Hazart Ali Susar Aur Hazart Umer Damad (R.A) (حضرت علی سسر اور حضرت عمر داماد (رضی اللہ عنھما))

حضرت علی سسر اور حضرت عمر داماد (رضی اللہ عنھما)

عرب میں عمروں کے تعین سے نکاح نہیں ہوتے تھے، حضور ﷺ نے کس کس عمر میں نکاح کئے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اسطرح ایک رشتہ سید زادی کا ایک جنتی صحابی سے ہوا جس کے موجودہ اہلتشیع مُنکر ہیں اور اُن کے مُنکر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ خود متعہ کرتے ہیں مگر ڈپلیکیٹ اہلبیت میں سے کس کس عورت یا مرد کی سنت زندہ کرنے کے لئےمتعہ کرتے ہیں، ہر گز نہیں بتائیں گے، البتہ اہلسنت کے نزدیک تو متعہ حرام ہے۔ سید زادی کا نکاح اہلتشیع مانیں ورنہ اپنی کتابیں جلائیں اور کہیں کہ ہمارے علماء اور اہلبیت ڈپلیکیٹ ہیں۔1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاکی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کے شوہر ہیں، اسلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے داماد اورحضرت امام حسن وحسین رضی اللہ عنھما کے بہنوئی ہیں۔ حضرت ام کلثوم سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاایک لڑکا زید اور ایک لڑکی فاطمہ ہوئی۔

2۔ اہلتشیع کی صحاح کتابوں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے داماد ہونے کے حوالے دیتے ہیں لیکن یہ پھر بھی کہیں گے کہ اتنی چھوٹی سی عمرمیں اتنے بڑی عمر سے نکاح کیسے ہوا، کیلکولیشن سے سمجھاؤ،اس کا ایک ہی جواب ہے کہ پہلے اپنی بنیادی علماء اور کتابوں کا انکار کر دیں۔ ان کتابوں میں دئے گئے زہریلے اور کاٹ دار دلائل پڑھیں۔

دلائل؛ شیعہ کے ثقہ الاسلام ابو جعفر بن یعقوب بن اسحاق کلینی الرازی المتوفی 328تا 329ھ اپنی کتاب”فروع کافى” کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو امام غائب مہدی المنتظر پر پیش کیا تو انہوں نے فرمایا: ھذا کاف لشیعتنا ” یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے”۔ملا خلیل شارح کافی اپنی کتاب الصافی شرح اصول کافی میں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آثار صحیح اس پر دلالت کرتے ہیں کہ جو حدیث بھی کافی (اصول و فروع ) میں مروی ہے بالکل صحیح ہے۔ ‘‘ (الصافی: ص 36) ان دونوں وضاحتوں سے ثابت ہوا کہ شیعہ دنیا میں کافی (اصول و فروع) کو صحیح اور مستند کتاب اور اس کی احادیث کا انکار گویا امام کو جھٹلاتے کے مترادف ہے۔ اب حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے !

1۔ امام جعفر صادق سے جب بى بى ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح کے متعلق پوچھا گیا ( کہ اس کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ہو گیا؟ تو فرمانے لگے کہ یہ ایک رشتہ ہم سے چھین لیا گیا تھا۔( فروع کافى باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ج5ص 346)

2۔ جناب جعفر صادق کا بیان ہے کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ طلب فرمایا تو آپ نے جواب میں فرمایا: وہ ابھی جوان نہیں ہوئی تو اس جواب کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں بیمار ہوں؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیوں کیا بات ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ کے بھتیجے (علی رضی اللہ عنہ) سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ہے، انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ یاد رکھئے! اگر اس نے میری فرمائش پوری نہ کی تو میں تم سے آب زمزم کی انتظامی سربراہی واپس لے لوں گا اور تمہاری بزرگی ایک ایک کر کے ختم کر دوں گا اور علی رضی اللہ عنہ پر چوری کے دو گواہ قائم کر کے چوری کی حد میں اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دوں گا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جذبات کی اطلاع کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی دختر ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے نکاح کا معاملہ میرے سپرد کر دو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ ( فروع کافی: 5/ 346طبع دار الکتب الاسلامیہ تہران)

3۔ عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔

4۔ سلیمان بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر بن صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ ( فروع کافی: کتاب الطلاق 6/ 116)

5۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی متوفی 460ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘: عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔( تہذیب الاحکام، کتاب النکاح)

