Dar Khof (ڈر (خوف))

ڈر (خوف) کا کاروبار


1۔ ڈر یا خوف لفظ ایک ہی ہے مگر قسمیں مختلف ہوتی ہیں جیسے موت کا خوف، بھوک کا خوف، بیماری کا خوف، نقصان کا خوف، غلط فیصلہ ہو جانے کا خوف، سچ بولنے کا خوف، اپنے سینئیر سے بات کرنے کا خوف، امیر کو غریب ہو جانے کا خوف، شکست کا خوف، اقتدار یا کُرسی چھن جانے کا خوف وغیرہ وغیرہ۔ یہ ڈر آزمائش ہے جو قرآن سے ثابت ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ ترجمہ؛اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور (کبھی) خوف سے (سورہ بقرہ)

2۔ ایک ہوتا ہے اللہ کریم کے قرب سے دوری کا ڈر، نیک اعمال چھوٹ جانے کا ڈر، اللہ کریم کی نظر سے گرنے کا ڈر کیونکہ کسی کی نظر سے گرنا یا ہر ایک کی نظر سے گرنا کوئی بات نہیں مگر اللہ کریم کی نظر سے گرنا اور ایک بار بھی گرنا زندگی کی بازی ہار جانا ہے۔اس ڈر سے بندہ برائی چھوڑنے کی کوشش کرتا ہے اور نیکی کی طرف بھاگتا ہے۔یہ بھی قرآن میں ہے:إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء ترجمہ:ﷲ سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں (سورہ فاطر)

3۔ ایک واقعہ تصوف کی کتاب کا پڑھا جس پر ایمان لاناہر گزلازم نہیں، البتہ مثال کے لئے بیان ہے کہ ایک مرید اپنے پیر کے پاس آتا تو پیر صاحب اُس کے چہرے کو دیکھ کر اُداس ہو جاتے، اُس مرید نے پوچھا حضرت آپ مجھے دیکھ کر اُداس کیوں ہو جاتے ہیں، تو پیر نے کہا کہ میں جب بھی تمہارا چہرہ دیکھتا ہوں تو اُس پر جہنمی لکھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اُس مرید نے کہا کہ یا حضرت کوئی بات نہیں میں اللہ کریم کی عبادت جنت یا جہنم کے لالچ میں نہیں کرتا اسلئے آپ پریشان نہ ہوں۔

کچھ عرصہ آتا رہا تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُس کا چہرہ دیکھا، بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ آج تیری پیشانی پر جنتی لکھا ہوا ہے۔ اُس نے اپنے پیر سے عرض کی کہ یا حضرت میرا اب بھی وہی جواب ہے کہ اگر پھر جہنمی لکھا ہوا نظر آئے تو میں اللہ کریم کی عبادت ایسے ہی کروں گا جیسا کرنے کا حق ہے۔

یہ بندہ امید اور خوف سے نکل کر اللہ کریم کے سامنے یقین کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا اسلئے پریشان نہیں ہوا، ورنہ، یہاں کسی کو کہہ دیا جائے کہ تیرے گھر میں جادو ہے، تجھے کسی کی نظر لگی ہے، تیرے اوپر سایہ ہے تو رات کو اُسے نیند نہیں آئے گی۔

4۔ یہی ڈر پیدا کر کے دو نمبر پیر، فقیر، عامل ٹائپ عوام سے بکرے چھترے لے لیتے ہیں اور فراڈئیے عوام کو امید دلا کر ان سے مال نکلوا کر اپنا کام چلاتے ہیں۔ شرابی، جواری، سود خور، بُکئے، کالا دھن کمانے والے حرام کی کمائی سے زیادہ تر مساجد بنا، میلاد کروا اور نیک کاموں میں اسلئے خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کریم معاف کر دے حالانکہ وضو کے بغیر نماز قبول نہیں اور حرام کے پیسوں کا صدقہ قبول نہیں۔

اللہ کریم ان سے بھی کام لیتا ہے مگر قبول نہیں کرتا اور جس کو قبول کرتا ہے اُس سے غلط کام چُھڑوا دیتا ہے۔

5۔ ایک اللہ والے سے کسی نے پوچھا کہ کیا معاشی و مالی ابتر حالات کا آپ پر اثر نہیں ہوتا، انہوں نے جواب دیا بالکل ہوتا ہے مگر یہ سوچ رکھا ہے کہ جب تک جیب میں پیسے ہیں حالات کا رونا نہیں رؤں گا اور اللہ کریم نے کبھی جیب سے پیسے ختم ہونے نہیں دئے اور ضرورت کے وقت ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔

لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون وہی ہوتے ہیں جو امید اور خوف کے درمیان رہتے ہوئے ایک جیسی حالت میں رہتے ہیں۔

6۔ ہر مسلمان کے اندر اللہ کریم کا قرب پانے کا شوق اور اس سے دوری کا ڈر ہونا چاہئے۔ اللہ کریم نظر نہیں آتا مگر اپنی رحمتوں سے محسوس ہوتا ہے، اسلئے یہ بھی احساس کیا کم ہے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے اور میری بات میں اُس کی بات ہے۔

7۔ اللہ کریم کا ڈر عوام کے اندر ہو تو علماء کرام سے سوال کرے کہ دیوبندی اور بریلوی جماعتوں کے اکٹھا ہونے کی شرائط، ڈیمانڈ اور اختلاف کیا ہے تاکہ حضور ﷺکی امت کو اکٹھا کیا جائے۔ خوف خدا ہوتو کھلم کھلا بتائیں گے ورنہ خوف سے نہیں بتائیں گے اور وہ خوف ہر کوئی خود سمجھے کیا ہو سکتا ہے۔عوام کو اگر پوچھنے کا شوق نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ عوام کو بھی ڈر نہیں کہ اللہ کریم کل قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے اپنی نسلوں کو سمجھانے کے لئے حق جاننے کی کوشش کی یا نہیں?

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general