اللہ کی قسم
1۔ ایک مرد نے کہا کہ مجھے قسم کا کفارہ بتا دیں کیونکہ ایک جگہ رشتے دار وارثوں کو حق مل رہا تھا وہاں میں نے جھوٹی قسم کھائی جس سے ایک بندے کو پانچ لاکھ کا نقصان ہوا تو پہلے اُسے قرآن سمجھایا:
سورة البقرة 225: اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا ، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو۔ اُس کے ساتھ سورة النحل 91: اور سورة المجادلة 14 بھی سُنائی۔
اُس مرد کو مزید سمجھایا کہ قسم کی تین قسمیں ہیں اور تم نے جو جھوٹی قسم کھائی ہے یہ یمین غموس ہے جس پر کفارہ تو نہیں مگر اس کا اُخروی عذاب جہنم ہے۔ اسلئے وارث کا حق ادا کرو یا معافی تلافی کرو اور اُس کے ساتھ اللہ سے توبہ کرو۔ یاد رہے کہ ماضی کی قسم کھانے پر نہیں بلکہ مستقبل کی قسم کھانے پر کفارہ ہے:
(1) یمینِ لَغْو: ماضی کے کسی عمل یا واقعہ پر غلط فہمی اور لا علمی سے قسم کھانا کہ ایسا ہوا تھاحالانکہ ایسا ہوا نہیں تھا،ایسی قسم کھانے سے گناہ اور کفارہ دونوں نہیں۔
(2) یمینِ غَموس: ماضی کے کسی واقعہ پر علم تھا مگر جھوٹی اللہ کی قسم کھا گیا تو صحیح بخاری 6870: جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے جس پر توبہ کرنا بنتی ہے۔
(3) یمینِ منعقدہ: مستقبل کے کسی معاملے کے متعلق قسم کھائی یا خلف دیا تو ایسی قسم توڑنے کی صورت میں قسم کا کفارہ لازم آتا ہے۔
2۔ اُس سے پوچھا کہ کس کی قسم کھائی تھی کہنے لگا اپنی ماں کی- اُس کو سمجھایا ایسی قسم ہوتی ہی نہیں بلکہ قسم صرف اللہ کی ذات و صفات کی کھانا جائز ہے، باقی سب حرام ہیں:
صحیح بخاری 6646: اللہ تعالی نے باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے اور قسم کھانی ہے تو اللہ کی کھاؤ ورنہ خاموش رہو۔ ابو داود 3248: تم اپنی، اپنے باپ دادا، ماؤں کی قسم نہ کھاؤ اور نہ ہی ان کی جن کی پوجا (لات اور عزیٰ) کرتے ہو بلکہ صرف اللہ کی قسم کھانا اوروہ بھی اُس وقت جب تم سچے ہو۔ ابو داود 3251: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔ترمذی 1535: تم میں سے جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی وہ لا إله إلا الله کہے اور جس شخص نے کہا: آؤ جوا کھیلیں وہ صدقہ کرے۔
جائزقسمیں: اللہ کی قسم ، رب کعبہ کی قسم ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، مجھے پیدا کرنے والے یا رزق دینے والے رب کی قسم، محمد ﷺ کے رب کی قسم وغیرہ۔ قرآن کی قسم جائزہے کیونکہ اللہ کا کلام اور صفت ہے لیکن بہتر ہے کہ اللہ کی ہی قسم اٹھائی جائے۔
ناجائزقسمیں: کلمہ کی قسم ، کعبہ کی قسم ، رسول کی قسم ،پیر و مرشد کی قسم ، والدین کی قسم ، دهرتى كی قسم، ایمان کی قسم، تیرے سَر کی قسم،جان کی قسم وغیرہ وغیرہ۔ یہ قسم کھانے سے قسم ہوتی ہی نہیں البتہ گناہ ہوتا ہے۔
سوال: اُس نے کہا اللہ کریم نے تو قرآن پاک میں بڑی قسمیں کھائی ہیں اور محبوب کی عُمر کی بھی قسم کھائی ہے۔ اُسے سمجھایا کہ ارے بھائی اللہ کریم کا اختیار ہے جس کی مرضی قسم کھائے مگر قرآن و سنت نے تجھے صرف اللہ کی قسم کھانے کا اختیار دیا ہے۔
