Esal e Sawab Aur Fikar e Raza (ایصالِ ثواب اور فکر رضا)

ایصالِ ثواب اور فکر رضا

1۔ ہر ایک گھر میں کسی نہ کسی نے کبھی نہ کبھی مرنا ہے اسلئے اس پوسٹ کو سمجھنا لازمی ہے۔ اہلسنت علماء کرام نے ایصال ثواب، میلاد اور گیارہویں شریف کا کوئی متفقہ طریقہ کار بیان نہیں کیا جیسے نماز کی شرائط فرائض واجبات ہوتے ہیں اسطرح کیا ایصال ثواب، میلاد اور گیارہویں شریف کا کوئی متفقہ طریقہ کار ہر گز نہیں ہے۔

2۔ وہ احادیث جن میں نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سوال پر ”وصال“ کر جانے والوں کی طرف سے ”صدقہ“ کرنے کی تعلیم دی چاہے وہ پانی کا کنواں نکلوانا، باغ اللہ کی راہ میں دینا، اونٹ دینایا حج کرنا وغیرہ تھا، اس ”صدقہ“ کرنے کو اُردو میں ”ایصال ثواب“ کہا جاتاہے۔

جواز: انہی احادیث کی بنا پر جناب احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا”مسلمان مُردوں کو ثواب پہنچانا اور اجر ہدیہ کرنا ایک پسندیدہ اور شریعت میں مندوب امرہے جس پر تمام اہلسنت وجماعت کا اجماع ہے“۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر9 صفحہ 570) اگر کوئی احادیث کا انکار کرے تو اس کے لئے فرمایا کہ:(ایصال ثواب)”اس عمل کاانکار وہی کرے گا جو بے وقوف جاہل یا گمراہ صاحبِ باطل ہو۔“(جلد 9 صفحہ 570)

3۔ جناب احمد رضا خاں صاحبنے فرمایا: ”فاتحہ دلانا شریعت میں جائز ہے، اصل یہ ہے کہ جو کوئی عبادت کرے اسے اختیار ہے کہ اس کا ثواب دوسرے کے لیے کر دے اگرچہ ادائے عبادت کے وقت خود اپنے لیے کرنے کی نیت رہی ہو۔ظاہر دلائل سے یہی ثابت ہے خواہ نماز ہو یا روزہ، صدقہ یا قرأت“۔(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 593)

غلطی: عوام سمجھتی ہے کہ”فاتحہ“ کا مطلب ہے ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور تین دفعہ سورۃ اخلاص پڑھنا، کھانا آگے رکھ کر دُعا کرنا وغیرہ حالانکہ اس کی تعریف یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے لئے”نفلی“ عبادت کرتا ہے یعنی:

1۔تہجد پڑھتا ہے، اشراق کے نفل پڑھتا ہے، روزانہ دو نفل پڑھتا ہے، پڑھنے سے پہلے اس کی نیت اپنے لئے تھی مگر بعد میں وہی”نفلی عبادت“ کو اس نے اپنے والدین یا کسی بھی رشتے دار یا تمام امت محمدیہﷺ کو ”ایصالِ ثواب کر دی، ”جائز“ ہے۔اس کو فاتحہ دلانا کہتے ہیں۔

2۔ایک مسلمان شوال کے روزے رکھے یا یوم عاشورہ والے دن یا کسی بھی دن نفلی روزہ رکھے اور پھر اس کا ثواب تمام مسلمانوں کو کر دے تو اسے بھی فاتحہ پڑھنا کہتے ہیں۔

3۔ اگر کوئی صدقہ یعنی اپنا مال اپنے دوست، رشتے دار اور ہمسائے کو دے جیسا کہ اگر کسی کو بجلی یا پانی کا میٹر لگوا دے یا بل ادا کر دے، یہ بھی ”صدقہ“ کہلائے گا۔

4۔ قرآن کا ایصالِ ثواب جائز ہے لیکن خود تلاوت کر لیا کریں مگر ایسے قرآن نہ لئے جائیں۔

چند چشم دید واقعات

1۔ایک بندہ مدرسے کے باہر کھڑا ہو کر ”مولوی صاحب“کو گندے طریقے سے بُرا بھلا کہہ رہا تھا کہ میرا باپ مر گیا تم نے ”ختم“ کے لئے مدرسے میں حفظِ قرآن کرنے والے بچے نہیں بھیجے۔میں مدرسے کا چندہ بند کر دوں گا۔مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ بچوں کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے وہ کہنے لگا کہ بچوں کی پڑھائی میرے باپ سے زیادہ افضل تو نہیں تھی۔

