عُرس اور فکر احمد رضا
1۔ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی شافعی مالکی حنبلی) کے دور میں عُرس منانا جائز تھا۔ آج کے دور میں مزاروں پر رافضی (اہلتشیع)، دو نمبر علماء، پیروں اور جاہل عوام کی وجہ سے ناجائز ہونا چاہئے۔ اہلتشیع ایک بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
2۔ اہلحدیث حضرات کے نزدیک حضورﷺ کے دور میں عرس نام نہیں تھا، البتہ اہلسنت کے نزدیک کسی عمل کا نام رکھنا بدعت نہیں ہے ورنہ تراویح لفظ اور تراویح کی رکعتیں مخصوص کرنا بھی بدعت ہو گا۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جمعہ کی دو اذانیں بھی بدعت ہو گا کیونکہ حضور کے دور میں نہیں تھیں پھر بدعتی کون کون ہو گا۔
3۔ دیوبندی اور بریلوی دونوں عُرس منانے والی جماعتیں ہیں، البتہ دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے آنے کے بعد اپنی کتابیں اہلتشیع کی طرح ہر ایڈشن میں بدلتے گئے، نظریات بدلتے گئے اور اہلسنت کے خلاف بدعت و شرک کا پراپیگنڈہ اہلحدیث کے مطابق کرتے گئے ورنہ دیوبندی عالم جناب اشرف علی تھانوی صاحب نے عرس کے متعلق جسطرح لکھا ہے وہ لکھتے ہیں:
* حکیم الامت دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
** عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا۔(بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
*** اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے۔(بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
**** حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی)
***** حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔(اشرف السوانح جلد اول ،دوم صفحہ نمبر 226)۔
4۔ اہلسنت عالم جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے اپنے فتاوی رضویہ میں عرس کا طریقہ کار یہ لکھا:
رقص یا دھمال ناجائز : ’’عرسِ مشائخ کہ منکراتِ شرعیہ مثلاً رقص و مزا میر وغیرہ سے خالی ہو جائز ہے‘‘۔(جلد نمبر 9 صفحہ 420، جلد نمبر 29، صفحہ 203)۔
عورتوں کا جانا ناجائز + جاہل کا جانا ناپسند: عورتوں کا مزارات پر جانا پسند نہیں کرتا خصوصاًاس طوفانِ بدتمیزی رقص و مزا میر سرودمیں جو آجکل جہال نے اعراس طیبہ میں برپا کر رکھا ہے اس کی شرکت میں تو عوام رجال کو بھی پسند نہیں کرتا (جلد 23 ص 111) عورتوں کاقبرستان جانا جائز نہیں(جلد نمبر 9 ص 541)
طواف،سجدہ و بوسہ قبر منع: بلا شبہ غیرکعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کو کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پرکھڑا ہو یہی ادب ہے (جلد 22 ص 382)
میوزک قوالی نا جائز: مزامیر کے ساتھ قوالی جائز نہیں(جلد نمبر 24 صفحہ 145)
آتش بازی ، دیا جلانا یا موم بتی جلاناحرام: ’’عرس میں آتش بازی (جیسے میلہ چراغاں )اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ۔ کھانے کا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے۔ تضیعِ مال ہے اور تضیع مال حرام۔ روشنی اگر مصالح شریعہ سے خالی ہے تو وہ بھی اسراف ھے‘‘۔(جلد نمبر 24 صفحہ 112)۔
مہندی، فرضی مزار اور طوائف :مہندی نکالنا ناجائز ہے اور اس کا آغاز کسی جاہل سفیہ(پاگل) نے کیا ہو گا(جلد 24 صفحہ 510) فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز اور بدعت ہے اور اس کی کمائی نذرانوں کی صورت میں حرام ہے(جلد 9 ص 425) رنڈیو ں کا ناچ بے شک حرا م ہے، اولیا ئے کرام کے عر سو ں میں بیقید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلا ئی ہے (جلد 29 ص 92)
(قبرکی) بلندی: نبی کریم ﷺ کے دورمیں انبیاء اور اولیاء کی قبروں پر کوئی گنبد، قبہ، اوپر تعویذ، پھولوں یا کپڑوں کی چادریں نہیں تھیں اور عرقِ گلاب سے ان قبروں کو غسل دینے کا کوئی تصور نہیں تھا، اس کا تعلق شرک، قبر پرستی اور عُرس سے نہیں ہے البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ اہلسنت عالم جناب احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا کہ ’’(قبرکی) بلندی ایک بالشت (ایک گِٹھ) سے زیادہ نہ ہو”۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 425)
5۔ ہر ولی اللہ کی قبر ایک گٹھ ہو، مزار وغیرہ بنانے کو ہم بدعت نہیں کہہ رہے مگر ہم ہر ولی اللہ کی کچی قبر ایک گٹھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
6۔ جناب محمد بن عبدالوہاب صاحب جن کو خارجی کہا گیا، انہوں نے بتوں کے لئے اتری آیات کو نبیوں اور ولیوں کی قبروں پر لگا کر مسلمانوں کو تفریق کیا۔
7۔ حضور ﷺ کی امت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔اسلئے دیوبندی اور بریلوی کے درمیان اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ اگر دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے نظریات پر رہنا چاہتے ہیں تو اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی سب پاکستان میں ایک مصلہ کر لیں ورنہ عوام کو بے ایمان کرنے پر سزا تو ضرور ملے گی۔
8۔ بریلوی علماء کے اندر تقسیم در تقسیم ہے، جماعتوں کا خود ایک موقف اور پہچان نہیں ہے ورنہ پہچان صرف چار مصلے اور فتاوی رضویہ میں لکھے گئے چار مصلے والوں کے متفقہ عقائد و اعمال ہیں۔