حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قتیلہ بنت عبد العزی اور حضرت ام رومان بنت عامر، اسماء بنت عمیس، حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنھم سے نکاح کئے اور آپ کی اولاد میں تین بیٹے حضرت عبدالرحمن، عبداللہ اور محمد اور تین بیٹیاں اسماء، عائشہ، ام کلثوم رضی اللہ عنھم شامل ہیں۔
قتیلہ بنت عبدالعزی: ان سے حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنھا پیدا ہوئی، البتہ قتیلہ بنت عبدالعزی نے اسلام قبول نہیں کیا، اسلئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔
ام رومان بنت عامر: حضرت ام رومان بنت عامر رضی اللہ عنھا صحابیہ ہیں،آپ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ہیں۔حضورﷺ کی حیات میں وفات پا گئیں اور حضورﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی۔(سیر الصحابیات)
اسماء بنت عمیس:آپ کا پہلا نکاح چچا ابو طالب کے بیٹے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے حضرت محمد، عون اور عبداللہ رضی اللہ عنھم پیدا ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا جن سے حضرت یحیی اور محمد اصغر پیدا ہوئے۔آپ کا انتقال 40 ھ میں ہوا۔
حضرت حبیبہ بنت خارجہ: ان سے حضرت ام کلثوم رحمتہ اللہ علیھا پیدا ہوئیں۔
پیدائش: حضرت محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ولادت 25ذی قعد10ھ کو ذوالحلیفہ میں حضورﷺ کے حج کے سفر کے دوران ہوئی، ان کی پیدائش کے چند ماہ بعد حضور ﷺکا وصال ہو گیا، اسلئے کچھ کہتے ہیں صحابی ہیں اور کچھ کہتے ہیں تابعی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پالا اور ان سے محبت کرتے تھے۔
نکاح: حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے نکاح کے حوالے سے اتنا ملتا ہے کہ ”یزدگرد“ ایرانی بادشاہ کی تین بیٹیاں جب گرفتار ہو کر آئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو خرید کر ان میں سے ایک کا نکاح حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے کیا، جن سے حضرت علی المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ دوسری کا نکاح حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے حضرت قاسم رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے اور تیسری کا نکاح حضرت عبداللہ بن عمر سے ہوا جن سے سالم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
مخالفین عثمان: تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گورنمنٹ کی مخالفت میں حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق آراء یہ ہیں (1) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے میں ان کا بھی ہاتھ ہے (2) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑے ہوئے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے شرم دلائی توشرمندہ ہو کر واپس آ گئے اور توبہ کر لی۔
بد دُعا: ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ظلما شہید کیا گیا ہے اور فرماتیں کہ ”اللہ تعالی محمد بن ابی بکر سے ان کا بدلہ لے، اللہ تعالی بنو تمیم کو ذلیل و رسوا کرے، اللہ تعالی بنو ہذیل کا خون بہائے، اللہ تعالی اشتر کو اپنے تیر سے ہلاک کرے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی بد دعا نہ پہنچی ہو (المجم الکبیر للطبرانی ج 1، حدیث 133، التاریخ الاوسط للبخاری ج 1 ح384، تثبیت الامامتہ و ترتیب الخلافتہ لابی نعیم الاصبھانی ج 1ح 140، مجمع الزوائد 9ح 14567)
جنگیں: حضرت محمد بن ابوبکررضی اللہ عنہ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور جنگ صفین میں کچھ کہتے ہیں موجود تھے اور کہتے ہیں کہ جنگ صفین میں اسلئے شامل نہیں تھے کہ اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو مصر کا گورنر بنایا ہوا تھا۔ جنگ صفین کے بعد جب حضرت علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما میں صُلح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس کوفہ تشریف لے آئے۔
وفات: ایک روایت ہے کہ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے تو اُن سے بدلہ لینے کے لئے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ ایک روایت ہے کہ مصراور کوفہ باغیوں کا گڑھ تھا اورحضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان سے متاثر تھے، اسلئے فاتح مصر، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ اس کو سمجھاؤ، جس سے دو گروپ کے درمیان مقابلہ ہوا اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے یا قتل کر دئے گئے۔ باقی ابو مخنف کی جھوٹی روایات ہیں کہ گدھے کی کھال میں ڈال کر جلایا گیا، بڑی بے دردی سے مارا گیا۔
اہلتشیع حضرات: قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، صحابہ کرام کے منکر ہیں، ڈپلیکیٹ علی کی محبت اپنی نسلوں میں ڈالنے والے اور ختم نبوت کے بھی منکر ہیں۔ عبداللہ بن سبا اور ابولولو فیروز سب سیکرٹ ایرانیایجنٹ ہیں، باغیوں کی بغاوت سے چند ایک صحابہ متاثر بھی ہو ئے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے غلط فہمیوں کے باوجود بہت اچھا کردار ادا کیا۔اہلتشیع کہیں گے کہ صحابہ کرام اتنے ہی کمزور تھے کہ عبداللہ بن سبا جیسے ایک عام آدمی نے بغاوت پیدا کر دی حالانکہ ایک سیکرٹ ایجنٹ کے پیچھے یہود و نصاری و ایرانی طاقت سب شامل تھیں۔
اہلسنت: چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ صحابہ کرام کے آپس کے گورنمنٹ والے مسائل اور آپس میں بشری تقاضوں پر خاموشی اختیار کرو۔ خاموشی بہتر ہے مسلمانوں کی مگر ساتھ ساتھ اہلتشیع بے بنیاد مذہب کی حرکات بھی بتاؤ ورنہ بہت سے پیر اور علماء اہلتشیع کے زر خرید غلام ہیں جو اس وقت مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مطالبہ: مذہبی عوام کا بُرا حال ہے، ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں مگر پیار سے اتنا نہیں کہہ سکتے کہ دیوبندی اور بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ، چار مصلے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا، البتہ اہلسنت کا مطالبہ ہے کہ دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں پر دفاع نہ کریں بلکہ موجودہ علماء توبہ کرلیں۔
امکان: یہ امکان تب ہے جب بریلوی اور دیوبندی جماعتیں یہ بتائیں کہ ہمارا تعلق خلافت عثمانیہ سے ہے لیکن سعودی عرب اور ایران سے نہیں۔ یہاں جنگ جمل و جنگ صفین سے بڑا فتنہ ہے کہ سب حق پرست انڈر گراؤنڈ ہے اور کوئی بھی لیڈر نظر نہیں آتا کیونکہ جو بھی آئے گا سب جماعتیں اُس کی مخالفت کریں گی کیونکہ دجالی سسٹم میں گدھ دین اسلام کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھے ہیں۔