فقہ محمدی یا فقہ جعفر
اہلسنت: قرآن حضورﷺ پر نازل ہوا اور ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ کریم نے لے رکھا ہے، اسلئے جسطرح نازل ہوا،حرف بحرف وہی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ تینوں خلفاء کرام کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ نے قرآن کو کتابی شکل دینے میں مدد کی اور جس کے بعد قرآن کے وہ نسخے جو اب قرآن نہیں تھے بلکہ قرات میں فرق ڈال رہے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جلا دئے اور ایک نسخہ قرآن کا بنا کرا ان کی کاپیاں کروا کر ساری دنیا میں تقسیم کیا جو اس وقت سب کے پاس ہے۔
اہلتشیع: کتب شیعہ میں لکھا ہے کہ یہ اصل قرآن نہیں کیونکہ جو قرآن جبرائیل علیہ السلام حضرت محمد ﷺ پر لے کر نازل ہوئے اس میں تیرہ ہزار آیتیں تھیں (اصول کافی 471)، اس قرآن میں ایسی باتیں بھی ہیں جو خدا نے نہیں کہیں (احتجاج طبری 27)،موجودہ قرآن کو اولیاء الدین کے دشمنوں نے جمع کیا ہے (احتجاج طبری 30)، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا نام قرآن میں کئی مقامات سے نکال دیا گیا ہے(دیباچہ تفسیر صافی 75)۔ وغیرہ وغیرہ اسلئے اہلتشیع قرآن کے منکر ہیں۔
لطیفہ: سید نعمت اللہ الموسوی الجزائری نے لکھا ہے: قرآن جس طرح نازل ہوا تھا اس کو رسول اللہﷺ کی وصیت کے مطابق صرف امیر المومنین علیہ السلام نے آپﷺ کی وفات کے بعد چھ مہینے مشغول رہ کر جمع کیا تھا، جمع کرنے کے بعد اسے لے کر ان لوگوں کے پاس آئے جو آپ ﷺ کے بعد خلیفہ بن گئے تھے، آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب جسطرح نازل ہوئی وہ یہ ہے، پس ان میں سے عمر بن خطاب نے کہا: ہم کو تمہاری اور تمہارے اس قرآن کی ضرورت نہیں، تو امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ: آج کے دن کے بعد اس کو نہ تم دیکھ سکو گے اور نہ کوئی اور دیکھ سکے گا، جب تک میرے بیٹے مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا، اس قرآن میں بہت سی زیادات ہیں اور تحریف سے خالی ہے، جب مہدی ظاہر ہوں گے تو موجودہ قرآن آسمان کی طرف اٹھا لیا جائے گا اور وہ اس قرآن کو نکال کر پیش کریں گے جو کہ امیرا لمومنین نے جمع کیا تھا (انوار النعمانیہ: 3/357)
اہلسنت: حضورﷺ کے دور میں ہر کوئی مسلمان تھا، اسلئے ہم سب مسلمان ہیں اور ہماری پہچان قرآن و سنت ہے۔ حضورﷺ کے دور کے بعد خلفاء کرام بھی قرآن و سنت پر تھے اسلئے امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ، باغ فدک، جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان، صلح حضرت حسن و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھم سب کے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق تھے۔
اہلتشیع: اہلتشیع کے نزدیک حضورﷺ کی وفات کے بعدسب صحابی مرتد ہو گئے تھے(العیاذ باللہ) مگر صرف تین۔ مقداد بن الاسود، ابو ذر غفاری اور سلمان فارسی رضی اللہ عنھم (فروع کافی جلد8ص 245، کتاب الروضتہ ص115)
