حضرت زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنھما
حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنھما کی دونوں بیٹیاں حضرت زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنھما حدیث کساء، آیت تطہیر، آیت مباہلہ میں بھی شامل نہیں ہیں حالانکہ حیات دونوں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا (مباہلہ ہوا نہیں تھا) جا سکتی ہیں تو حضرت زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنھما کو کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ اہلتشیع حضورﷺ کے گھر والوں کو نہیں مانتے مگر حضورﷺ کی بیٹی کی اولاد میں سے بھی چند ایک کو معصوم مان کر بے بنیاد مذہب کا پرچار کرتے ہیں۔
حضرت سیدہ زینب بنت علی: حضور ﷺ کے چچا ابو طالب اور اُن کے بیٹے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ ہیں۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنھا کا نکاح حضرت عبداللہ سے ہوا جن سے دو بچے حضرت عون اور محمد کربلہ میں شہید ہوئے اور دیگر تین عبداللہ، علی اور ام کلثوم ہیں۔
حضرت سیدہ ام کلثوم بنت علی: حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا جس سے دو بچے حضرت زید اور لڑکی فاطمہ پیدا ہوئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عون پھر اُن کی وفات کے بعد حضرت جعفر طیار کے بیٹے محمد اور اُن کی وفات کے بعد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ سے نکاح کیا حالانکہ اس سے پہلے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کی سگی بہن حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح بھی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار سے ہوا تھا۔ دو باتیں ہیں، پہلی یہ کہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کو طلاق دے دی یا دوسری بات ان کی وفات کے بعدنکاح ہوا۔
تاریخ: طبقات ابن سعد اور نساب قریش کے مطابق حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے ایک نکاح لیلی بنت مسعود سے کیا جس سے ام محمد اور ام ابیہا پیدا ہوئے۔ ام محمد کا نکاح یزید بن معاویہ سے ہوا۔ اسلئے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کربلا کے بعد اپنی سوتیلی بیٹی کے ساتھ یزید کے گھر میں رہیں۔
بنو امیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دونوں بیٹیاں ام کلثوم اور زینب رضی اللہ عنھما کا مزار دمشق شام میں ہے، اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار کا بنو امیہ خاندان سے گہرا رشتہ تھا۔واقعہ کربلا کے ساتھ ساتھ ان حقائق کو ضرور یاد رکھنا چاہئے تاکہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب گمراہ نہ کرے۔
حضرت سیدنا علی کی بقیہ نسل: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ بنت حزام(ام البنین) کی اولاد میں سے حضرت عباس تھے جو ابوالفضل اور علمدار کربلا کے نام سے مشہور تھے۔چاروں بھائی عباس، جعفر، عثمان اور عبداللہ کربلا میں شہید ہو گئے۔ حضرت عباس کی نسل سادات علوی کے نام سے نسل چلی ہے۔ اسی طرح مزید دوبیٹے حضرت عمر بن علی اور حضرت محمد بن الحنفیہ کی نسل بھی علوی کہلاتی ہے مگر یہ سب معصوم نہیں ہیں۔
حضرت سیدناحسن کی اولاد: حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد حضرت حسن مثنی اور حضرت زید بن حسن سے چلی ہے۔ حضرت حسن مثنی کا نکاح حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی فاطمہ سے ہوا جن سے عبداللہ، ابراہیم، حسن و زینب رحمتہ اللہ علیھم پید ا ہوئے۔ حسنی سادات کہلانے والے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ۔اسلئے اہلتشیع ان سے بہت نفرت کرتے ہیں کیونکہ اہلسنت ہیں۔
حضرت سیدنا حسین کی اولاد: حضرت علی المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ (اہلتشیع کے چوتھے امام) جو کربلا میں بیماری کی وجہ سے جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کا نکاح حضرت فاطمہ بن حسن سے ہوا جن سے حسنی حُسینی باقر رحمتہ اللہ علیہ (پانچویں امام) پیدا ہوئے۔حضرت زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کے ایک بیٹے حضرت زیدبھی ہیں جن سے زیدی حسنی نسل چلی مگر اہلتشیع معصوم صرف حضرت باقر رحمتہ اللہ علیہ کو مانتے ہیں۔ حضرت زین العابدین کی پیدائیش 38ھ اوروصال 95ھ ہے۔ جنت البقیع میں حضرت سیدناامام حسن مجتبی اورامام زین العابدین،امام باقر، امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیھم کی قبور اکٹھی ہیں۔