2۔ایک عالم سے کوئی مدرسے کا”مُلّا“ پوچھ رہا تھا جناب لوگ بہت تنگ کرتے ہیں کہ قرآن”پڑھے“ ہوئے دو، میرا رشتے دار مر گیا ہے تو کیا کروں۔ کہنے لگے کہ لوگوں کو 50 ”قرآن“ کا ثواب دے دیا کرو۔ پوچھنے لگا کیسے؟ فرمانے لگے 150 مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر دے دیا کرو۔ کیا یہ حیلہ ہمارے والدین کی بخشش کا ذریعہ بنے گا؟

3۔ ایک بندہ ایک مدرسے میں گیا اورمولوی صاحب سے پوچھنے لگا کہ آپ قرآن پڑھ کر کیسے دیتے ہیں۔ کہنے لگے کہ ہم 100 بچوں کو جو سبق یاد کرواتے ہیں ان کو گن لیتے ہیں اور 30 سیپاروں کا سبق”ایک قرآن“ بنا کر لوگوں کو دے دیتے ہیں۔پورا قرآن تو مدرسے والے بھی پڑھ کر نہیں دیتے اوراسباق کی پڑھائی سے بہتر ہے کہ دو نفل پڑھ کر ایصال ثواب کردیں۔

4۔گھر گھر میں سیپارے بانٹے گئے اور بہت سے گھروں میں رہنے والوں نے پڑھا ہی نہیں اور کہنے لگے کہ ان کا باپ ہم نے تو نہیں مارا۔ خود پڑھیں ہمیں کیوں دیتے ہیں۔

5۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے ایصال ثواب کرنے کے لئے کوئی بھی اندازاختیار کر سکتا ہے، کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اگر نہ سمجھ میں آئے تو علماء سے ”’مشورہ“ اور ”رائے“ لے سکتے ہیں۔

پہلا انداز: آجکل کے دور میں مشورہ ہے کہ Mobile کے ذریعے سےSMSرشتے داروں اور دوستوں کو کر دیں کہ آج میرے والد یا والدہ کی ”برسی“ ہے اس لئے کوئی کہیں بھی ہے میرے ”والدین“ کے لئے ”فاتحہ“ پڑھ کریا 2 نفل پڑھ کر ”ایصال ثواب“اور دُعا کر دے۔

دوسرا انداز: ایک اذان کا جواب دینے پر 30لاکھ نیکیاں ملتی ہیں۔ فقہاء فرماتے ہیں ”اذان“ کا جواب قرآن کی تلاوت بند کرکے دینا چاہئے کیونکہ قرآن کے ایک لفظ پر 10نیکیاں ملتی ہیں اور اذان کے ایک کلمہ کا جواب دینے سے دو لاکھ نیکیاں ملتی ہیں۔ کتنا آسان طریقہ ہے روزانہ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کی تلاوت سے بھی آسان کام ہے۔

تیسرا انداز: کوئی بھی مسلمان جمعۃ المبارک کے دن مولوی صاحب سے عرض کرے کہ میرے مرحوم رشتے دار کے لئے ”فاتحہ“ پڑھ کر دُعا کروا دیں۔ پیسہ بھی نہیں لگتا، ریا کاری بھی نہیں ہوتی اور کام بھی بن جاتا ہے۔

چوتھا انداز: سب سے بڑی ”نیکی“جسے ہم ایصالِ ثواب قرار دیتے ہیں وہ ”دُعا“کرنا ہے جو کہ انبیاء کرام کی سنت ہے جیسے نبی کریمﷺ نے فرمایا ”رب ھب لی امتی“ اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ”رَبّنا اغفرلی ولوالدی واللمؤمنین یوم یقوم الحساب“۔

اگر گناہ گار مسلمان بھی ہونٹ ہلا کراپنے والدین کے لئے دعا کرے تواس کے والدین کا درجہ بلندہو جائے گااور اس کام کے لئے مولوی صاحب کو بُلانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ خود ”مولوی“ بننے کی ضرورت ہے جو ہم بننا نہیں چاہتے۔

دُعا کرنے والے کا درجہ: نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ عام مومنین و مومنات کے لئے ہر روز(27دفعہ) اللہ کریم سے معافی اور مغفرت کی دعا کرے گا وہ ان لوگوں میں سے ہو جائے گا جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جن کی برکت سے دنیا والوں کو رزق دیا جاتا ہے۔(معجم کبیر طبرانی)

4۔ مرگ والے دن کھانا پکا کر جنازے پر آئے ہوئے کو کھلانا جائز نہیں ہے۔جناب احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں ”ایصال ثواب سنت ہے اور موت میں ضیافت ممنوع، اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں۔ اور یہ بدعتِ شنیعہ ہے“۔(فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 9 ص 604)

