داتا دربار
1۔ عقیدہ یہی ہے کہ انبیاء کرام اور اولیاء کرام اپنی اپنی قبروں میں اپنے تمام کمالات، معجزات، کرامات، صفات کے ساتھ حیات ہیں جیسے حضورﷺ رحمتہ اللعالمین ہیں تو عالم برزخ میں جانے کے بعد بھی وہ رحمتہ اللعالمین ہیں۔ اس پر بہت سے سوال کئے گئے جیسے
(۱) کیا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ہسپتال لے جایا جائے یا کسی مزار پر لے کر جایا جائے؟
(۲) بچے کو اسکول لے جایا جائے یا علمی فیض لینے کے لئے کسی مزار پر جایا جائے؟
(۳) دنیاوی مسائل کے حل کے لئے مشورہ زندوں سے کریں یا مزار والوں سے؟
(۴) ٹوٹی ہڈیوں کو جوڑسکتے ہیں، کھارے پانی میٹھے ہو سکتے ہیں، آنکھیں اندھی ٹھیک ہو سکتی ہے تو سب کاموں کے لئے مزار جائیں یا ہسپتال ضروری ہیں؟
2۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مزارات پر یہ کام نہیں ہوتے بلکہ ہمیں وہی کرنا چاہئے جو شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ استخارہ، مشورہ، دوائی، دعاوغیرہ کرنی چاہئے مگر عقیدہ یہی ہے کہ دنیا سے جانے والا اپنے اپنے کمالات و فضائل و معجزات و کرامات کے ساتھ حیات ہے۔
3۔ اللہ کریم وحدہ لا شریک کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے۔ اللہ کریم نے جس جس کو جو کچھ عطا فرمایا اُس کی عطا کا انکاربھی نہیں جیسے خانہ کعبہ اللہ کریم کا گھر ہے جہاں دُعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن کیا کسی بھی جگہ دُعا کی جائے تو قبول نہیں ہوتی؟ عقیدہ یہی ہے کہ ہر مسلمان جہاں دعا مانگے قبول ہے اور جو فضیلت اللہ کریم نے خانہ کعبہ کو عطا فرمائی ہے اُس کا انکاربھی نہیں ہے۔
4۔ حضورﷺ کی قبر انور یا کسی بھی ولی کی قبر کی زیارت کرنا جائز ہے۔ البتہ ان پر قبے، گنبد وغیرہ نہ ہوں بلکہ قبر سب کی ایک بالشت نظر آئے توزیادہ بہتر ہے۔ یہ خیال ہے کہ قبے گنبد اہلسنت علماء کے کہنے پر نہیں بنے بلکہ سرکاری طور پر انبیاء کرام اور صحابہ کرام کو تاریخی ورثہ سمجھتے ہوئے بنائے گئے۔
5۔ فیض یا فیضان جو مسجد میں ملتا ہے وہ کسی دربار پر نہیں ملتا، اسلئے شرط یہ ہونی چاہئے کہ جو داڑھی نہیں رکھتا اور نماز نہیں پڑھتا، اُس کا داخلہ ہر قسم کے مزار پر بند ہونا چاہئے حالانکہ ایسا ہونا مشکل ہے۔
6۔ یہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہے کہ بابا بڑی کرنی والا ہے، مزاروں پر جانے سے کام بنتے ہیں، اللہ کے ولی اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں، سُنتے ہیں، مشکل کشائی کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ قرآن و احادیث میں جو ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ چوبیس گھنٹوں میں کون سا ایسا لمحہ ہے جب اللہ کریم کے حکم سے ”مدد“ نہیں ہوتی۔اسلئے اس کے حکم سے ہر کوئی مدد کرتاہے اور اگر حکم نہ ہو تو کوئی مدد نہیں کر سکتا۔اسلئے یقین رکھ کہ تو ہر وقت اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہے۔
7۔ قرآن و سنت کے مطابق توسل، استمداد، استغاثہ سے انکار نہیں ہے مگر اس پر عمل کرنا فرض نہیں ہے۔ جماعتیں اس کی بنیاد پر آپس میں لڑتی ہیں، بہتر تھا کہ عوام کو سمجھایا جاتا کہ استغاثہ، استمداد، توسل والی احادیث پر عمل نہ بھی کر مگر یقین یہ رکھنا ہے کہ تیری ہر دعا اللہ کریم قبول کرتا ہے۔
8۔ تمام جماعتوں کو دعوت ہے کہ یہ بتائیں کہ پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، مزارات پر حاضری، عرس، ایصال ثواب، میلاد، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، یا رسول اللہ مدد، قبر پر اذان، جنازے کے بعد دعا وغیرہ نہیں کرتے تو کیا ہم مسلمان ہیں؟ البتہ عقائد چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) والے ہیں،جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا مگر آج تک ان کا بدعت و شرک ثابت نہیں کر سکے۔
9۔ اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی سب بتائیں مندرجہ بالا اعمال نہ کرنے والے کو سب جماعتیں مسلمان سمجھتی ہیں یا نہیں؟ اپنی اپنی ذات اور جماعت سے نکل کر اہلسنت کو زندہ کرنے کا نعرہ لگائیں ورنہ رافضیت مزاروں پر قبضہ کر کے بیٹھی ہے جس میں بہت سے پیر و علماء ان کے ساتھ ہیں۔