احادیث: صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا ہر فیصلہ قرآن و سنت سےاجتہاد اور مشاورت سے ہوتا، دور دراز کے صحابہ کو خطوط لکھ کر پالیسی سمجھائی جاتی،اس دور میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کوئی بھی نہیں تھے۔ پہلی اور دوسری صدی ہجری کی، بخاری و مسلم سے پہلے، احادیث کی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
(1) صحیفہ حضرت سعد بن عبادۃ انصاری (2) صحیفہ حضرت جابر بن عبداللہ (3) صحیفہ صادقہ (حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص) (4) صحیفہ حضرت عبداللہ ابن عباس (5)صحیفہ حضرت عمر بن حزام (6) کتب حضرت ابوھریرہ (7) کتاب حضرت عبداللہ ابن عمربن خطاب (8) کتاب حضرت انس بن مالک (9) کتاب حضرت علی ابن ابی طالب (10) صحیفہ حضرت ہمام بن منبہ (11) کتاب خالد بن معدان (12) کتب ابو قلابہ (13) کتب حضرت حسن بصری (14) کتب امام محمد الباقر (15) کتب مکحول شامی (16) کتاب حکم بن عتبہ (17) کتاب بکیر بن عبداللہ (18) کتب قیس بن سعد (19) کتاب سلیمان الیشکری (20) الابواب از امام عامر شعبی (21) کتب امام محمد بن شہاب الزہری (22) کتاب ابو العالیہ (23) کتاب سعید ابن جبیر (24) کتب حضرت عمر بن عبدالعزیز (25) کتاب مجاہد بن جبیر (26) کتب رجاء بن حیوۃ (27) کتاب ابوبکر بن عمرو بن حزم (28) کتاب بشیر بن نہک (29) کتاب عبداللہ ابن جریب (30) موطا امام مالک (31) موطا ابن ابی زئب (32) کتب امام محمد بن اسحاق (33) مسند ربیع بن صبیح (34) کتاب سعید بن ابی عروۃ (35) کتاب حماد بن سلمہ (36) جامع حضرت سفیان ثوری (37) جامع معمر بن راشد (38) کتاب امام عبدالرحمن الاوزاعی الشامی (39) کتاب الزہد از امام عبداللہ ابن مبارک (40) کتاب ھشیم بن بشیر (41) کتاب جریر بن عبداللہ (42) کتاب عبداللہ بن وھب (43) کتاب یحیی ابن کثیر (44) کتاب محمد بن سوقہ (45) کتاب زید بن اسلم (46) کتاب موسیٰ بن عقبہ (47) کتاب اشعث بن عبدالملک (48) کتاب عقیل بن خالد (49) کتاب یحیی بن سعید الانصاری (50) کتاب عوف ابن ابی جمیلہ (51) کتب امام جعفر الصادق (52) کتاب یونس بن زید (53) کتاب عبدالرحمن المسعودی (54) کتاب زائدہ بن قدامہ (55) کتب ابراہیم الطہمان (56) کتب ابو حمزہ السکری (57) الغرائب از شعبہ بن الحجاج (58) کتب عبدالعزیز بن عبداللہ الماحبثون (59) کتب عبداللہ بن عبداللہ بن ابی اویس (60) کتب سلیمان بن بلال (61) کتب عبداللہ ابن لہیہ (62) جامع حضرت سفیان ثوری (63) کتاب الاثار از امام اعظم امام ابو حنیفہ (64) کتاب معتمر بن سلیمان (65) مصنف وکیع بن جراح (66) مصنف عبدالرزاق (67) مسند زید بن علی (68) کتب امام شافعی (69) مسند ابو داود الطیالسی (70( الرد علی سیر الاوزاعی از امام قاضی ابو یوسف (71) الحجۃ علیٰ اہل المدینہ از امام محمد بن حسن الشیبانی (72) مسند عبیداللہ بن موسیٰ العبسی (73) مسند حمیدی (74) مسند مسرد بن مسرہد البصری (75) مسند نعیم بن حماد الخزاعی (76) مسند اسد بن موسیٰ (77) مسند اسحاق بن راہویہ (78) مسند عثمان ابن ابی شیبہ (79) مسند امام احمد بن حنبل (80) مسند محمد بن مہدی (81) مسند کبیر از بقئ بن مخلد رضی اللہ تعالیٰ عنھم ورحمتہ تعالیٰ علیھم اجمعین