حضرت باقر رحمتہ اللہ علیہ: آپ کا نام محمد اور لقب باقر تھا۔ اسلئے آپ محمد بن علی بن حسین بن علی ہیں۔پیدائش57ھ اوروفات 114ھ،57سال کی عمر پائی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر اور اُن کے بیٹے حضرت قاسم رحمتہ اللہ علیہ کی بیٹی ام فروہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت باقر رحمتہ اللہ علیہ کا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد پاک سے ہوا جن سے حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ (اہلتشیع کے چھٹے امام) پیداہوئے۔اسلئے یہاں حسنی حسینی اور صدیقی اکٹھے ہو گئے۔
حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ:حضرت جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی المعروف امام جعفر صادق کی پیدائش 82ھ اور وصال148ھ میں 65سال کی عمر میں ہوا۔
پہلی بیوی: حضرت حمیدہ کے بطن سے حضرت موسی کاظم (ساتویں امام)، اسحاق و محمد پیدا ہوئے۔
دوسری بیوی: حضرت فاطمہ سے اسماعیل، عبداللہ، افطح و ام فروہ پیدا ہوئے۔
دیگر ازواج: حضرت عباس، علی، اسماء اور فاطمہ پیدا ہوئے۔
قرآن و سنت: حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ دین کا کام کرتے رہے مگر ان کے نام سے کوئی فقہ موجود نہیں ہے۔ اہلتشیع کا مقدمہ فقہ جعفر کو ثابت کرنے کا یا حضرت نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ کو آپ کا شاگرد ثابت کرنے کا جھوٹا ہے، البتہ حضرت امام باقر سے حضرت نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) رحمتہ اللہ علیہ کا مکالمہ ملتا ہے۔
حضرت موسی کاظم رحمتہ اللہ علیہ: آپ کا نام موسی اورلقب کاظم تھا۔ 128ھ پیدائش اور وصال 183ھ میں 55سال کی عمر میں ہوا،بغدادعراق میں آپ کی قبر انور ہے۔آپ کی زوجہ کا نام حضرت نجمہ ملتا ہے۔ بچوں میں حضرت رضا (آٹھویں امام)، معصومہ، ابراہیم، قاسم، شاہ چراغ، حمزہ، عبداللہ، اسحاق، حکیمہ کے نام ملتے ہیں۔
حضرت علی رضا رحمتہ اللہ علیہ: آپ کا نام علی اور رضا لقب تھا۔148ھ پیدائش اور وصال203ھ یعنی 55سال کی عمر میں وفات پائی اور ایران کے شہر مشہد میں آپ کی قبر انور ہے۔آپ کی زوجہ کا نام سبیکہ لیا جاتا ہے اور اولاد کی تعداد بھی مختلف ہے جس میں حضرت محمد تقی (نویں امام) اور دیگر بہن بھائیوں میں حضرت حسن، جعفر، ابراہیم،حسین و عائشہ رحمتہ اللہ علیھم کے نام آتے ہیں۔
حضرت محمد تقی رحمتہ اللہ علیہ: آپ کا نام محمد اور لقب تقی تھا۔ پیدائش195ھ اور وصال220ھ کو ہوا۔حضرت موسی کاظم رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ہی قبر انور ہے۔آپ کی ازواج میں سمانہ، مغربیہ، ام الفضل بنت مامون کے نام ملتے ہیں اور اولاد میں حضرت علی رحمتہ اللہ علیہ (دسویں امام) موسی، فاطمہ اور امامہ کے نام ملتے ہیں۔
حضرت علی نقی رحمتہ اللہ علیہ: آپ کا نام علی اور لقب نقی ہے۔ پیدائش212ھ اور وصال254ھ کو 42سال کی عمر میں ہوا اور عراق میں آپ کی قبر ہے۔آپ کی زوجہ کا نام حدیث ملتا ہے اور اولاد میں حضرت حسن (گیارھویں امام) محمد، حسین، جعفررحمتہ اللہ علیھم کے نام ملتے ہیں۔
حضرت حسن عسکری رحمتہ اللہ علیہ: آپ کا نام حسن اور سامرہ کے محلہ عسکر میں رہنے کی وجہ سے عسکری کہلاتے ہیں۔ 232ھ پیدائش اور 260ھ کو وصال ہوا اور اپنے والد صاحب کے پاس ہی مدفون ہیں۔آپ کی بیوی کا نام نرجس بتایا جاتا ہے۔کچھ کہتے ہیں کہ ان کے گھر اولاد پیدا نہیں ہوئی۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ پانچ سال کا بچہ پیدا ہوا جو ایک غار میں غائب ہو گیا جسے وہ امام مھدی کہتے ہیں اور غائب سے عوام کو دیکھ رہا ہے۔
بارھویں امام: امام مہدی پر ”اہلسنت کے امام مہدی“ پوسٹ اس پیج پر موجود ہے جس کا لنک مانگ سکتے ہیں۔
تاریخ: اہلتشیع حضرات تاریخ پڑھنے کی بات کریں گے کیونکہ انہوں نے تاریخ میں گند ڈالا ہے اور ہر امام کے متعلق یہی مشہور کیا ہے کہ اُس کو زہر دے دیا گیا بہت ظلم ہوا۔ اہلسنت کہتے ہیں کہ اصل بات اہلبیت اور صحابہ کرام کی ذاتی زندگی پر قانون بنانے کی نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی ہے۔ اسلئے چاروں خلفاء کرام کا دور قرآن و سنت کے مطابق تھا اسلئے اہلسنت وہی ہیں جو قرآن و سنت پر ہیں لیکن اہلتشیع ایک بے بنیاد مذہب ہے جو اہلبیت کے نام سے ڈپلیکیٹ علی پر ایمان لاتے ہوئے ختم نبوت کا منکر ہے۔
پہچان: دیوبندی اور بریلوی کا نام تاریخ میں نہیں ملتا بلکہ دونوں جماعتیں چار مصلے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا لیکن بریلوی علماء کا دیوبندی علماء سے چار کفریہ عبارتوں پر توبہ کا مطالبہ ہے جس نے پورے پاکستان کو بریلویت و دیوبندی میں تقسیم کیا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ جہالت، قادیانیت، رافضیت و خارجیت کو پروموٹ کیا ہواہے۔