بغضِ صحابہ و منافقت اہلبیت
اس پیج کی ایک پوسٹ پر بتایا تھا کہ اہلتشیع حضرات میراثی ہیں جو اپنا منافقانہ تعلق اہلبیت سے منسوب کر کے شیطانی و الزامی سوال اہلسنت سے کرتے ہیں اور اس پیج کی ان پوسٹس کا حوالہ دیا تھا:1۔ فقہ جعفر
اہلتشیع حضرات سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے علماء اور بنیادی کتابیں ہیں کیونکہ ان کتابوں کو فقہ جعفر کی بنیادی کتابیں کہا جاتا ہے مگر جواب نہیں دیتے:(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے تقریباً 180برس بعد
(2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230سال بعد
(3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً310برس بعد2۔ اصول کافی نمبر2میں لکھا ہے ”پھر امام باقر آئے ان سے پہلے تو شیعہ حج کے مناسک اور حلال و حرام سے بھی واقف نہ تھے۔ امام باقر نے شیعہ کے لئے حج کے احکام بیان کئے اور حلال و حرام میں تمیز کا دروازہ کھولا۔ یہاں تک کے دوسرے لوگ ان مسائل میں شیعہ کے محتاج ہونے لگے جب کہ اس سے پہلے شیعہ ان مسائل میں دوسروں کے محتاج تھے۔“ اس اعتراف سے ظاہر ہے کہ امام باقر سے پہلے شیعہ حلال و حرام سے واقف ہی نہ تھے۔ پہلی صدی ہجری میں فقہ جعفریہ کا وجود ہی نہیں تھا۔
3۔ حالانکہ حضورﷺ نے حلال و حرام کی نشاندہی اپنے دور میں فرما دی تھی لیکن اہلتشیع حضرات کے نزدیک یہ قرآن معتبر نہیں ہے اور ان کے نزدیک تین صحابہ کے علاوہ نعوذ باللہ سب مرتد ہو گئے۔ امام باقر رضی اللہ عنہ کے بعد امام جعفر رضی اللہ عنہ کا دور ہے مگر امام جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کوئی فقہ تدوین کی ہی نہیں ہے۔ اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملتا۔
فقہ جعفرکے ائمہ
1۔ مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی ”حق الیقین“ کتاب صفحہ371پر لکھتے ہیں ”اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز و عراق، خراسان و فارس وغیرہ سے فضلاء کی ایک جماعت کثیر حضرت باقر اور حضرت صادق نیز تمام ائمہ اصحاب سے تھی مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار کے اور ان کے علاوہ اور کثیر جماعت بھی تھی جن کا شمار نہیں کر سکتے“۔ اب جن کے نام دئے گئے ہیں ان کے بارے میں شیعہ علماء نے کیا کہا:
زرارہ: ان صاحب کو امام جعفر کے ہم پایہ تصور کیا جاتا ہے ”قال اصحاب زرارہ من ادرک زرارہ بن اعین فقد ادرک ابا عبداللہ (رجال کشی صفحہ 95) لیکن دوسری جگہ شیعہ کتاب حق الیقین اردو صفحہ 722پر لکھا جاتا ہے کہ ”یہ حکم ایسی جماعت کے حق میں ہے جن کی ضلالت پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ زرارہ اور ابوبصیر یعنی زرارہ اور ابو بصیر بالاجماع گمراہ ہیں“۔ اب سوال یہ ہے کہ جو خود گمراہ ہے وہ دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا۔ اسی طرح رجال کشی صفحہ 107پر لکھا ہے ہے کہ امام جعفر نے فرمایا کہ ”زرارہ تو یہود و نصاری اور تثلیث کے قائلین سے بھی برا ہے“۔ امام جعفر نے تین مرتبہ فرمایا کہ اللہ کی لعنت ہو زرارہ پر (رجال کشی صفحہ100)۔ اسی کتاب رجال کشی کے صفحہ106پر ہے کہ زرارہ نے کہا ”جب میں باہر نکلا تو میں نے امام کی داڑھی میں پاد مارا اور میں نے کہا کہ امام کبھی نجات نہیں پائے گا“۔ امام جعفر نے لعنت کی زرارہ پر اور زرارہ داڑھی میں پاد مار رہا ہے، کیا یہ دین سکھائیں گے؟
ابو بصیر: فقہ جعفریہ کے مسائل میں یہ شخص بھی سرداروں میں شامل ہے، البتہ امام جعفر رضی اللہ عنہ کو رجال کشی صفحہ 116پر لالچی کہہ رہا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ ابو بصیر امام جعفر کے دروازے پر بیٹھا تھا اندر جانے کی اجات چاہتا تھا مگر امام اجازت نہیں دے رہے تھے ابو بصیر کہنے لگا اگر میرے پاس کوئی تھال ہوتا تو اجازت مل جاتی پھر کتا آیا اور اس کے منہ میں پیشاب کر دیا“۔ کیسے عالم ہے کہ امام کے پاس جانے کی اجازت بھی نہیں ملتی اور کتا منہ میں پیشاب کر دیتا ہے؟
محمد بن مسلم: اس کا دعوی ہے کہ امام باقر سے 30 ہزار حدیثیں سنیں اور 16ہزار احادیث کی تعلیم پائی۔ (رجال کشی صفحہ 109)۔ البتہ رجال کشی صفحہ 113پر مفصل کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے سنا فرماتے تھے کہ محمد بن مسلم پر اللہ تعالی کی لعنت ہو یہ کہتا ہے کہ جب تک کوئی چیز وجود میں نہ آئے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔“ کیا علامہ مجلسی نے جن تین اصحاب کو سر فہرست رکھا، کیا فقہ جعفریہ ان جیسوں کی روایات کی مرہون منت ہے؟
