طارق بن زیاد
1۔ طارق بن زیاد بربر قبیلہ(شمالی افریقہ کا ایک قبیلہ جو مسلمان ہو کر بہادر فوجی ثابت ہوئے، اس وقت بربر علاقہ الزائر، مراکش اور تیونس وغیرہ میں تقسیم ہے)سے تعلق رکھنے والا مسلمان اور بنو امیہ کے دور کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کے جرنیل تھے۔ فتح ہسپانیہ (اسپین)طارق بن زیاد کا کارنامہ ہے۔
2۔ طارق بن زیاد کے حملے سے پہلے اندلس بے راہ روی کا شکار، غریبوں پر ٹیکس، بچوں کی شادی امیروں کی اجازت کے بغیر نہ ہوتی، پہلے امیر لڑکی کو خود استعمال کرتے پھر آگے جانے دیتے۔ فوجی، امیر، اور پادری ظالم ہو چکے تھے،امانت دار حکمران کو مار کر فوج کے تعاون سے راڈرک کو بادشاہ بنایا گیا۔اندلس میں سبتہ کا حکمران کاونٹ جولین جس نے دو مرتبہ مسلمانوں کے حملے کو ناکام بنایا، اس کی بیٹی فلورنڈا بھی راڈرک کے محل میں تھی جس سے راڈرک نے زیادتی کی اور پھر کاونٹ جولین نے موسی بن نصیر سے مدد مانگی کہ میری بیٹی مجھے واپس دلا دیں۔
3۔ طارق بن زیاد جبل الطارق (جبرالٹر)، اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد کشتیوں کو جلانے کا حکم دیتا ہے کیونکہ فوج کم تھی اور طارق کا جذبہ واپسی کا نہیں بلکہ 7ہزار کی مختصر فوج سے اسپین فتح کرنے کا تھا، اسلئے اُس نے کہا کہ سب سے پہلے دین ہوتا ہے اور پھر وطن ہوتا ہے۔ اسلئے ہر وطن ہمارا وطن ہے۔ کشتیوں کو جلانے کے بعد واپسی کا خیال دل سے نکال دیا۔کشتیاں جلانے کا واقعہ:
"طارق نے رمضان 94 میں مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور ذریق نے اپنے لشکر میں سے ایک پہلوان جس کی طاقت جنگجوانہ صلاحیتیں قابل اعتما د تھیں ‘کو طارق بن زیاد کے لشکر کی خبر لینے بھی بھیجا۔ یہ پہلوان طارق کے لشکر کو قلیل سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا، اتنے میں مسلمانوں کے لشکر نے اس پر جوابی حملہ کیا تو اس نےراہ فرار اختیار کی اور تیزی سے دوڑا کہ مسلمانوں کی پہنچ سے دور چلا گیا، اور واپس جاکر ذریق کو بتایا کہ طارق اور اسکا لشکر وہ لوگ ہیں کہ جو اپنی کشتیاں اس لئے جلا چکے ہیں کہ کہیں انکو واپسی کا خیال نہ آجائے، انکے دو ہی مقاصد ہیں، تمہارے پاؤں تلے موجود سرزمین یا جام شہادت، تیسری کوئی چیز انکو قبول نہیں، نیز انکی خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے صف آرا ہونے کے لیے سخت زمین کی بجائے نرم زمین کا انتخاب کرلیا ہے، اب ان کے لیے ہماری دھرتی پہ کوئی جائے پنا نہیں (لہذا وہ جم کے لڑیں گے اور پھر فتح یا شہادت دونوں میں ایک انکا مقدر بنے گی)(نفح الطیب للمقری ج ۱ ص ۲۵۸)
المقری سے پہلے الادریسی التوفی ۵۶۰س ھ نے بھی واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ (یہ ابن خلدون سے بھی پہلے کے مورخ ہیں) ترجمہ : اس پہاڑ کا نام جبل الطارق اس لئے پڑ گیا ہے کہ جب طارق بن زیاد نے اپنے ساتھیوں سمیت برابر نامی جگہ پار کی تو وہی پہ خیمہ زن ہوگئے اور اسی پہاڑ کو اپنی پشت پہ رکھ دیا، اس وقت طارق کو محسوس ہوا کہ عرب انکے عزم وہمت کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، تو اس نے اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالنے کا حکم دیا، جس کے بعد ظاہر ہے کہ عزم و ہمت کے کوہ گراں پہ اعتماد کے سوا کیا چارہ باقی رہ جاتا تھا؟( نزہۃ المشتاق فی اختراق الاٰفاق طبع عالم الکتاب بیروت ج ۲ ص ۵۴۰)
چھٹی صدی ہجری کے ایک اور اندلسی موٰرخ ابن الکرد بوس نے بھی واقعہ کا مختصرا ذکر کیا ہے۔ طارق بن زیاد کے لشکر سمیت ساحل پر اترنے کے بیان کے موٰرخ مذکور نے لکھا ہے: ترجمہ : قرطبہ کی طرف چل پڑے تو سبھی کشتیاں جلا ڈالیں اور اپنے ساتھیوں سے کہا، اب تمہارے پاس دو ہی راستے رہ گئے، یا تو میدان جہاد میں داد شجاعت دو اور کفار پر ٹوٹ پڑو یا پھر موت کو گلے سے لگا لو کیونکہ اب آگے دشمن اور پیچھے سمندر۔۔۔تیسرا کوئی راستہ نہیں۔( الاکتفاء فی اخبار الخلفاء لابن الکردبوس طبع الجامعۃ الاسلامیہ المدینہ المنورہ ج ۲ ص ۱۰۰۷)
بعد ازاں الحمیری المتوفی ۹۰۰ھ نے الاادریسی کی عبارت بعینہ نقل کی ہے۔ ( الردض المعطار فی خبر الاقطار طبع موٰسسۃ ناصر للثقافۃ۔ بیروت ج ۱ ص ۲۲۴)
4۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد کو خواب میں حضورﷺ نے فتح کی خوشخبری دی تھی۔ اسلئے طارق بن زیاد نے جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کو ایک ہی دن میں بدترین شکست دی جس میں راڈرک مارا گیا۔ فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا اور طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنا دیا گیا لیکن بعد میں انہیں دمشق طلب کر لیا گیا۔
5۔ طارق بن زیاد کی موت کسطرح ہوئی، سیاسی مسئلہ، حاسدوں کا حسد یا مال غنیمت پر لڑائی کی کہانیاں مشہور ہیں مگراصل معاملہ قیامت والے دن کُھل جائے گا، البتہ اُس کے اسپین پر قبضے سے مسلمان مضبوط ہوئے اور اس کی مثال بننا ہر مسلمان کی خواہش بن گئی ہے۔ بندوں اور چندوں کا حساب چھوڑ کر اپنے لئے نیک مشن منتخب کرنے والے طارق بن زیاد جیسے ہیں جو اپنے وطن اور اسلام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