دو معاشرتی رُلا دینے والے واقعات
1۔ میرے سامنے ایک عورت ایک عالم کے پاس آئی اور لے کر آنے والا اُس کا ہمسایہ تھا، آنے والے کہیں دور سے آئے تھے، ہمسائے کو میں چہرے سے پہچانتا تھا، وہ عالم صاحب سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس عورت کا قصہ یہ تھا کہ وہ چار بچوں کی ماں تھی لیکن اپنے خاوند سے بہت تنگ تھی، کسی اور سے موبائل محبت کرتی تھی اور آپس میں ملتے بھی تھے۔
اُس عالم نے عورت سے کہا کہ تو اُس کو چھوڑ دو اور اپنے خاوند کو سمجھو کہ اُس کو تم سے کیا شکایت ہے، اکثر اوقات دو چار باتوں پر ہی لڑائی ہوتی ہے اور اگر عورت اُس بات کو سمجھ جائے اور اپنی عادت بدل لے تو لڑائی ختم ہو سکتی ہے جیسے گھر کی صفائی، مینجمنٹ، بچوں کا خیال وغیرہ وغیرہ۔ الفاظ عالم صاحب کے بہت اچھے تھے مگر عورت نے کہا کہ میں دوسرے مرد کی محبت میں بہت دور نکل گئی ہوں۔
عالم صاحب نے کہا کہ اگر تم اتنی دور نکل گئی ہوتی تو معاشرے میں بدنام ہو چُکی ہوتی، اسلئے تم اتنی دور نہیں نکلی ہو واپس آ جاؤ، جب مسئلہ بگڑ جاتا ہے تو پھر واپسی ممکن نہیں ہوتی اور یہ زندگی امتحان ہے۔ انہوں نے اُس کو بیٹی اور بہن کہہ کر سمجھایا تو اُس عورت نے کہا کہ میں کوشش کروں گی۔ عالم صاحب نے کہا کہ کوشش بھی کرو اور کبھی خیالات ادھر اُدھر ہوں تو اس بچے کے ساتھ آ جانا اور برین واشنگ کروا لینا۔ اُس عورت نے ہامی بھر لی لیکن دو سال بعد اُس لڑکے نے بتایا کہ اس کے خاوند نے اُسے گولی مار دی ہے کیونکہ وہ بہکنے سے باز نہیں آئی تھی۔ اللہ کریم اُسے معاف کرے۔
2۔ اسی طرح لڑکا اور لڑکی کزن تھے، آپس میں محبت کرتے، غریب خاندان تھا، وہ محبت کونسی تھی یہ علم نہیں، البتہ اُس لڑکی کا نکاح ہونے لگا تو یہ لڑکا ناراض ہو گیا، اُس لڑکی کا نکاح بھی غریب مزدور لڑکے سے ہوا۔ چند سالوں بعد دوبارہ محبت کرنے والے لڑکا اور لڑکی فیملی کی کسی شادی میں ملے، شکوے شکایتیں ہوئی، محبتیں دوبارہ جاگ گئیں، لڑکا اور لڑکی آپس میں ملنے لگے۔ اُس عورت کے چھ بچے ہو گئے اور محبت کرنے والے نے بتایا کہ اس میں تین میرے اور تین اُس مزدور کے ہیں جو اُس کا حقیقی خاوند ہے۔
محبت کرنے والے لڑکے نے کہا کہ میں نے تو اُس لڑکی کے خاوند کو کہا ہے کہ اس کو طلاق دے دو، میں چھ بچوں سمیت اسکو قبول کر لوں گا، چھ بچے میں ہی پالوں گا لیکن خاوند کا جواب یہ تھا کہ پھر میں کس کے ساتھ گذارہ کروں گا، غریب آدمی ہوں، ایک نکاح کے بعد رنڈوا ہو جانے پر کوئی لڑکی نہیں دیتا، اسلئے میں نے اسے طلاق نہیں دینی۔ اب کب تک یہ کام چلتا رہا معلوم نہیں کیونکہ اُس محبت کرنے والے لڑکے نے چند دن نیک صحبت میں رہ کر آنا چھوڑ دیا تھا۔
نتیجہ: یہ معاشرتی مسائل ہیں، یہاں شریعت سکھانا کتنا مشکل ہو گا جب جذبات، خواہشات اور ارادے فلمیں ڈرامے دیکھ کر اس حد تک پہنچ گئے ہوں، تو قصور کس کس کا ہو گا، معلوم نہیں، کیونکہ یہی بات اس حد تک جا سکتی ہے کہ ماں اور بیٹا آپس میں پیار بھی کر سکتے ہیں مگر ان کو شرم محسوس نہیں ہو گی کیونکہ یہی ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے۔
سچائی: سچائی کو تسلیم کر کے اپنی اولادوں کو چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ ان کو آخرت میں رب کے دیدار کا شوق ڈالیں تاکہ ان کی نظر میں برائی برائی لگے۔ علماء کرام کو چاہئے کہ کنجری نے کتے کو پانی پلایا بخشی گئی، سو قتل کرنے کے بعد بندہ بخشا گیا والے قصے کم کر کے معاشرتی مسائل (نکاح، بیوہ یا رنڈوا سے نکاح، سادگی سے نکاح، طلاق، عدت، شوہر کی ذمہ داری، حکم مصاہرت وغیرہ) زیادہ بیان کریں۔
حقیقت: یہ تب ہو گا جب تمام بریلوی علماء متفقہ طور پر فتاوی رضویہ میں لکھے عقائد پر متفق ہو کر خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، متفقہ عقائد عوام کو سکھائیں اور دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں پر ان کو پیار سے توبہ کرنے کے لئے کہیں، مستحب اعمال کسطرح مستحب ہیں عوام کو سمجھائیں اور جو مستحب کو فرض سمجھ رہے ہیں ان کو بدعتی ڈکلئیر کریں۔ سعودی عرب کے وہابی علماء کی غلطی سمجھائیں ورنہ ساری توانائیاں ایک دوسرے کو غلط کہنے پر لگی رہیں گی اور دین پر لگنے والوں کا سرمایہ ضائع ہو گا۔