6۔ سلیمان بن خالد کہتے کہ میں نے حضرت جعفر صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر رضی اللہ عنہ ) کے پاس تشریف لائے۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔(تہذیب الاحکام: حوالہ مذکورہ )

درجہ استناد: فروع کافی کی روایات نمبر 3 و نمبر 4 کو ہم سے شیعہ کی صحاح اربعہ میں شامل کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ سے دوبارہ اس لیے نقل کیا ہے تاکہ قارئین کو ان روایتوں کے پائے کا علم ہو جائے کہ شیعی محدثین نے ان روایات کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ ان سے مسائل فقہیہ کا استخراج بھی کیا ہے۔

7۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت باقر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب اور اس کا بیٹا زید بن عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت فوت ہوئے اور یہ علم نہ ہو سکا کہ ان دونوں سے میں سے کون پہلے فوت ہوا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نماز جنازہ بھی اکٹھی پڑھی گئی۔ (تہذیب الاحکام9/ 262۔ 263)

8۔ عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔ (کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج 3 ص 302)

9۔ سلمان بن خالد کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔(کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج3ص 302)

10۔ قاضی نور اللہ شوستری شہید ثالث جو کہ گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد ہیں اپنی مایہ ناز کتاب مجالس المؤمنین میں فروع کافی میں لکھتے ہیں: ’’کتاب استغاثہ وغیرہ میں منقول ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنی خلافت کو ترویج دینے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا تو آپ نے دوبارہ حجت قائم کرنے کے لیے اس سے انکار کر دیا۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور قسم کھا کر کہا کہ اگر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجھے اپنا داماد بنانے پر تیار نہ کیا تو مجھ سے جو کچھ ہو سکا کروں گا اور سقایہ حج اور زمزم کا منصب تجھ سے واپس لے لوں گا۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کر لیا کہ یہ سخت آدمی اس ناروا معاملہ کو اسی طرح کرے گا جیسا کہ وہ کہہ کر رہا ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چمٹ کر التماس کی کہ اس مطہرہ مظلومہ کے نکاح کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیں۔ جب حضرت اس بارے میں حد سے گزر گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بصورت اکراہ خاموش اختیار کر لی یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ پھر اپنے آپ اس نکاح کے مرتکب ہوئے اور بھڑکنے والے فتنہ کی آگ کو بجھانے کی خاطر اس منافق ظاہر اسلام (عمر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ عقد کیا۔ (مجالس المومنین ج1ص 182، کشف الاسرار ص39)

11۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح بڑی خوشی سے خود کیا، مہر وصول کیا اور بیٹی کو اپنے شوہر عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی اتباع کی وصیت فرمائی۔ ‘‘ (ناسخ التواریخ ج2ص 296) مزید برآں یہ کہ خود قاضی صاحب موصوف اپنی اس کتاب ’’مجالس المومنین ‘‘ میں ایک دوسرے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس مجبوری کا خود بھی ذکر نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں:نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی عثمان رضی اللہ عنہ کو دی اور علی رضی اللہ عنہ ولی نے اپنی بیٹی عمر رضی اللہ عنہ کو دی۔ (مجالس المومنین ج1ص 204)

لطیفہ: شیعہ حضرات حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی دشمنی میں اس رشتہ کا انکار کرتے ہوئے اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی کا رشتہ طلب کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک جن عورت کو اپنی بیٹی ام کلثوم کی صورت میں ڈھال کر عمر رضی اللہ عنہ سے بیاہ دیا تھا۔

تاویل: ام کلثوم نامی عورت جس کانکاح حضرت عمرسے ہوا وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی۔

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر کا نام بھی ام کلثوم تھا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز صحیح نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام ام کلثوم نہ تھا اور پھر ’’تہذیب الاحکام ‘‘ کی وہ روایت جو پیش نظر مقالہ کی دلیل نمبر 7 میں ہے۔ اس کی کیا تاویل کرو گے؟ (ملاحظہ فرمائیے تہذیب الاحکام، کتاب المیراث)

اہلسنت کے دلائل

بخاری شریف: حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں۔ ایک عمدہ چادر بچ رہی۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ حضرت ! آپ یہ چادر رسول اللہﷺ کی نواسی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو عنایت فرما دیجئے جو آپ کی بیوی ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: یا امیر المؤمنین اعط ہذا بیت رسول اللہﷺ التى عندک۔ امیر المؤمنین حضرت عمر نے فرمایا: میری بیوی ام کلثوم کے مقابلہ میں بی بی ام سلیط اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں۔ وہ انصاری عورت تھیں انہوں نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی تھی۔ امیر المؤمنین کہنے لگے: یہ بی بی ام سلیط رضی اللہ عنہاجنگ احد میں پانی کی مشکیں اپنی کمر پر لاد لاد کر ہمارے لیے لاتی تھیں۔ (بخاری: باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ج1 ص3)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:حضرت ام کلثوم امیر المومنین جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، ان کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہے، اسی لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہﷺ کہا، بی بی کلثوم رسول اللہﷺ کی حیات ہی میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ص59)

