تعلیم نبوی
توحید کا درجہ سب سے بڑھکر ہے حتی کہ نبی کریم ﷺ بھی اللہ کریم کی مخلوق ہیں اور اللہ کریم کی عطا سے آپ کی ذات و صفات کا درجہ بلند ہے۔ اسلئے کسی اہلسنت عالم نے نبی کریم ﷺ کوعالم الغیب نہیں کہا بلکہ اللہ کریم نے جو علم غیب دیا، اُس "عطائی علم غیب” کا مالک کہا۔
حاضر ناظر: کا لفظ قرآن و احادیث میں نہ تو اللہ کریم کے لئے اور نہ ہی حضورﷺ کیلئے استعمال ہوا ہے بلکہ دونوں (اللہ تعالی اور حضور ﷺ) کیلئے شاہد و شہید کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مخلوق کی ہر صفت اللہ کریم کی عطا ہےجبکہ خالق کی تمام صفات ذاتی ہیں۔ دوسرا حضورﷺ شاہد (حاضر ناظر) ہیں جنہوں نے کل قیامت والے دن گواہی دینی ہے، اب شاہد کسطرح گواہی دے گا، دیکھتا ہے، دکھایا جاتا ہے یا دکھایا جائے گا، اس پر اختلاف ہے جو ایک فروعی مسئلہ ہے۔
اللہ کریم مُختار کُل ہے اور نبی کریم ﷺ دین کو بیان کرنے میں باذن اللہ مُختار کُل ہیں۔ چوتھا اللہ کریم لم یلد و لم یولد ہیں اور نبی کریم ﷺ کامل مکمل اکمل بشر ہیں اور اللہ کریم کی جنس سے نہیں ہیں اور نور آپ کی صفت ہے۔
فلسفہ حیاتی مماتی
سورہ زمر 30 ”بے شک آپ ﷺ بھی انتقال فرمانے والے ہیں اور کافر بھی مر جانے والے ہیں“ پر ایمان رکھتے ہیں مگر حضور ﷺ کے لئے لفظ مرنا استعمال کرنا برا سمجھتے ہیں اور وصال، انتقال، پردہ فرمانا کہتے ہیں۔
2۔ صحیح بخاری 4446: عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضور ﷺ کے وصال کا بتایا۔ بخاری 3688: حضور ﷺ کی وفات کا اعلان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا اور بخاری 1241,42: کے مطابق عوام کو واعظ بھی کیا جس کو بخاری 4454: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سُن کر حضورﷺ کے وصال کو مانا اور بخاری 4586: حضور ﷺ نے خود اپنے اختیار سے آخرت کو پسند کیا“۔
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کو موت آئی، آپ کو کفن و غسل دیا گیا اور آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے۔
3۔ البتہ عالم دُنیا میں رہتے ہوئے حضور ﷺ نے صحیح مسلم احادیث 411 سے 424 (معراج شریف کے واقعات) میں بعد از وصال انبیاء کرام کی ”حیات“ کے متعلق عقیدہ یہ دیا کہ انبیاء قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں جیسے حضرت موسی علیہ السلام۔ انبیاء کرام (حضرت آدم، عیسی و یحیی، یوسف، ادریس، ہارون، موسی و ابراہیم، موسی علیہ السلام) آسمانوں پر بھی ہیں اور شہداء کی طرح انبیاء کرام کا جنت سے تعلق بھی ہے۔ مسلم 421 حضرت موسی اور یونس علیہ السلام کو آپ ﷺ نے حج کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ سنن ابو داود 1047زمین انبیاء کرام کے جسم کو نہیں کھا سکتی۔
4۔ صحیح مسلم 2102 کے مطالعہ سے علم ہوا کہ نماز کسوف پڑھاتے ہوئے حضور ﷺ اپنا ہاتھ جنت میں لے گئے یعنی حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ عالم دُنیا، عالم قبر، عالم حشر سے گذار کر عالم جنت میں لے گئے اور ساتھ میں آپ ﷺ نے دعوی کیا کہ اللہ کریم نے تم سے قرآن پاک میں جن چیزوں کا وعدہ کیا ہے میں نے سب دیکھ لیں۔یہی سوال ہے کہ کیا اس عالم میں رہنے والا نبی عالم قبر، عالم برزخ، عالم حشر اور عالم جنت کو دیکھ سکتا ہے تو عالم برزخ کی حیات میں اللہ کے حُکم سے اس دُنیا میں ہاتھ نہیں لا سکتا؟
5۔ صحیح بخاری 6996 جس نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا۔ صحیح بخاری 6994 جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے واقعی مجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ صحیح بخاری 6993 جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھ لے گا“۔ اسلئے بہت سے مشاہدات صحابہ کرام اور تابعین کو خواب اور بیداری میں ہوئے ہیں۔
عقیدہ: حضور ﷺ کی حیات کو ماننے کا مطلب ہے کہ قرآن و سنت کے دلائل کو ماننا، اگر کوئی اُس کے خلاف دلائل رکھتا ہے تو اُس کو مماتی کہتے ہیں۔ مماتی کا مسئلہ سعودیہ کے وہابی علماء نے پیدا کیا ہے کیونکہ خلافت عثمانیہ کے دور میں اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) حضور ﷺ کی بعد از وصال کے ”بہترین حیات“ کے قائل ہیں۔
استمداد، توسل، استغاثہ
حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم میں کسی کی کوئی چیز گم جائے اورمدد مانگنی چاہے اور ایسی جگہ ہوجہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے "یا عبدالله اعینونی” اے الله کے بندو! میری مدد کرو۔ الله تعالٰی کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا، وہ اس کی مدد کرینگے۔ (اسے طبرانی نے عتبہ بن غزوان سے روایت کیا) (المعجم الکبیر حدیث 290)
حضور ﷺ نے فرمایا : جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے تو یوں آواز لگائے "یا عبدالله احبسوا” اے الله کے بندو! روک دو توعباد الله اسے روک دیں گے۔ (اس حدیث کو ابن السنی نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے)
حضور ﷺ نے فرمایا : یوں ندا کرو "أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، عباد اللہ” مدد کرو اے اللہ کے بندو۔ ( اسے ابن ابی شیبہ اور بزار نے ابن عباس سے روایت کیا) امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ مکمل احادیث کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔
نوٹ: ان سب احادیث (1) امام محدث طبرانی نے "طبرانی کبیر” 217/10 حدیث نمبر 10518 (2) حافظ ابوبکر دینوی عمل الیوم و الیلہ حدیث نمبر 509 ص 170 (3) امام ابن ابی شیبہ، المصنف جلد 10 ص 390 حدیث 9770 (4) امام بزار نے کشف الاستار عن زوائد الزار ص 34، 34/4 حدیث 3128 (5) حافظ الہیثمی نے مجمع الزوائد ج 10 ص 132 (6) ابویعلی جلد 9 ص 177 حدیث 5269 (7) البیہقی فی شعب الایمان جلد اول حدیث 167 (۸) قاضی محمد بن علی شوکارنی، تحفتہ الزاکرین ص 181 کے سیکن حوالہ جات کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔
اصول: یہ حدیث کئی طریق سے روایت کی گئی ہے اور کثرت طرق سے حدیث حسن ہوجاتی ہے. جرح و تعدیل کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔
نتیجہ
1۔ 24 گھنٹوں میں ہر لمحہ اللہ کریم بن مانگے ہمارے نیک اعمال پر ہماری مدد ثواب، رحمت، برکت، اجر اور درجہ بلند کر کے فرماتا ہے۔ کسی بھی مشکل میں بھی اللہ کریم فرشتوں، جنوں، انبیاء و اولیاء کی ارواح، ابابیلوں وغیرہ (اسباب) سے مدد فرماتا ہے، چاہے ہم دعا کریں یا نہ کریں۔ اسلئے حقیقی مددگار ہر وقت اللہ کریم ہے اور جس سبب کو مدد کے لئے مقرر کرے وہ بھی مددگار ہے۔
2۔ اللہ کے سوا کسی کو الہ سمجھنا شرک ہے، اللہ کے سوا کسی کو الہ سمجھ کر پکارنا شرک ہے، اللہ کریم کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے مگر اللہ کریم کی عطا اور حُکم سے رسول اللہ، اللہ کے بندے، مقرب فرشتے وغیرہ سب مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح ان احادیث پر عمل جائز ہے ، اگر حقیقی مددگار اللہ کریم کو سمجھیں۔
3۔ حضور ﷺ کی قرآن و سنت کے مطابق اس دُنیا سے بہتر ”حیات“ کو ماننا حیاتی عقیدہ کہلاتا ہے۔ باقی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسے ہیں، علاج کے لئے ہسپتال ہیں، ہر شے رب کریم سے مانگنی چاہئے اور اللہ کے سوا کوئی دے بھی نہیں سکتا۔اللہ کریم کو راضی کرنے کے لئے وظائف کریں مگر اللہ کریم کے حُکم کے بغیر سببب کوئی نہیں بنے گا۔
4۔ عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کے وسیلے سے دُعا جائز ہے اور بغیر وسیلے سے بھی جائز ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے، یا رسول اللہ مدد کہنا بھی ایک وسیلہ ہے مگر مدد اللہ کریم ہی فرماتا ہے۔ اللہ کریم کے حُکم کے بغیر کوئی نبی، ولی، پیر، پیغمبر مدد نہیں کر سکتا۔
فتاوی رضویہ: بریلوی عالم جناب احمد رضا خاں صاحب یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے روایت فرمائیں، شروع سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومعمول ومجرب ہیں۔ (جلد 21، صفحہ 318، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
نشرالطیب: دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ مواہب الدنیہ،ابن النجار، ابن عساکر اور اب الجوزی نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا: ایک اعرابی آیا اور رسول اللہ کی قبر کی زیارت کر کے عرض کیا یا خیر الرسل اللہ تعالی نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ارشاد ہے وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا: اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کے حضور آپ کے وسیلے سے شفاعت چاہتا ہوں نیز اسی طرح کا مفہوم رشید احمد گنگوہی نے بھی لکھا ہے۔