مختار بن ابی عبید ثقفی
1۔ مختار، بنی ہوازن کے قبیلہ ثقیف کی وجہ سے مختار ثقفی کہلاتا ہے۔ والد کا نام ابو عبیدہ ثقفی رضی اللہ عنہ،صحابی رسول،جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ میں شہید ہو گئے۔ مختار ثقفی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بہن کا شوہر اور مختار کی بہن صفیہ بنت ابو عبید)کا نکاح حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ ہوا۔
2۔ابتدائی حالات مختار کے معلوم نہیں، البتہ مختار ثقفی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچنا چاہتا تھا۔ (طبری، تاریخ الرسل و الملوک ج 7 ص 2، ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ج3، ص 404) اسی طرح مختار ثقفی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بڑھکانے کی کوشش کرتا رہا ہے جس پر اس کو 100کوڑے لگائے گئے۔(ذہبی، سیر اعلام النبلا ج 3 ص 544)
3۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ دعوت دینے والوں میں مختار بھی شامل تھا لیکن واقعہ کربلا میں کہاں تھا اُس میں کوئی بات یقینی نہیں ہے کہ کیوں نہیں تھا اور کہاں غائب ہوا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جب کوفہ پہنچا تو حضرت مسلم اور ہانی ابن عروہ شہید ہو چکے تھے (انساب الاشراف ج 6، ص 376، تاریخ طبری ج 5، ص 569)تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ مختار کو عبید اللہ بن زیاد نے قید کر دیا اور حضرت عبداللہ بن عمر کی وجہ سے قید سے رہائی ملی اور اس نے کہا کہ میں تین دن سے زیادہ کوفہ نہیں رہوں گا۔
4۔ مختار وہاں سے نکل کر مکہ مکرمہ آیا اور اس نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی (تاریخ ابن خلدون ج 2ص 37) پھر بیعت توڑ کر یزید کی ہلاکت کے بعد واپس کوفہ آ گیا (تاریخ ابن خلدون ج 2، ص 43)، ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ ابن مطیع کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو مختار نے اس سے مقابلہ کر کے کوفہ پر اپنی حکومت قائم کر لی (تاریخ ابن خلدون ج 2، ص 44)
5۔ مختار ثقفی نے اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا، اسلئے شمر ابن ذی الجوشن، خولی ابن یزید، عمر ابن سعد اور عبید اللہ ابن زیاد کو قتل کیا (اسدالغابہ ج 4، ص 347)لیکن اس کے بعد اس نے نبوت کا دعوی کر دیا(تاریخ الخلفاء مترجم اردو ص 215، نفیس اکیڈمی، کراچی)(میزان الاعتدال جلد ششم)(تفسیر ابی حاتم ج4، ص1379)
6۔ ترمذی 3944 کے مطابق ”بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا“ اس کذاب سے مراد مختار بن ابنی عبید ثقفی اور ظالم حجاج بن یوسف ہے۔
7۔ آخر کار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ جو بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی، مقابلہ ہوا اور مارا گیا۔ اسلئے اہلسنت کے نزدیک اس کا اچھا کام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا مارنا مگر بدترین کام نبوت کا دعوی کرنا ہے۔
8۔ اہلتشیع دھرم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، امام کو معصوم مان کر ختم نبوت کے منکر ہیں، ڈپلیکیٹ علی رکھتے ہیں حتی کہ نہیج البلاغہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال نہیں ہیں، فقہ جعفر بھی جھوٹ حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے، احادیث کی کتب اور علماء حضرت جعفر صادق سے روایات کرنے والے نہیں ہیں۔
9۔ دیوبندی اور بریلوی نام ہی غلط ہیں اور عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں، اصل اہلسنت چار خلافت عثمانیہ، چار مصلے، علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ اہلحدیث حضرات اہلسنت کو تقلید کی وجہ سے بدعتی و مشرک کہتے ہیں حالانکہ خود بھی مقلد ہیں مگر اپنے مجتہد کا نام بتائیں گے تو خود بدعتی و مشرک اور نہیں بتائیں گے تو جھوٹے ہیں۔