وضو (Ablution)
1۔ ہر مسلمان کو فرض نماز کے لئے وضو کرنا ہوتا ہے کیونکہ وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی (دارمی 709، ترمذی 1، صحیح مسلم)۔وضو کا پانی جہاں جہاں لگتا ہے وہاں سے گناہ معاف ہوتے ہیں (ابن ماجہ 282)۔ قیامت والے دن وضو والے اعضاء چمکتے ہوں گے (مسلم 579، 584)
2۔ سورہ المائدہ میں ہے ”مومنوں جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو دھو لو، ھاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اپنے سروں پر (پانی لگا کر) ہاتھ پھیرواور ٹخنوں سمیت (پورا) پاؤں دھو لو“۔
3۔ وضو کی سنتوں میں ہے کہ نیت کرکے (بخاری 1)، بسم اللہ پڑھ کر (ترمذی 25) تین دفعہ ہاتھ گٹوں تک دھونا، تین دفعہ کلی، تین دفعہ ناک میں پانی، تین دفعہ منہ، تین دفعہ کہنیوں سمیت ہاتھ، سر کا مسح، تین دفعہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھونا (صحیح بخاری 159، سنن ابو داود 106، ابن ماجہ 285، ترمذی 48)، کانوں کا مسح کریں (ترمذی 37) دایاں ہاتھ یا دائیں پاؤں پہلے دھونا (بخاری 168)، پیروں کی انگلیوں کا حلال چھوٹی انگلی سے کریں (ابن ماجہ 446)، وضو کے وقت مسواک استعمال کریں (بخاری و مسلم)
4۔ بندہ ہمیشہ وضو میں رہتا ہے اگر یہ کام نہ ہوں
پہلا کام: دونوں شرم گاہوں یعنی پیشاب یا پاخانہ کرنے کے سوراخ جن سے پیشاب، مذی، فضلہ، پاخانہ وغیرہ نکلتا ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لئے شرم گاہ کو دھو کر”وضو“ کرتے ہیں، البتہ اگر ہوا، گیس وغیرہ نکلے تونجاست نہیں نکلتی اسلئے کپڑا یا سوراخ نہیں دھوتے(استنجا) مگر ”وضو“کرتے ہیں۔ البتہ پیشاب اور مذی کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا اور جسم دھونا پڑے گا۔
پریشانی: اگر شک ہو کہ شرم گاہ کو دھونے کے بعد بھی پیشاب کے قطرے آتے ہیں، ایسی صورت میں (2یا3مرتبہ)پیشاب پاخانہ کر کے اگلی پچھلی ”شرم گاہ“کو کسی کپڑے سے اچھی طرح صاف کر لیں پھر کھانس کر یا تھوڑی دیر چل کردیکھیں اورجب محسوس ہوکہ قطرہ نکلا ہے لیکن شلوار وغیرہ گیلی نہیں تویہ آپ کا وہم ہے۔
حل: اگرپیشاب کا قطرہ آئے توتھوڑی سی محنت کریں، پیشاب کرنے کے بعد ”شرم گاہ“ کے سوراخ کے آگے ٹیشو پیپر وغیرہ رکھیں، جب قطرہ نکل جائے تو پھر وضو کریں کیونکہ قطرہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
دوسرا کام: جسم کے کسی بھی حصّے سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے ناک سے خون، پھنسی پھوڑے کی پیپ (کچا خون)، درد سے نکلا ہواآنکھ کا پانی اندرونی زخم کی پیپ وریشہ وغیرہ سے لیکن آنکھ میں تنکاپڑنے سے نہیں، تھوک میں خون دانتوں کی وجہ سے”سُرخ“ رنگ کاہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر زرد رنگ کاہو تو پھر نہیں، زخم کی پٹی پر خون ظاہر ہوجائے، خون ٹیسٹ کروانے سے خون سوئی کے ذریعے سرنج میں آئے، ان سب سے ”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے۔ (سنن الدارقطنی 157/1، الکامل فی ضعفاء الرجال: 268/2، سنن ابن ماجہ 1221، سنن الدار قطنی: 153/1، 157/1، نصب الرایتہ للزیلعی الحنفی 144/1، مصنف عبدالرزاق 148/1، ح570, 580، مصنف ابن ابی شیبتہ 136/1،
تیسرا کام: قے، اُلٹی (vomitting) سے جو معدہ (پیٹ) کا بدبو دار”گند“ منہ کے راستے باہر نکلتا ہے اس سے”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے لیکن جو تھوڑا ہو اور منہ کے اندر آ کر واپس چلا جائے تو اس کو ”قے“ نہیں کہیں گے، اس لئے وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔ (قے سے وضو ٹوٹنا ترمذی 87 کا مطالعہ کریں)