فقہ: آپﷺ کے دور میں صحابہ کرام اس طرح عمل کرتے جیسے حضورﷺ کو دیکھتے۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام سارے مجتہد اور فقیہ تھے، البتہ فتوی دینے والے چند فقیہ صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنھم کے نام (1) حضرت عمر بن خطاب (2) حضرت علی بن طالب (3) حضرت عبداللہ بن مسعود (4) ام المومنین حضرت عائشہ (5) حضرت زید بن ثابت (6) حضرت عبداللہ بن عباس (7) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم ہیں۔
شہر: فقیہ صحابہ مختلف شہروں میں مقیم رہے ہیں اور فتاوی دیتے رہے۔ اسلئے (مدینہ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (مکہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردمجاہد بن جبیر، عطاء بن رباح، طاؤس بن کیسان رحمتہ اللہ علیھم (کوفہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگرد علقمہ،نخعی، اسود بن یزید اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیھم (بصرہ) حضرت ابو موسی اشعری، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھمااور ان کے شاگرد محمد بن سیرین (شام) حضرت معاذ بن جبل اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنھما اور ان کے شاگرد ابو ادریس خولانی رحمتہ اللہ علیہ (مصر) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد یزید بن حبیب رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
چار ائمہ کرام: دوسری صدی ہجری میں چار استاد (1) حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔150) تابعی جن کا سلسلہ حضرت حماد، علقمہ رحمتہ اللہ علیھما، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضورﷺ سے متصل ہے (2) حضرت مالک بن انس (93۔ 179)، (3)حضرت محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، (4)احمد بن محمد حنبل (165۔ 241)اور چار فقہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو عروج حاصل ہوتا ہے۔
اختلاف: چار علماء کی آپس میں عقائدپر لڑائی ہرگز نہیں تھی بلکہ اختلاف کی وجہ (1) قرآن کریم کی قراتوں میں اختلاف تھا (2) صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کیں تھیں (3) روایات کے ثبوت میں شبہ تھا (4) قرآن و احادیث کی نص کو سمجھنے اور اس سے مسائل اخذ کرنے کا مسئلہ تھا (5) عربی الفاظ کی ڈکشنری کے مطابق سمجھناکیونکہ مطلب میں فرق پڑ جاتا ہے (6) حالات کی وجہ سے دلائل میں فرق ہوتا ہے اس کو سمجھنا جسے دلائل میں تعارض کہتے ہیں (7) کتاب و سنت میں احکام محدود اور مسائل بہت زیادہ ہیں اسلئے اجتہاد کرنا وغیرہ۔ اسلئے ان چار امام نے مجتہد بن کر قرآن و احادیث سے سمجھنے کے قانون بنائے۔
اہلحدیث: حضرات بتا دیں کہ ان ”چار علماء“ کے سارے مسائل میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داود وغیرہ کے علاوہ باقی احادیث شامل ہیں یا نہیں حالانکہ امام محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204۔261)، امام ابو داؤد (202۔275)،امام محمد بن عیسی (229۔279 ترمذی)،امام محمد بن یزید(209۔273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215۔303 نسائی) ھجری میں پیدا ہوئے۔ ان محدثین کو امام اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ احادیث کے ”امام“ ہیں لیکن یہ بھی حضورﷺ کے مقابلے میں سچے نہیں ہیں، اسی طرح ”چار علماء“ کو بھی ”امام“ کہا جاتا ہے کہ وہ فقہ کے امام ہیں لیکن حضورﷺ کے مقابلے میں نہیں ہیں۔
