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے غزوہ بدر میں محبت اسلام میں اپنے مشرک باپ کو مار دیا۔ آپ کی والدہ امیمہ نے اسلام قبول کیا تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح سورہ توبہ آیت 100 کے مطابق سابقون الاولون میں بھی شامل ہیں جن سے اللہ راضی ہو چُکا اور جن کو جنت ملے گی۔

4۔ غزوہ احد میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کے رخسار مبارک میں مشرکین کے حملے سے لوہے کی ٹوپی کی دو کڑیاں دھنس گئیں تھیں، اُس کو اس محبت سے نکالنے کی کوشش کی کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور اس زور سے نکالا کہ پہلے اوپر والا دانت اور پھر نیچے والا دانت نکلوا کر محبت کا حق ادا کیا۔ سید نا ابوبکر ان کا ایثار دیکھ کر دنگ رہ گئے اور کہا، ابوعبیدہ بوڑوں (ٹوٹے ہوئے دانت والوں) میں سے بہترین ہیں۔

غزوات

1۔ ربیع الثانی6ھ، مدینہ سے 24 میل دور محمد بن مسلمہ کو 100 افراد کے ساتھ بنوثعلبہ اور بنو عوال کی طرف بھیجا جنہوں نے سوائے محمد بن مسلمہ کے سب کو شہید کر دیا۔ ان کی طرف پھر حضور ﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ کو بھیجا لیکن وہ منتشر ہو چکے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے سیدنا ابوعبیدہ کو 40 اشخاص کے ہم راہ ذو القصہ بھیجا، جہاں بنومحارب، بنوثعلبہ اوربنو انمارمدینہ پر غارت گری کے ارادہ سے جمع تھے۔ سیدنا ابوعبیدہ نے صبح سویرے ان پر چھاپا مارا تو یہ پہاڑوں میں منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ محض ایک شخص ان کے ہاتھ آیا،اس نے اسلام قبول کر لیا اور چھوٹ گیا۔

2۔ 6 ھ میں صلح حدیبیہ ہوئی، سیدنا ابوعبیدہ معاہدۂ صلح کی دستاویز پر بطور گواہ دستخط کرنے والے7 کبار صحابہ میں سے ایک تھے۔

3۔ جمادی الثانیہ 8ھ، میں سریہ ذات سلاسل میں سیدنا ابو عبیدہ اور سیدنا عمرو بن العاص شامل تھے کیونکہ اس جگہ پر سلسل نامی کنواں تھا ۔ دوسری وجۂ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ غنیم نے اپنے سپاہیوں کو فرار سے روکنے کے لیے زنجیروں (سلسلوں)سے باندھ رکھا تھا۔

4۔ رجب ۸ ھ،صحیح بخاری 4362 ،4361،4360: حضور ﷺ نے غزوہ سیف البحر میں 300 کا لیڈر ابوعبیدہ کو بنا کر بھیجا جنہوں نے قریش کے قافلے کا معلوم کرنا تھا، راستے میں راشن ختم، ایک ایک کھجور سے گذارہ کیا، پھر ببول کے پتے کھا کر گذارا کیا جس سے نام پتوں والی فوج پڑ گیا، سمندر کے کنارے بہت بڑی مچھلی ملی جس کو 18 دن تک کھاتے رہے، پھر مدینہ جب واپس آئے تو حضور ﷺ نے بھی اس مچھلی سے کھایا۔

5۔ رمضان 8 ھ، سیدنا ابوعبیدہ بن جراح غزوۂ فتح مکہ میں شریک ہوئے، تب رسول ﷲ ﷺ نے انھیں پیادہ دستے کی کمان سپرد فرمائی جو شہر میں داخلہ کے وقت آپ کے آگے آگے چل رہا تھا۔

6۔ 8ھ میں آپ ﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ کوتبلیغ اسلام کے لیے نصاریٰ کے ایک وفد کے ساتھ نجران بھیجا۔ یہی وہ موقع تھا جب آپ نے انھیں امینِ امت کے لقب سے نوازا۔

7۔ 9ھ میں، جزیہ کی وصولی کے لیے بحرین گئے جہاں نبی کریم ﷺ نے علا بن حضرمی کو عامل مقررکر رکھا تھا۔

صحیح بخاری 3744: ہر امت میں امین ہوتے ہیں اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ صحیح بخاری 3745: نبی کریم ﷺ نے اہل نجران سے فرمایا کہ میں تمہارے یہاں ایک امین کو بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہو گا۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام کو شوق ہوا لیکن آپ ﷺ نے سیدنا ابوعبیدہ کو بھیجا۔