تشریح: قسم کو عربی لغت میں حلف یا یمین کہتے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا شرک یعنی حرام ہے کیوںکہ اُس نے اُس نے رب کو چھوڑ کر غیر اللہ کی تعظیم کی اور اب لا الہ الا اللہ کہے اوراپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرے۔ اسلئے جس نے اپنی زندگی میں ناجائز قسمیں کھائی ہیں وہ توبہ کرے۔
قسم کا کفارہ: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا جیسا اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان (دس مسکینوں ) کو کپڑا (لباس پہنانا) دینا ہے یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جو ان کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن (مسلسل) روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو، اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ۔ “(سورہ المائدہ 89)
پہلی دو صورتوں میں دس مسکینوں کو صبح شام کھانا کھلا دے یا ایک مسکین کو ایک فطرانے کے برابر رقم دے دے، لباس پہنا دے اور اگر موجودہ دور میں یہ دونوں کام نہ کر سکے تو پھر تین روزے مسلسل رکھنے ہیں۔
ترمذی 1530: "جو شخص کسی بات پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ دوسرے کام کو اس سے زیادہ اچھا سمجھے تو وہ (دوسرا) کام اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔”
نتیجہ: سب سے بہتر مسلمان وہ ہے جو قسمیں نہیں کھاتا، اگر سچا ہے تو ضرور اللہ کی قسم کھا کر اپنی سچائی بیان کرے اور اپنوں کو بھی یہ ہر گز نہ کہے کہ آپ تو مجھَے جانتے ہیں۔ جھوٹی قسم سے جو مال مارا وہ جہنم کی آگ ہے، مال واپس مالک کو کرے۔ زیادہ قسمیں کھانے والوں پر اعتبار نہ کرو۔ ماضی کے واقعات کو بھی ایسے بیان کرو کہ میرا خیال ہے ایسا ہوا ہے۔ کسی کا گھر بچانے کےلئے جھوٹی قسم کھا کر کفارہ بھِی ادا کرے تو بہتر ہے۔
صُلح: دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہلتشیع کو بھی اللہ کی قسم دے کر سوال کرنا چاہئے کہ اتحاد امت کے لئے توبہ کرنا بنتی ہے یا نہیں؟
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔
چور چور: یہ یاد رہے کہ اہلتشیع کے پاس اہلسنت کی طرح صحیح اسناد اور راوی کے ساتھ حضور ﷺ، صحابہ کرام و اہلبیت یعنی سیدنا علی، سیدنا حسن و حسین، سیدہ فاطمہ کی احادیث کی کتابیں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود) نہیں ہیں اور نہ ہی اہلسنت کے ائمہ کی طرح فقہ کے مجتہد ہیں۔ اہلتشیع دین چور امام جعفر کے اقوال کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد کو احادیث کہتے ہیں اور یہ اقوال بھی اہلسنت کی کتابوں سے چوری کر کے سند و راوی و کچھ متن بدل کر کتابیں تیار کی گئی ہیں۔
حقیقت: اہلتشیع کا دین پنجتن والا نہیں ہے، حضور ﷺ کی احادیث والا نہیں ہے، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین والا نہیں ہے۔ اہلبیت نے کسی بھی حدیث میں اہلتشیع کو نہیں کہا کہ تم فدک، جمل و صفین، امامت وغیرہ میں اہلسنت سے بدلہ لینا کیونکہ ان پر ظلم اہلسنت نے کیا نہیں اور اگراہلتشیع سمجھتے ہیں تو اپنی کتابوں سے ثابت کریں اور ان کے پاس پنجتن کی صحیح سند و راوی و متن کے کتابیں نہیں ہیں اور کہتے رہیں گے کہ اہلبیت کے دشمن پر بے شمار مگر یہ ۔۔ خود ان پر ہی پڑ رہی ہے کیونکہ جھوٹے ہیں۔
تحقیق: جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا۔