عقیدہ: قرآن کے بعد مسلم و بخاری اور باقی چار کتابوں (ابن ماجہ، نسائی، ابو داود، ترمذی) کی احادیث ”صحیح“ مانی جاتی ہیں۔البتہ یاد رکھیں کہ صحاح ستہ کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں کی روایات سب صحیح ہیں اور اس کے علاوہ احادیث کی کتب کی روایات صحیح نہیں ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ تو صحاح ستہ کی ہر روایت صحیح ہے اور نہ دیگر احادیث کی کتب کی ساری روایات ضعیف ہیں۔ صحیح ایک لفظ ہے اور صحیح احادیث کی بھی کئی قسمیں ہیں جیسے حدیث صحیح لغیرہ، حدیث صحیح لذاتہ وغیرہ۔
چار مصلے: شاہ رکن الدین بیبرس نے اہلسنت علماء کرام (حنفی شافعی مالکی حنبلی) کے متفقہ سفارشات پر چار مصلے خانہ کعبہ میں رکھے جو خلافت عثمانیہ کے625 سالہ دور میں موجود رہے اور جن کو 1924 میں سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعت و شرک کہہ کر ہٹایا اور پھر بھی سرکاری مذہب حنبلی (مصلہ) رکھا۔ البتہ اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، غیر مقلد سعودی عرب میں ایک اور پاکستان میں مذہبی انتشار ہیں۔
پانچواں مصلہ: فقہ جعفر کا پانچواں مصلہ کبھی نہیں ہوا کیونکہ:
1۔ اہلتشیع کی فقہ کا نام ”فقہ جعفر“ہے اور حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے۔ ان کتابوں کو فقہ جعفر کی بنیادی کتابیں کہا جاتا ہے:
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے تقریباً 180برس بعد
(2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230سال بعد
(3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً310برس بعد
2۔ اصول کافی نمبر2میں لکھا ہے ”پھر امام باقر آئے ان سے پہلے تو شیعہ حج کے مناسک اور حلال و حرام سے بھی واقف نہ تھے۔ امام باقر نے شیعہ کے لئے حج کے احکام بیان کئے اور حلال و حرام میں تمیز کا دروازہ کھولا۔ یہاں تک کے دوسرے لوگ ان مسائل میں شیعہ کے محتاج ہونے لگے جب کہ اس سے پہلے شیعہ ان مسائل میں دوسروں کے محتاج تھے۔“ اس اعتراف سے ظاہر ہے کہ امام باقر سے پہلے شیعہ حلال و حرام سے واقف ہی نہ تھے۔ پہلی صدی ہجری میں فقہ جعفریہ کا وجود ہی نہیں تھا۔
3۔ حالانکہ حضورﷺ نے حلال و حرام کی نشاندہی اپنے دور میں فرما دی تھی لیکن اہلتشیع حضرات کے نزدیک یہ قرآن معتبر نہیں ہے اور ان کے نزدیک تین صحابہ کے علاوہ نعوذ باللہ سب مرتد ہو گئے۔ امام باقر رضی اللہ عنہ کے بعد امام جعفر رضی اللہ عنہ کا دور ہے مگر امام جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کوئی فقہ تدوین کی ہی نہیں ہے۔ اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملتا۔
فقہ جعفرکے ائمہ کرام