عشرہ مبشرہ: ترمذی 3747: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سیدنا ”ابوبکر جنتی، عمر جنتی، عثمان جنتی، علی جنتی، طلحہ جنتی، زبیر جنتی، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی، سعد جنتی، سعید (سعید بن زید) جنتی اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں۔ ترمذی 3795: سیدنا ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح“ اچھے لوگ ہیں۔ ترمذی 3657: سیدہ عائشہ نے بتایا: صحابہ میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر اور پھر سیدنا ابوعبیدہ تھے۔

8۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے ہی سیدنا سعد بن عبادہ کے متعلق آ کر بتایا کہ بنو ثقیفہ میں خلافت کا مسئلہ چل رہا ہے۔ سیدنا عمر نے پہلے وہاں سیدنا ابو عبیدہ کو فرمایا کہ آپ امین الامت ہیں۔ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں لیکن بعد میں سیدنا ابوبکر کی خلافت پر سب نے بیعت کر لی اور سیدنا ابوعبیدہ خلیفہ اول کے بہترین خیرخواہ اور معاون ثابت ہوئے۔

9۔ اپنی خلافت کے اگلے روز سیدناابوبکر کندھے پر کپڑے کے تھان رکھ کر بیچنے نکلے۔راستے میں سیدناعمر ملے اور کہا ، آپ کے کندھوں پر مسلمانوں کی سرداری کا بار آن پڑا ہے۔ یہ کام اس کے ساتھ نہیں نبھ سکتا۔ چلیے، ناظم بیت المال ابوعبیدہ سے مل کر بات کرتے ہیں۔ابوعبیدہ نے کہا،ہم آپ کے لیے ایک عام مہاجر کی آمدنی کے بقدر وظیفہ معین کر دیتے ہیں ۔اس طرح سیدنا ابوبکر کے لیے 4 ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر ہوا۔

10۔ شام : سیدنا ابوبکر صدیق نے 13ھ میں سیدنا ابو عبیدہ کو "حمص”، سیدنا یزید بن ابی سفیان کو "دمشق” سیدنا شرجیل کو "اردن”، سیدنا عمروبن العاص کو فلسطین پر مامور کیااو فرمایا کہ جب اکٹھے ہو جائیں تو لیڈر سیدنا ابو عبیدہ ہوں گے۔ جب رومی فوج سے سامنا ہوا تو سب کو اکٹھا کیا اور مزید طلب میں سیدنا خالد بن ولید جو عراق میں تھے، ساتھ آ کر مل گئے اور متحد فوج نے بصریٰ، فحل اوراجنادین کو فتح کرکے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔

دمشق: دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ خلیفہ اول وصال کر جاتے ہیں اور سیدنا عمر فاروق خلیفہ بنتے ہیں۔ سیدنا خالد بن ولید بیدار مغزی اورحسنِ تدبیر کے ساتھ فصیل پھاند گئے اور شہر میں داخل ہوکر دروازے کھول دئے، سیدنا ابو عبیدہ تیار کھڑے تھے۔عیسائیوں نے سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کر لی، سیدنا خالد کو خبرنہ تھی مگر وہ بھی مان گئے۔

معرکہ فحل: دمشق فتح کرکے مسلمان آگے بڑھے، مقام فحل پر رومیوں سے آمنا سامنا ہوا، سفارت کاری ناکام ہوئی، پھر 50000 فوج کو مسلمانوں نے شکست دی۔

فتح حمص: مقام حمص پر رومیوں نے خود بخود شہر حوالے کر دیا کیونکہ ان کو کسی طرف سے مدد نہیں پہنچی تھی اور سیدنا ابو عبیدہ نے یہاں سیدنا عبادہ بن صامت کو چھوڑکر لاذقیہ کا رخ کیا اورراہ میں شیرز،حماۃ،معرۃالنعمان اوردوسرے مقامات میں جھنڈا گاڑتے ہوئے منزل مقصود پر دم لیا۔

لاذقیہ نہایت مستحکم مقام تھا، سیدنا ابوعبیدہ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی تدبیر اختیار کی،یعنی میدان میں بہت سے پوشیدہ غار کھدوائے،اورمحاصرہ اٹھا کر حمص کی طرف روانہ ہو گئے شہروالوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ آگئے اس کوتائیدغیبی خیال کیا، اوراطمینان کے ساتھ شہر پناہ کا دروازہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہو گئے،لیکن حضرت ابوعبیدہ اس رات کو اپنے سپاہیوں کے ساتھ پلٹ کر غاروں میں چھپ رہے تھے، صبح کے وقت نکل کر دفعۃ شہر میں گھس گئے اورآسانی کے ساتھ اسلام کا علم بلند کر دیا۔

