اولادِ حُسین رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ، حضورﷺ کے نواسے، حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے بیٹے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ حدیث کساء میں، آیت تطہیر میں، اور مباہلے میں شامل ہیں۔ قرآن و سنت کے مطابق اہلبیت سے اہلسنت محبت کرتے ہیں اور اہلتشیع قرآن و سنت سے ہٹ کر ختم نبوت کے منکر بنتے ہوئے بارہ امام کو حضورﷺ کے مقابلے میں مانتے ہیں حالانکہ دین مکمل ہو چکا اور چاروں خلفاء کرام قرآن و سنت پر تھے۔ یزیدی اور حسینی کوئی علیحدہ مذہب نہیں ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ملتے ہیں:
۱۔ حضرت شہر بانو جو ایران کے آخری بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھی۔ ایرانی ایک کہانی(لنک مانگ سکتے ہیں) میں بیان کیا تھا کہ حضرت عمر کا ایران کو فتح کرنا،تین شہزادیوں کو بانٹنا، بدلے میں شہادت عمر وعثمان و عمار ابن یاسر و حسن و حسین رضی اللہ عنھم میں ایران اور اس کے ایجنٹوں کا ہاتھ ہے۔حضرت شہر بانوکا کردار کس کو علم ہو تو بتائے کہ کیا حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ کو پیدا کر کے وفات پا گئیں؟ کیا کربلہ میں تھیں یا نہیں؟ کیا کربلا میں بدلہ لینے کے بعدحضرت شہر بانو کو ایرانی واپس لے گئے (کسی کو حقیقت کا علم ہو تو بتائے)۔البتہ حضرت علی(اوسط) بن حسین المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ہیں اور اسلئے اہلتشیع کے بارہ امام کا کھیل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
۲۔ حضرت لیلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی: عروہ بن مسعود وہی ہیں جن کے متعلق حضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے انبیاء کرام دکھائے گئے تو حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کی صورت ملتی تھی۔ حضرت لیلی رضی اللہ عنہھا ان کے بیٹے ابی مرہ کی بیٹی ہیں جن سے حضرت علی اکبر (تقریباً 26 سال کی عمر میں کربلا میں شہید ہو گئے) پیدا ہوئے۔
۳۔ حضرت رباب بنت امراء القیس بن عدی کے ہاں حضرت سکینہ (چار سال کی عمر میں وفات پا گئیں اورشام میں باب صغیر میں مدفون ہیں)، حضرت عبداللہ بن حسین المعروف علی اصغر(کربلہ میں 6ماہ کی عمر میں شہید ہوئے) اور رقیہ بنت حسین (چار سال کی عمر میں وفات پا گئیں) پیدا ہوئے۔
۴۔ ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ(عشرہ مبشرہ) سے طلحہ، حسین(لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔حضرت ام اسحاق بنت طلحہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھر فاطمہ صغری پیدا ہوئیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت حسن مثنی سے ہوا تھا۔ خاوند کی وفات کے بعد ایک سال تک غم میں ان کی قبر میں بٹھی رہیں۔ حضرت حسن مثنی کے بعد حضرت فاطمہ صغری نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے نکاح کیا۔حضرت فاطمہ صغری کے پہلے خاوند حضرت حسن مثنی سے عبداللہ، ابراہیم، حسن و زینب تھیں اور دوسرے خاوند عبداللہ بن عمر و سے محمد، دیباج، قاسم اور رقیہ تھیں۔
تاریخ بمقابلہ قرآن و سنت: تاریخ مستند نہیں ہوتی، اسلئے کوئی بھی دوست اصلاح کر سکتا ہے کیونکہ ہم سب سیکھنے اور سکھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہر مسلمان کی بنیاد قرآن و سنت ہے، البتہ اہلتشیع جماعت تاریخ کی بات کر کے ٹیکنیکل طور پر اہلسنت کو قرآن و سنت کی طرف آنے نہیں دیتے بلکہ گمراہ کرتے ہیں۔اہلتشیع قرآن کو مان بھی لیں تو فرمان رسولﷺ یعنی احادیث کی کتابوں کے منکر ہیں کیونکہ ان کی احادیث کی کتابیں، فقہ جعفر اور علماء جھوٹے ہیں۔
دوڑ: اس وقت دو ممالک (سعودی عرب اور ایران) کی آپس میں دوڑ ہے۔ قرآن و سنت پر اگر دیکھیں گے تو صرف اور صرف چار مصلے والوں کا دور آتا ہے جس نے تین براعظم کے مسلمانوں کو اکٹھا کیا ہوا تھا۔ خلافت کے احتتام پر مسلمان یتیم ہو گئے۔ کبھی دیکھا ہے کہ ایک سو سالوں میں کبھی سعودی عرب نے علمی مذاکرات کئے ہوں، البتہ اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہتے رہتے ہیں۔