1۔ مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی ”حق الیقین“ کتاب صفحہ371پر لکھتے ہیں ”اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز و عراق، خراسان و فارس وغیرہ سے فضلاء کی ایک جماعت کثیر حضرت باقر اور حضرت صادق نیز تمام ائمہ اصحاب سے تھی مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار کے اور ان کے علاوہ اور کثیر جماعت بھی تھی جن کا شمار نہیں کر سکتے“۔ اب جن کے نام دئے گئے ہیں ان کے بارے میں شیعہ علماء نے کیا کہا:
زرارہ: ان صاحب کو امام جعفر کے ہم پایہ تصور کیا جاتا ہے ”قال اصحاب زرارہ من ادرک زرارہ بن اعین فقد ادرک ابا عبداللہ (رجال کشی صفحہ 95) لیکن دوسری جگہ شیعہ کتاب حق الیقین اردو صفحہ 722پر لکھا جاتا ہے کہ ”یہ حکم ایسی جماعت کے حق میں ہے جن کی ضلالت پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ زرارہ اور ابوبصیر یعنی زرارہ اور ابو بصیر بالاجماع گمراہ ہیں“۔ اب سوال یہ ہے کہ جو خود گمراہ ہے وہ دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا۔ اسی طرح رجال کشی صفحہ 107پر لکھا ہے ہے کہ امام جعفر نے فرمایا کہ ”زرارہ تو یہود و نصاری اور تثلیث کے قائلین سے بھی برا ہے“۔ امام جعفر نے تین مرتبہ فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو زرارہ پر (رجال کشی صفحہ100)۔ اسی کتاب رجال کشی کے صفحہ106پر ہے کہ زرارہ نے کہا ”جب میں باہر نکلا تو میں نے امام کی داڑھی میں پاد مارا اور میں نے کہا کہ امام کبھی نجات نہیں پائے گا“۔ امام جعفر نے لعنت کی زرارہ پر اور زرارہ داڑھی میں پاد مار رہا ہے، کیا یہ دین سکھائیں گے؟
ابو بصیر: فقہ جعفریہ کے مسائل میں یہ شخص بھی سرداروں میں شامل ہے، البتہ امام جعفر رضی اللہ عنہ کو رجال کشی صفحہ 116پر لالچی کہہ رہا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ ابو بصیر امام جعفر کے دروازے پر بیٹھا تھا اندر جانے کی اجات چاہتا تھا مگر امام اجازت نہیں دے رہے تھے ابو بصیر کہنے لگا اگر میرے پاس کوئی تھال ہوتا تو اجازت مل جاتی پھر کتا آیا اور اس کے منہ میں پیشاب کر دیا“۔ کیسے عالم ہے کہ امام کے پاس جانے کی اجازت بھی نہیں ملتی اور کتا منہ میں پیشاب کر دیتا ہے۔
محمد بن مسلم: اس کا دعوی ہے کہ امام باقر سے30ہزار حدیثیں سنیں اور 16ہزار احادیث کی تعلیم پائی۔ (رجال کشی صفحہ 109)۔ البتہ رجال کشی صفحہ 113پر مفصل کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے سنا فرماتے تھے کہ محمد بن مسلم پر اللہ تعالی کی لعنت ہو یہ کہتا ہے کہ جب تک کوئی چیز وجود میں نہ آئے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔“ کیا علامہ مجلسی نے جن تین اصحاب کو سر فہرست رکھا، کیا فقہ جعفریہ ان جیسوں کی روایات کی مرہون منت ہے۔
جابر بن یزید: رجال کشی صفحہ 128پر لکھا ہے کہ میں نے امام باقر سے ستر ہزار حدیث تعلیم پائی۔ اب رجال کشی صفحہ 126پر زرارہ کہتا ہے میں نے امام جعفر سے جابر کی احادیث کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب سے صرف ایک مرتبہ ملا اور میرے پاس تو کبھی آیا ہی نہیں۔“ 70,000احادیث کی تعلیم کیسے پائی؟