یرموک: رومیوں کو مسلسل شکست، ہرقل شہنشاہ روم کی دعوت پر کثیر فوج اکٹھی ہوئی۔ شامی رومی سیدنا ابوعبیدہ کے گرویدہ ہو چُکے تھے۔البتہ رومیوں کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے شہر چھوڑنا تھا تو مسلمانوں نے عیسائیوں سے لی ہوئی رقم جزیہ کی واپس کر دی کہ ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے جس پروہ روتے ہوئے کہتے رہے کہ "خدا تم کو پھر واپس لائے۔

البتہ سیدنا عمرو بن عاص کا خط پہنچا کہ علاقہ چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔مسلمانوں کے پیچھے ہٹنے سے رومیوں کی ہمت بڑھی اورایک عظیم الشان جمعیت کے ساتھ یرموک پہنچے۔ کچھ رومی صلح کرنا چاہتے تھے، پادری جارج کے کچھ سوالوں کے جواب پر جب سیدنا ابوعبیدہ نے سیدنا عیسی کے متعلق اپنا عقیدہ بیان کیا توجارج بے اختیار پکار اُٹھا،بے شک عیسیٰ علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں اوردرحقیقت تمہار اپیغمبر سچاہے، یہ کہہ کر بطیب خاطر مسلمان ہو گیا، وہ اپنی قوم میں واپس جانا نہیں چاہتا تھا،لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو واپس جانے پر مجبور کیا، اورفرمایا کہ کل جو سفیر یہاں سے جائے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔

دوسرے روز سیدنا خالد سفیر بنا کر بھیجے گئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مسلمانوں کی صرف دو شرطیں "اسلام یا جزیہ” ۔ لڑائی شروع ہوتی ہے اور تقریباً ستر ہزار رومی کھیت رہے، مسلمان بھی کم و بیش تین ہزار شہید ہوئے، جن میں سیدنا ضرار بن ازور، ہشام بن العاص ابان، سعید وغیرہ افسران بھی تھے۔ فتح یرموک کے بعد تمام ملک شام مسلمانوں کے خیر مقدم کے لیے تیار تھا،سیدنا ابوعبیدہ نے حمص پہنچ کر حضرت سیدنا خالد کو قنسرین روانہ کیا اورخود حلب کی طرف بڑھے، یہ دونوں مقامات آسانی کے ساتھ مفتوح ہو گئے، چند دنوں کے بعد اہل انطاکیہ نے بھی سپرڈال دی، غرض بیدالمقدس کے سوا تمام شام پر آسانی کے ساتھ قبضہ ہو گیا۔

بیت المقدس: فلسطین کی مہم سیدنا عمروبن العاص کے سپرد تھی،چنانچہ وہ بڑے بڑے شہر فتح کرکے عرصہ سے بیت المقدس کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ سیدنا ابوعبیدہ فارغ ہو کر سیدنا عمرو سے ملے، عیسائیوں نے ایک عرصہ کی قلعہ بندی سے تنگ آکر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے یہ شرط لگائی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ صلح لکھیں۔ سیدنا ابو عبیدہ نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر اس شرط سے مطلع کیا اورملک شام تشریف لانے کی دعوت دی۔ سیدنا عمر مدینہ سے روانہ ہوکر مقام جابیہ پہنچے، سیدنا ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت افسروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا، بیت المقدس کے نمایندے بھی یہیں پہنچے اورمعاہدہ صلح ترتیب پانے کے بعد اس مقدس شہر پر قبضہ ہو گیا۔

آخری کوشش: رومیوں نے جزیرہ اورآرمینیہ والوں کی امداد سے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کی اورایک عظیم الشان جمعیت کے ساتھ حمص کی طرف بڑھے۔ سیدنا ابو عبیدہ کو عراق سے ایک بہت بڑی کمک پہنچائی گئی۔ لڑائی میں رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اورمرج الدیباج تک بھاگتے چلے گئے۔