نواب وحید الزمان اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ چادر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو اس خیال سے نہ دی کہ ان کی بیوی تھیں اور غیر عورت کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم رکھا۔ ( تیسیر الباری ج3ص 108)

علامہ کرمانی صحیح بخاری کی اس حدیث شرح میں لکھتے ہیں کہ ام کلثوم فاطمہ بنت رسول اللہﷺ کی بیٹی ہیں جو رسول اللہ کی حیات میں پیدا ہوئی تھیں۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس محترمہ کار شتہ طلب کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ کو میری بیٹی پسند ہے تو میں نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا۔ (کرمانی شرح البخاری حاشیہ صحیح البخاری ص403)

صحابہ کرام
اصحاب کا لفظ صاحب کی جمع ہے اور صاحب کا معنی ڈکشنری میں ”ساتھی“ کے ہیں۔ حدیث جس کا مطلب ہے خبر دینا۔ مندرجہ بالا احادیث نبی کریم ﷺ، راوی صحابہ کرام، کتب کا نام، حدیث نمبر سب لکھا ہے۔ یہ احادیث مندرجہ ذیل محدثین نے اکٹھی کی ہیں:
حضرات محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، ابو داؤد (202 ۔ 275)، محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)
اہلتشیع حضرات نے پنجتن یعنی حضور ﷺ، سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، حسن و حسین سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث نہیں لیں بلکہ حضرت جعفر صادق (42 ۔ 148ھ) کے اصحاب (مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار) جنہوں نے حضرت جعفر صادق سے بھی 180، 230 یا 310 سال بعد احادیث اکٹھی کیں جو ان کی اصول اربعہ، احادیث کی کتب میں موجود ہیں:
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے تقریباً 180برس بعد
(2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230سال بعد
(3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً310برس بعد
فرق: رسول اللہ ﷺ کا دین نبوت اور خلافت والا ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے عمل کیا۔ البتہ اہلتشیع کا دین امامت والا ہے جس میں نبوت و خلافت نہیں ہے بلکہ 300 سال بعد امامت کے نام پر ایک دین اسلام کے نام پر اسلام کو داغدار کرنے کے لئے بنایا گیا۔ تحقیق کر لیں کہ کیا غلط کہا ہے تو ہم مجرم ہیں۔

اہلتشیع: اہلتشیع پر علمی کام اہلسنت بریلوی عالم جناب علامہ محمد علی صاحب، بلال گنج لاہور والوں نے عقیدہ جعفر، فقہ جعفر اور تحفہ جعفری کتابیں لکھ کر کیاہے، البتہ دیوبندی حضرات نے بھی ببانگ دُہل عوام کو اہلتشیع کے کُفر سے آگاہ کیا ہے۔

‎اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اہلتشیع نے اسلام کا مینڈیٹ چوری کیا ہوا ہے ورنہ یہ بتا دیں کہ ڈپلیکیٹ علی نے کہاں بیٹھ کر قرآن اور حضور کے فرمان اکٹھے کر کے کن راویوں کے ذریعے اہلتشیع جماعت تک پہنچائے۔ اہلسنت کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب جانتے ہیں۔

‎اہلحدیث: حضرات سے اہلسنت کا مسئلہ تقلید کو بدعت و
‎شرک کہنے کا ہے اور اگر وہ سعودی عرب کے وہابی علماء کے دفاع میں ہیں تو ان کے طریقے پر ہو کر اسلام میں ایک جماعت ہو کر علمی مذاکرات کریں۔

‎باغی گروپ: دیوبندی اور بریلوی گروپ میں جنگ صفین و جمل والے باغی موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک ہونے نہیں دیتے ورنہ چار کفریہ عبارتوں پر توبہ کی بات ہے تو مسلمان تو اسی وقت کہے کہ اللہ اور نبی کی شان میں یہ الفاظ ہیں تو مجھے معاف کر دو اُس پر سو سال سے بحث مسلمانوں کا کام نہیں لگتا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general