اصول کافی صفحہ 496میں امام جعفر کا بیان ہے ”اے ابو بصیر اگر تم میں سے (جو شیعہ ہو) تین مومن مجھے مل جاتے جو میری حدیث ظاہر نہ کرتے تو میں ان سے اپنی حدیثیں نہ چھپاتا“۔ اس کا مطلب ہو ا کہ کافی، استبصار، تہذیب اور من لا یحضرہ الفقیہ کی صورت میں ہزاروں احادیث جو امام جعفر سے منسوب ہیں وہ ان سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ رجال کشی صفحہ160 پر امام جعفر کا قول ہے کہ ”میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں پایا جو میری وصیت قبول کرتا اور میری اطاعت کرتا سوائے عبداللہ بن یعفور کے“
نتیجہ: اس سے معلوم ہوا کہ 460ھ تک فقہ جعفریہ کی کوئی کتاب نہیں تھی اور جو یہ چار کتب تھیں وہ بھی اللہ معاف کرے جھوٹی ہوں گی۔ اہلتشیع حضرات کی کتابیں جن کو عالم کہہ رہی ہیں،ان کو خود ہی گمراہ بھی کہہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ فقہ جعفریہ کے مسائل بتائے نہیں چھپائے جاتے تھے جیسے اصول کافی نمبر 340 پر لکھا ہے کہ امام ابو باقر نے فرمایا “اللہ تعالی نے ولایت کا راز جبرائیل کو راز میں بتایا۔ جبرائیل نے یہ راز محمدﷺکو مخفی طور پر بتایا۔ حضورﷺ نے یہ راز حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو کان میں بتایا پھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جسے چاہا بتایا مگر تم لوگ اسے ظاہر کرتے ہو۔
آٹھویں صدی ہجری میں فقہ جعفریہ کہ پہلی کتاب ”لمغہ دمشقیہ“ جو محمد جمال الدین مکی نے لکھی مگر اسے واجب القتل قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔اسے شہید اول کا لقب بھی دیا۔ فقہ جعفریہ لکھنے والوں کے کام زیر زمین ہی ہوتے رہے ہیں۔اس کے بعد علامہ زین الدین نے لمغہ دمشقیہ کی شرح ”روضتہ البھیہ“ کے نام سے لکھی مگر اس کے بھی قتل کر دیا گیا۔
حقیقت: علامہ مجلسی نے اپنی کتاب ”حق الیقین“ میں لکھا کہ ان ائمہ نے زرارہ، محمد بن مسلم، ابو بصیرنے فقہ جعفریہ کے لئے کام کیا تو انہوں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ ان کا ائمہ کرام سے ملنا بھی محال نظر آتا ہے بلکہ یہ ائمہ کی توہین کرتے رہے ہیں۔
نتیجہ: اہلتشیع کا دین منگھڑت ہے، پانچ احادیث کی روایات کرنے والے ان کے دین کے ستون ہیں، کہیں ان کی تعریف اور کہیں ان پر لعنت کی جاتی ہے اور ان راویوں نے سب کچھ امام باقر اور امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیھم سے روایات لیں جو کہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اور اس سے پیچھے صحابہ کرام اور اہلبیت کی اسناد بہت کم ہیں جن پر جرح کی جائے تو اہلتشیع بے بنیاد مذہب ثابت ہوتا ہے۔
اہلسنت: پاکستان میں مذہبی انتشار ایران اور سعودی عرب کی وجہ سے ہے۔دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کفر کا فتوی بھی ملک حجاز کے 36 اہلسنت علماء کرام نے دیا اور وہ فتاوی واپس نہیں ہوئے۔ مستحب اعمال (اذان سے پہلے دورود، جنازے کے بعد دعا جمعہ کے بعد سلام، عرس، قل و چہلم وغیرہ) نہ کرنے والے کو وہابی یا دیوبندی کہنے والے اہلنست نہیں ہیں۔ اہلحدیث جماعت ”تقلید“ کو بدعت و شرک کہتی ہے مگر خود یہ نہیں بتاتی کہ کس مجدد نے اہلحدیث جماعت کو ”محمدی نماز“ سکھائی اور مدرارس بنا کر مفتیان عظام کن اصولوں پر فتوی دینے والے بٹھائے۔
حق الیقین جو اردو میں ہے اس میں یہ الفاظ کہاں پائے جاتے ہیں برائے مہربانی تصویر بھیج دیں 03174092949