امارت: سیدنا خالد بن ولید دمشق کے گورنر تھے لیکن 17ھ میں سیدنا عمر نے یہ عہدہ بھی سیدنا ابوعبیدہ کو دے دیا۔’سیدنا خالد بن ولید نے کہا: تم پر اس امت کے امین کو نگران بنا کر بھیجا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔ سیدنا ابو عبیدہ نےکہا کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: خالد سیف اللہ ہے اور قبیلے کا بہترین جوان ہے۔ (مصنف ابن أبي شيبه 3401)

قحط: 18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو نہایت سرگرمی کے ساتھ شام سے چارہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے بھیجے۔ اشاعت اسلام کا بھی ان کو خاص خیال تھا، چنانچہ قبیلہ تنوخ، بنوسلیج اور عرب کے دوسرے بہت سے قبائل جو مدت سے شام میں آباد ہو گئے تھے اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے، صرف سیدنا ابوعبیدہ کی کوشش سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، بعض شامی اور رومی عیسائی بھی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔

طاعونِ عمواس: 18ھ میں تمام ممالک مفتوحہ میں نہایت شدت کے ساتھ طاعون کی وبا پھیلی خصوصاً شام میں اس نے بہت نقصان پہنچایا، یہاں تک کہ سیدنا عمر خود تدبیر انتظام کے لیے دار الخلافہ چھوڑکر مقام سرع پہنچے۔ طاعون پر یہ احادیث خود بھی پڑھیں:

صحیح بخاری 6973، 5729: سیدنا عمر بن خطاب (سنہ 18 ھ ماہ ربیع الثانی میں) شام تشریف لے گئے۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو ان کو یہ خبر ملی کہ شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ پھر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ کسی سر زمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس میں داخل مت ہو، لیکن اگر کسی جگہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو وبا سے بھاگنے کے لیے تم وہاں سے نکلو بھی مت۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ مقام سرغ سے واپس آ گئے۔

صحیح بخاری 3473، 3474، 5728: طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ صحیح بخاری 5734، 6619، 6974: یہ ایک عذاب تھا اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا اس پر اس کو بھیجتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین (امت محمدیہ کے لیے) رحمت بنا دیا اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا اس کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور پھر طاعون میں اس کا انتقال ہو جائے تو اسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔

وفات: آپ 18ھ کو طاعون عمواس میں بیمار ہوئے اور انتہائی صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔ (کتاب الزہد لابن المبارک ح 882) اسی بیماری میں آپ 58 سال کی عمر میں وصال کر جاتے ہیں۔ سیدنا معاذ بن جبل کواپنا جانشین مقرر کیا، نماز کا وقت آیا تو سیدنا ابو عبیدہ نے سیدنا معاذ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، ادھر نماز ختم ہوئی اوراُدھر راضی برضائے الہی امین الامت نے داعیِ حق کو لبیک کہا۔ سیدنا معاذ بن جبل نے تجہیز و تکفین کا سامان کیا اور فرمایا "صاحبو! آج تم سے ایک شخص ایسااُٹھ گیا کہ خدا کی قسم میں نے اس سے زیادہ صاف دل، بے کینہ، سیر چشم، عاقبت اندیش، باحیا اورخیر خواہِ خلق کبھی نہیں دیکھا، پس خدا سے اس کے لیے رحم و مغفرت کی دعا کرو”۔

ایک دفعہ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ ابوعبیدہ بن الجراح جیسے لوگوں سے یہ گھر بھرا ہوا ہوتا ۔ (حلیۃ الاولیاء ج 1 ص 102)

اولاد: سیدنا ابو عبیدة بن الجراح کی صرف دو بیویو ں سے اولاد ہوئی۔ ہند بنت جابر سے یزید اور ورجا سے عمیر پیدا ہوئے لیکن دونوں لا ولد فوت ہو گئے۔

اتحاد امت: مسلمان اپنے نام کے لئے نہ مریں تو ایک جماعت ہیں کیونکہ تعلیم ایک ہے جیسے دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے۔ اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے۔ بدعت و شرک کس نے نہیں سکھایا، البتہ سعودی وہابی علماء کا پراپیگنڈا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے اور اہلسنت علماء سے ملکر بات نہیں کرتے اور یہی حال پاکستان کے علماء کا ہے کہ عوام کو تعلیم نہیں دیتے کہ ایک کیسے ہوا جا سکتا ہے جس پر بے بنیاد دین جن کے پاس نبی کریم ﷺ کی کوئی احادیث کی کتابیں نہیں ہیں یعنی دین اسلام کے مخالف دین پیسہ لگا کر انتشار پیدا کر رہا ہے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general