چوتھا کام: محض سونے یا نیند سے نہیں بلکہ ہوا گیس نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔ نیند کا ہر وہ انداز (style) جس سے ہوا خارج نہ ہو سکتی ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے (1) نماز میں التحیات پڑھنے کیلئے بیٹھتے ہیں (2) چوکڑی مار کربیٹھتے ہیں (3) toyota ویگن میں پھنس کربیٹھتے ہیں، ایسی صورتوں میں سو بھی جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ لیٹے کھڑے بیٹھے سونے کا ہر وہ انداز جس میں ہوا خارج ہو سکتی ہے، اس پر وضو کرنا ہوگا۔
پانچواں کام: نماز میں اگر کوئی مسکرائے یہاں تک کہ اُس کے دانت بھی نظر آئیں تو وضو نہیں ٹوٹتا لیکن ہلکی سی ”ہی ہی ہا ہا“ کی آواز سنائی دینے پر”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے،جس پر دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس لئے نماز پڑھنے والے کے پاس ایسا کوئی عمل کرنے والاگناہ گار ہے جس سے وہ ہنس پڑے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 264/1، نصب الرایتہ: 47/1، مصنف عبدالرزاق 376/2، ح: 3760 – 3762، کتاب الآثار بروایتہ محمد: 33، سنن دارالقطنی 166/1، ح:612، الکامل لابن عدی: 167/3، مصنف ابن ابی شیبتہ 388/1، 288/1)
اختلاف: حضرت نعمان بن ثابت نے، جو شاگرد ہیں حضرت حماد، وہ حضرت علقمہ، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور وہ حضورﷺ کے ہیں۔، انہوں نے اپنی کوئی رائے نہیں دی بلکہ وضو ٹوٹنے کا احادیث سے ثبوت دیا کیونکہ وہ ضعیف احادیث کو اپنے قول سے زیادہ عزت دیتے تھے۔ اہلحدیث حضرات یہ کہیں گے کہ یہ سب ضعیف احادیث ہیں تو صرف دو سوال ہیں اہلحدیث جماعت کی بات نہیں بلکہ یہ بتائے کہ اس کی بنیاد صحیح اور ضیعف احادیث پر کس نے رکھی کیونکہ چار ائمہ کرام میں سے کسی کے مقلد نہیں ہیں۔ دوسرا سوال کیا حضورﷺ صحیح اور ضعیف کا فرق بیان کر کے گئے تو پھر اہلحدیث حضورﷺ کے مقلد ورنہ جس نے فرق کیا اس کے مقلد کہلائیں۔
غلط فہمیاں: جھوٹ، غیبت، بہتان،گالی نکالنا اور گندی باتوں سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا البتہ وضو کر لے تو بہتر ہے۔ اسی طرح شراب ”حرام“ ہے اور اس کو پینے کی اجازت نہیں ہے۔شریعت ”شرابی“کودُرّے لگانے کی سزا دیتی ہے مگر کسی بھی حدیث پاک میں شراب سے ”وضو“ ٹوٹنے کا نہیں آیا، علماء فرماتے ہیں کہ اگر شراب پینے سے نشہ ہو اور ہوش جاتے رہیں تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں۔ البتہ بے علم شرابی ”نماز“ چھوڑنے کے لئے جھوٹی ”حدیث“ بیان کرتا ہے کہ خنزیر (سُور) کا نام لینے یا شراب پینے سے 40دن”نماز“ نہیں ہوتی۔
اسی طرح عورت کو ننگا دیکھنے یا چُومنے والا یا میڈیا پر ایسا گندامنظر دیکھنے والے کو بے غیرت یا جو مرضی کہیں لیکن اس سے ”وضو“ نہیں ٹوٹے گا جب تک ”شرم گاہ“ سے پانی(مذی) نکل کر کپڑے کو گیلانہ کر دے۔
اس کے علاوہ شرمگاہ کو کپڑے کے بغیر ہاتھ لگانے یا خارش کرنے، ناک یا منہ سے بلغم آنے، آنسوبہنے، پسینہ آنے، کھانا کھانے،خوب ہنسنے، عورت کا بچے کو دودھ پلانے سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا۔
غلط فہمیاں: جھوٹ، غیبت، بہتان،گالی نکالنا اور گندی باتوں سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا البتہ وضو کر لے تو بہتر ہے۔ شرمگاہ کو کپڑے کے بغیر ہاتھ لگانے یا خارش کرنے، ناک یا منہ سے بلغم آنے، آنسوبہنے، پسینہ آنے، کھانا کھانے،خوب ہنسنے، عورت کا بچے کو دودھ پلانے سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا۔ خنزیر کا نام لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی زبان پلید ہوتی ہے۔
شرا ب: شرا ب ”حرام“ ہے اور اس کو پینے کی اجازت نہیں ہے۔شریعت ”شرا بی“ کو 80 دُرّے لگانے کی سزا دیتی ہے مگر کسی بھی حدیث پاک میں شرا ب سے ”وضو“ ٹوٹنے کا نہیں آیا، علماء فرماتے ہیں کہ اگر شراب پینے سے نشہ ہو اور ہوش جاتے رہیں تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں۔ البتہ شرا ب پینے والا توبہ نہ کرے تو شرا بی کی 40 دن کی نمازیں قبول نہیں ہیں (ترمذی 1517) مگر یہ بھی نہیں کہ نماز نہ پڑھے۔
