جنگ نہروان
1۔ جنگ صفین کی جنگ بندی کے لئے جب حاکم مقرر کئے گئے تو ایک ”متقی خارجی اور باغی“ گروپ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں بھی شامل تھا اُس نے نعرہ لگایا ”حکم صرف اللہ کا ہے“، اسلئے حاکم بناکر حضرت علی رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ کافر ہو گئے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کلمہ حق ہے مگر اس سے معنی کچھ اور لیا جا رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ علی حق ہے اور اس کے کئی معنی نکلتے ہیں۔
2۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل اور باغی گروپ جنگ جمل اور جنگ صفین کے بعد کچھ مر گئے اور کچھ کمزور پڑ گئے کیونکہ یہ کئی گروپ کا مجموعہ تھا، البتہ اس خارجی گروپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت سمجھایا مگر اس گروپ نے قتل، راہزنی اور فساد برپا کرنا شروع کر دیا، اسلئے 38ھ،عراق میں بغداد کے قریب نہروان کے قریب ”جنگ نہروان“ ہوئی۔
3۔ اس لڑائی میں لڑنے والے بہت کم خارجی بچے، جنگ جمل اور جنگ صفین کے تمام مسلمانوں کی نماز جنازہ پڑھائی گئی مگر جنگ نہروان میں سب کو قتل یا زندہ بھی جلایا گیا۔ دس بارہ لوگ بچ گئے جس میں عبدالرحمن بن ملجم بھی تھا جس نے بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔
4۔ ذوالخویصرہ لقب رکھنے والا تمیمی جس کا اصل نام حرقوص بن زھیر تھا، یہ خوارج کی اصل بنیاد ہے کیونکہ غزوہ حنین میں حضورﷺکی مال کی تقسیم پر اعتراض کرنے والا تھا اور اُس کی نسل میں سے حضورﷺ نے بتایا تھا کہ خارجی پیدا ہوں گے۔ حضورﷺ کی حدیث کے مطابق خارجی بہترین فرقے کے خلاف خروج کریں گے اور ان میں سے ایک بندہ کالے رنگ کا ہو گا، جس کے بازؤں میں سے ایک بازو عورت کی پستان کی طرح ہو گا مگر یہ لوگ بڑے متقی ہوں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ حدیث صادق ہوئی کیونکہ اسی جنگ نہروان میں یہ بھی مارا گیا۔
5۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس طرح اندرونی و بیرونی محاذ کو کنٹرول کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ باہر سے کوئی حملہ نہیں ہونے دیا۔ باغیوں کو مصروف رکھا اور خارجیوں کو مار گرایا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت نہ ہو سکی مگر صُلح کے بعد آپ نے اپنے علاقے کو کنٹرول کر کے مکہ اور مدینہ پاک کو محفوظ رکھا۔
6۔ عبدالرحمان بن ملجم نے مکہ میں دوسرے دو خارجی برک ابن عبداللہ اور عمرو بن بکر تمیمی سے ملکر تین شخصیات کو اکٹھا شہید کرنے کا پلان کیا جس میں حضرت علی، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم شامل تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ محفوظ رہے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ ابن ملجم کا کامیاب رہا، اسلئے21رمضان المبارک 40ھ کو آپ کوفہ کی مسجد میں شہید ہوئے۔
7۔ تاریخ سے ہم ایک نکتہ لے سکتے ہیں مگر ہر بات کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق کریں گے۔ اسلئے صحابہ کرام کے آپس میں معاملات پر خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنا دوراپنے ایمان کا امتحان دیتے ہوئے اچھے طریقے سے آزمائشوں سے گذرتے ہوئے گذارا۔
8۔ بہت سی عوام کہتی ہے کہ ہمیں من و عن بتایا جائے حالانکہ ان ساری عوام کو ایک ٹاسک دیتے ہیں کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی بنیاد کا علم حاصل کر کے ان کو متحد کرنے کی کوشش کریں جو کہ آج کے دور کی بہت بڑی بات ہو گی۔