سوال:کیا دور سے جورشتے دار آتے ہیں ان کے لئے کھانا پکاناچاہئے؟ دُور سے آئے مہمان کو کھانا کھلانے کے لئے بریلوی علماء سے مشورہ کر لیں کہ اُس کو کھانا کھلانا چاہئے کہ نہیں کیونکہ جناب احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا:”میت کی دعوت برادری کے لیے منع ہے، ان کا بُرا ماننا حماقت ہے۔ہاں برادری میں جو فقیر ہو اسے دینا اور فقیر کے دینے سے افضل ہے۔“(فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 609) (فوت شدہ کے گھر) ”پہلے دن صرف اتنا کھانا کہ میت کے گھر والوں کو کافی ہے بھیجنا سنت ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں، نہ دوسرے دن بھیجنے کی اجازت، نہ اوروں کے واسطے بھیجا جائے نہ اور اس میں کھائیں۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 603)

5۔ جناب احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا: ”طعام تین قسم ہے: ایک وہ کہ عوام ایامِ موت میں بطور دعوت کرتے ہیں یہ ناجائز و ممنوع ہے۔اس لیے کہ دعوت کو شریعت نے خوشی میں رکھا ہے غمی میں نہیں۔ اغنیاء کواس کا کھانا جائز نہیں۔

دوسرے وہ طعام کہ اپنے اموات کو ایصالِ ثواب کے لیے بنیت تصدق کیا جاتا ہے فقراء اس کے لیے احق ہیں، اغنیاء کو نہ چاہئے۔ تیسرے وہ طعام کہ نذورِارواحِ طیبہ حضرات انبیاء و اولیاء علیھم الصلٰوۃ والثناء کیا جاتا ہے اور فقراء و اغنیاء سب کو بطور تبرک دیا جاتا ہے یہ سب کو بلا تکلف روا ہے۔“( فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 614) تیجہ، دسواں، چہلم وغیرہ جائز ہیں جبکہ اللہ کے لیے کریں اورمساکین کو دیں۔“(فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 599)

”(سوم) کے چنے فقراء ہی کھائیں، غنی کو نہ چاہئے بچہ یا بڑا۔ غنی بچوں کو ان کے والدین منع کریں“۔(فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 615)”عوام مسلمین کی فاتحہ، چہلم، برسی، ششماہی کا کھانا بھی اغنیاء کو مناسب نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 610)

کھانے کے حقدار: جناب احمد رضا خاں صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مرگ والے گھر کھانا نہیں پکنا چاہئے۔ قل، چہلم،برسی، ششماہی،وغیرہ کا کھانا فقیر، مسکین اور غریب آدمی جس کو زکوۃ لگتی ہے صرف وہ کھا سکتا ہے۔ اس لئے امیر آدمی نہیں کھا سکتا۔مسجد میں ”امام مسجد“ کو روٹی بھیجنا کوئی ضروری نہیں اوراگرامام مسجدامیر ہے تو جمعرات کی روٹی یا چالیسویں تک جو روٹی بھیجی جاتی ہے، اس کے لئے کھانامناسب نہیں ہے۔

6۔ قل وچہلم سے زیادہ اولاد کے لئے غور کرنے والی بات

پہلی بات: سب سے پہلے اپنے والد کی”جائیداد“ کو شُمار کر لیں اور سارے بہن بھائی، والدہ وغیرہ مل کر فیصلہ کر لیں کہ تھوڑی ہے یا زیادہ۔ہم نے اب کیسے رہنا ہے اور ”جائیداد“ کوکیسے تقسیم کرنا ہے۔مسائل میراث کو ”علم الفرائض“کہتے ہیں اور حدیث میں ہے کہ”تم فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ کہ یہ دین کا نصف علم ہے“۔(بیہقی شریف)

دوسری بات: اگر کوئی باپ پر قرضہ ہے تو سارے رشتے داروں سے مدد مانگ کر وہ قرضہ ادا کریں تاکہ جانے والے کی روح کو کچھ تو سکون ملے اور یہ نہ ہو کہ قل و چہلم کے لئے قرضہ پکڑکر خود بھی”سکون“ کی دولت سے محروم ہو جاؤ۔

کفن کی قسمیں: علماء جانتے ہیں کہ کفن کی تین قسمیں ہیں جن میں ایک قسم ہے ”کفن ضرورت“ یعنی اگر کوئی غریب پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کسی رشتے دار کو مانگ کر کفن پہنائے گا تو ویسے کفن میں ”تین کپڑے“ دئیے جاتے ہیں لیکن مانگے کے کفن میں صرف ”ایک کپڑا“ دیا جائے گا کیونکہ مسلمان کو بھیکاری نہیں بنانا۔اس بات کی تفصیلات فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 100 پر دیکھ لیں۔ اس سے اندازہ کریں کہ کیا قُل و چہلم قرض پکڑ کر کرنا جائز ہے؟