فرائض وضو: مسائل علماء کرام کے پاس جا کر سیکھنے سے آتے ہیں، البتہ عوام وضو تقریباً سنت کے مطابق کرتی ہے لیکن وضو میں (3) اعضاء دھونے اور سر کا مسح کرنے میں احتیاط کرے:
1۔ تمام چہرہ دھونا اور داڑھی کوٹونٹی یا نلکے کے نیچے رکھ کر جلد تک پانی پہنچائیں۔ 2۔ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھو ئیں 3۔ ہاتھ پرپانی لگا کر سر کے 1/4(چوتھائی) حصے پر لگائیں جسے مسح کہتے ہیں۔ 4۔ دونوں پاؤں کا مسح شیعہ حضرات کرتے ہیں لیکن اہلسنت ٹخنے، ایڑیاں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کر کے اچھی طرح دھوتے ہیں۔
٭ نہر، دریا یا باتھ روم میں نہاتے وقت یہ چار وں فرض دُھل گئے تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭ اگر نیت نہ کی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو ”وضو“ ہو جائے گا لیکن بہتر ہے دونوں کام کر لئے جائیں۔
٭ نہانے کے بعد حاجت ضروریہ پیش آئی تو”وضو“ ٹوٹ جائے گا۔
٭ اگر دانت پیلے ہوں یامنہ سے سگریٹ، پیاز، مولی کی بدبو آتی ہو تو مسواک، ٹوتھ پیسٹ، منجن وغیرہ سے صاف کریں کیونکہ بدبو سے فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف پہنچانا حرام ہے اور ایک دفعہ مسواک، منجن، ٹوتھ پیسٹ کرنے سے دانت جتنی دیر تک صاف رہیں گے 70نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا۔
بہتر صورتیں: جس کو قطرہ آتا ہے وہ نماز کے لئے وضو پہلے کرے۔گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانابہتر ہے، مسجد میں وضو کرنے میں ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے پڑنے کے علاوہ بھی کئی پریشانیاں ہیں۔نلکے سے وضو کرتے ہوئے10یا12لٹر پانی ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ٹونٹی کم کھولی جائے یا وضو کرنے کے لئے ”لوٹا“ استعمال کیا جائے۔ با وضو رہنے کے بہت سے فضائل ہیں اورنبی کریمﷺ وضو خاموشی سے کرتے۔ اسلئے مشورہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہیں اور وضو ”خاموشی“ سے کریں حالانکہ علماء نے دعائیں پڑھنے کو جائز فرمایا ہے۔
حل: جس مرد یا عورت کو مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل قطرے، مسلسل ہوا وغیرہ، 2رکعت یا 4رکعت”نماز“پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ”معذور“کہتے ہیں اور جب تک یہ”معذوری“ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیاتو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔
اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ”معذوری“ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت ہو تو دوبارہ وضو کریں۔یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔
تقسیم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ علی کے ماننے والے ختم نبوت کے منکر ہیں مگرمسلمانوں کو دیوبندی، بریلوی، وہابی اور اہلحدیث میں تقسیم کرنے والے شیطانوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اسلئے فارمولہ مذہبی عوام اور علماء سے مانگتے ہیں کہ بتائیں کہ اتحاد امت کے لئے کونسے عقائد پر رہنا ہو گا مگر مذہبی عوام اور علماء کے پاس کوئی فارمولہ نہیں ہے۔
اصولی اختلاف: البتہ تحقیق یہی کہتی ہے کہ دیوبندی اور بریلوی بننا ضروری نہیں بلکہ دونوں کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں ہیں، دونوں چار مصلے والے تھے جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ ان دونوں میں سے کوئی ایرانی اور کوئی سعودی ایجنڈے پر ہیں کیونکہ اہلسنت رہنے میں ان کوکوئی فائدہ نہیں ہے ورنہ نعرہ لگائیں چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت۔