کیا حضور ﷺ پڑھے لکھے تھے؟
1۔ اگر کوئی مسلمان یہ سوال کرے کہ کیا ”حضور ﷺ پڑھے لکھے تھے“ تو یہ سوال ہی غلط ہے بلکہ ہر مسلمان کواپنا ایمان بچانے اور دُنیا میں قانون و اصول کے مطابق چلنے کیلئے حضور ﷺ کو ہی پڑھنا ہو گا۔
2۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور کیا اُستاد پڑھا لکھا نہیں ہوتا؟ البتہ آپ ﷺ بے کسی سے نہیں بلکہ اللہ کریم سے ہی پڑھا ہے کیونکہ رحمن وہ ہے جس نے حضور ﷺ کو قرآن سکھایا اور اُس قرآن میں ہر شے کا کھلم کھلا بیان ہے۔
3۔ حضور ﷺ اُمّی تھے کیونکہ اُمّی کا مطلب ہے اصل یا جڑ جیسے مکہ کو ام القری اور ماں کو بھی ام کہتے ہیں، اسلئے حضور ﷺ ہر مسلمان کے اصل ایمان ہیں۔
دوسرا اُمّی کا معنی ہے ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو مگر ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں، اگر کوئی مسلمان حضور ﷺ کے متعلق ان پڑھ ہونے کا عقیدہ رکھے تو مسلمان نہیں رہتا۔
4۔ حضور ﷺ خود نہیں لکھتے تھے کیونکہ قرآن لکھنے کیلئے کاتبان وحی (وہ حضرات جو حضور ﷺ کیلئے لکھنے کا کام کرتے) تھے۔ حضور ﷺ نے پہلے احادیث لکھنے سے منع کیا تاکہ قرآن کے ساتھ مکس نہ ہو جائے لیکن بعد میں احادیث لکھنے کی بھی اجازت دے دی۔ عقیدہ یہ بنتا ہے کہ حضور ﷺ کے پاس لکھنے پڑھنے کا علم تھا اور اسلئے کافر حیران ہیں کہ کسی سے پڑھا نہیں مگر سب کو لکھنا پڑھنا سکھا رہا ہے۔
5۔ حضورﷺ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی دعا ہیں ”اے رب ہمارے بھیج ان میں سے ہی ایک رسول جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کا تزکئیہ نفس کر دے(البقرہ 129)، اسلئے ہر مسلمان قرآن و سنت کو استادوں سے سیکھ کر اور قرآن و سنت پر عمل کرکے حکمت و دانائی حاصل اور اپنا تزکئیہ نفس کرے گا۔
6۔ قرآن و سنت یعنی (حضور ﷺ) سے تین طرح کا مین علم ملتا ہے (1) ایمان کس کس پر لانا ہے جیسے قرآن کی ہر ہر آیت، قیامت، قبر، حشر، تقدیر، انبیاء کرام، فرشتے وغیرہ (2)ظاہر یعنی زبان کے گناہ جیسے غیبت، چغلی، بہتان، کفر وغیرہ (3) باطن کے گناہ یعنی حسد، کینہ بغض، عجب، نفرت، عداوت، تعصب وغیرہ اور اگر یہ باطن کے گناہ نہ ہوں تو پھر مسلمان صبر، شکر، توکل، یقین جیسی صلاحیتیں رکھتا ہو گا۔
7۔ اسلئے تزکئیہ نفس اور تصفیہ قلب کا ماہر مسلمان وہ ہے جو ہر شعبے میں خوف خدا رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھے مگر اصلاح کرنے کے لئے دوسروں کے بگڑے کام بھی سنوارنے ہوتے ہیں جس کو وہ اپنی خامی محسوس کرتے ہیں جیسے اس پیج پر دینی جماعتوں سے ایک ایک سوال ہے اور اس ایک سوال سے ہر جماعت ختم ہو کر ایک اہلسنت بن جائے گی:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
سوال: اہلتشیع کا دین اہلکتاب عیسائی اور یہودی کی طرح ہے جنہوں نے اپنے دین میں منگھڑت عقائد بنا لئے۔ صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کے سب کا قرآن اور احادیث ایک تھیں۔ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام نے جو قرآن اکٹھا کیا اُس پر ہے کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر ہیں، احادیث کی کتابیں بھی اہلسنت والی نہیں ہیں، اسلئے ان کے علماء (زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی کُتب (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) سب منگھڑت ہیں۔ اسلئے اہلتشیع اپنے علماء اور کتابوں کو حضورﷺ سے نہیں بلکہ اپنے ڈپلیکیٹ امام سے منسوب کر کے اپنے بے بنیاد دین پر ہیں۔