یتیموں کا خیال: یتیموں یا بیوؤں کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور وہ اپنے ”مر“ جانے والوں کی پریشانی بھول کر ”قل و چہلم“ کے قصے میں پڑ جاتے ہیں حالانکہ اعلیحضرت نے فرمایا کہ”غالباََ ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے، یااور ورثہ موجود نہیں ہوتے، نہ ان سے اس کا اذن لیا جاتا ہے، جب تو یہ امر سخت حرامِ شدید پرمتضمن ہوتا ہے۔“(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 664)

7۔ ایصالِ ثواب کے لئے دن مقرر کرنا: امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ”میت کا تیجہ،دسواں، بیسواں، چالیسواں متعین کرنا یہ تعینات عرفیہ ہیں، ان میں اصلاً حرج نہیں جبکہ انہیں شرعاً لازم نہ جانے۔ یہ نہ سمجھے کہ انہی دنوں ثواب پہنچے گا آگے پیچھے نہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد9صفحہ604)

تعلیم: جناب احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں کہ دن ”متعین“ کرنا”تعینات عرفیہ“ یعنی معاشرے میں مشہور و معروف ہے مگراس کو شریعت نے لازمی قرار نہیں دیا ہے یعنی احادیث میں قل، چہلم، برسی وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اس لئے دن ”متعین“ کرنا بھی جائز ہے اور”مقرر“ کئے بغیر بھی ”صدقہ“ کرنا جائز ہے۔

بے وقوفی کی بات: عوام یہ سمجھتی ہے کہ چہلم تک صرف 4 جمعراتیں ہونی چاہئیں اور کھانا آگے نہ رکھا ہو تو ”ختم“نہیں ہوتا، سات قسم کے پھل اور سات قسم کی سبزیاں پکانی چاہئیں، دو دُودھ کے گلاس آگے رکھے جائیں تو ایک اور بندہ بھی مر جاتا ہے جب کہ جناب احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں کہ”اگرکسی شخص کایہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا سامنے نہ کیاجائے گا ثواب نہ پہنچے گا تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے۔“(فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 567) ”اور چالیس دن کے بعد بھی جمعراتیں ہو سکتی ہیں۔“(جلد 9 صفحہ 673)

”جاہل عوام نے ایصال ثواب کے باب میں جو ناپسندیدہ امور پیدا کر لیے ہیں۔ جیسے نمائش، ناموری،مفاخرت، مالداروں کو جمع کرنا، محتاجوں کو منع کرنا، اور یہ کہ سوم میں ایک جماعت اکٹھا بیٹھتی ہے اور سب کے سب بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہیں اورسننے کا فرض ترک کرتے ہیں، یہ سب ممنوع و ناروا، مکروہ اور برا ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 592)

حاصل کلام: تیجہ، دسواں، قل یا چہلم معاشرے کے بنائے ہوے نام تھے اور ہیں اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔قل یا چہلم اکٹھا بھی کر سکتے ہیں۔چھ ماہ بعد بھی کر سکتے ہیں، دس جمعراتوں کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔دن مخصوص کریں نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اہم نُکات

1۔جناب احمد رضا خاں صاحب نے قل، چہلم، تیجہ، دسواں شروع نہیں کروایا تھا بلکہ یہ برصغیر کے معاشرتی رسم و رواج میں سے تھا۔ کسی کے لئے قل و چہلم’’لازم“ نہیں ہے۔

2۔ صدقہ مالی عبادت کو کہا جاتا ہے، اس میں آپ کسی کو مکان بنا کر دے سکتے ہیں، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کروا سکتے ہیں، کسی کو تعلیم دلوا سکتے ہیں۔

3۔ قل و چہلم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ”صدقہ“ جب اورجس وقت چاہیں اچھی جگہ پر لگاسکتے ہیں۔

4۔ تعزیت کرنے کا مطلب صرف اظہار ہمدردی نہیں ہوتا بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس رشتے دار کا کوئی مر گیا ہے اس کی ہم مدد کیسے کر سکتے ہیں۔

5۔ اپنے فرائض (نماز، روزہ) پورا رکھنے والے”مسلمان“کے والدین چاہے زندہ ہوں یا مُردہ اللہ کریم ان کی نیکیوں میں سے ان کے والدین کو ”ثواب“ عطا فرماتا رہتا ہے۔

6۔ مجبور اً دنیا داری اور رسم و رواج کیلئے قل، چہلم، تیجہ، دسواں کرنے کا کوئی ثواب نہیں ہے۔

7۔ اگر کوئی قل چہلم نہ کرے اور اس کو ”گمراہ“ یا ”وہابی“ کہا جائے تو کہنے والاگناہ گار ہو گا۔

8۔ دیوبندی،اور اہلحدیث حضرات بھی دعا اور قرآن خوانی وغیرہ کی صورت میں پروگرام کر کے کھانے بھی کھا رہے ہیں اور اپنے اپنے مولوی حضرات کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ البتہ قل و چہلم کو بدعت کہہ رہے ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general