جابر بن یزید: رجال کشی صفحہ 128پر لکھا ہے کہ میں نے امام باقر سے ستر ہزار حدیث تعلیم پائی۔ اب رجال کشی صفحہ 126پر زرارہ کہتا ہے میں نے امام جعفر سے جابر کی احادیث کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب سے صرف ایک مرتبہ ملا اور میرے پاس تو کبھی آیا ہی نہیں۔“ 70,000ا حادیث کی تعلیم کیسے پائی؟
اصول کافی صفحہ 496 میں امام جعفر کا بیان ہے ”اے ابو بصیر اگر تم میں سے (جو شیعہ ہو) تین مومن مجھے مل جاتے جو میری حدیث ظاہر نہ کرتے تو میں ان سے اپنی حدیثیں نہ چھپاتا“۔ اس کا مطلب ہو ا کہ کافی، استبصار، تہذیب اور من لا یحضرہ الفقیہ کی صورت میں ہزاروں احادیث جو امام جعفر سے منسوب ہیں وہ ان سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ رجال کشی صفحہ 160 پر امام جعفر کا قول ہے کہ ”میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں پایا جو میری وصیت قبول کرتا اور میری اطاعت کرتا سوائے عبداللہ بن یعفور کے“
نتیجہ: اس سے معلوم ہوا کہ 460ھ تک فقہ جعفریہ کی کوئی کتاب نہیں تھی اور جو یہ چار کتب تھیں وہ بھی اللہ معاف کرے جھوٹی ہوں گی۔ اہلتشیع حضرات کی کتابیں جن کو عالم کہہ رہی ہیں، ان کو خود ہی گمراہ بھی کہہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ فقہ جعفریہ کے مسائل بتائے نہیں چھپائے جاتے تھے جیسے اصول کافی نمبر 340 پر لکھا ہے کہ امام ابو باقر نے فرمایا ”اللہ تعالی نے ولایت کا راز جبرائیل کو راز میں بتایا۔ جبرائیل نے یہ راز محمدﷺکو مخفی طور پر بتایا۔ حضورﷺ نے یہ راز حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو کان میں بتایا پھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جسے چاہا بتایا مگر تم لوگ اسے ظاہر کرتے ہو۔
آٹھویں صدی ہجری میں فقہ جعفریہ کہ پہلی کتاب ”لمغہ دمشقیہ“ جو محمد جمال الدین مکی نے لکھی مگر اسے واجب القتل قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اسے شہید اول کا لقب بھی دیا۔ فقہ جعفریہ لکھنے والوں کے کام زیر زمین ہی ہوتے رہے ہیں۔اس کے بعد علامہ زین الدین نے لمغہ دمشقیہ کی شرح ”روضتہ البھیہ“ کے نام سے لکھی مگر اس کے بھی قتل کر دیا گیا۔
حقیقت: علامہ مجلسی نے اپنی کتاب ”حق الیقین“ میں لکھا کہ ان ائمہ نے زرارہ، محمد بن مسلم، ابو بصیرنے فقہ جعفریہ کے لئے کام کیا تو انہوں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ ان کا ائمہ کرام سے ملنا بھی محال نظر آتا ہے بلکہ یہ ائمہ کی توہین کرتے رہے ہیں۔
نتیجہ: اہلتشیع کا دین منگھڑت ہے، پانچ احادیث کی روایات کرنے والے ان کے دین کے ستون ہیں، کہیں ان کی تعریف اور کہیں ان پر لعنت کی جاتی ہے اور ان راویوں نے سب کچھ امام باقر اور امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیھم سے روایات لیں جو کہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اور اس سے پیچھے صحابہ کرام اور اہلبیت کی اسناد بہت کم ہیں جن پر جرح کی جائے تو اہلتشیع بے بنیاد مذہب ثابت ہوتا ہے۔
2۔ اہلتشیع کے عقائد
اہلتشیع نے اپنی کتابوں میں یہ لکھا ہے جس کو پڑھکر دل خون کے آنسو روتا ہے:
1۔ رسول اللہ ﷺ ایک روز کسی کام کیلئے (حضرت) زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہ) کے گھر تشریف لے گئے، زید کی بیوی (حضرت) زینب (رضی اللہ عنہا) غسل کر رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے زینب (رضی اللہ عنھا)کاغسل کی حالت میں مشاہدہ فرمایا (نعوذ باللہ من ذلک) (ترجمہ حیات القلوب: ۸۹۱،۲)
2۔ حضرت جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک روز (حضرت) ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنھما) ام سلمہ (رضی اللہ عنھا) کے پاس آئے اور کہا کہ آپ جناب رسول خدا ﷺ سے پہلے دوسرے مرد کی زوجہ تھیں، بتائیے کہ رسول خدا اُس شخص کے مقابلہ میں قوتِ مجامعت میں کیسے ہیں؟ تو ام المومنین (حضرت) ام سلمہ (رضی اللہ عنھا) نے جواب دیا: وہ بھی دوسرے مردوں کے مثل ہیں، اسی کے آخر میں لکھا ہے کہ (حضرت) جبرائیل (علیہ السلام) بہشت سے ایک ہریسہ۔۔۔ لایا اور جناب رسول خداﷺ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنھم) نے اس کو تناول فرمایا۔ اس کے سبب رسول خداﷺ کو چالیس مردوں کی قوتِ مجامعت مرحمت فرمائی، اس کے بعد ایسا تھا کہ جب حضرت چاہتے ہیں ایک شب میں تمام بیویوں سے صحبت فرماتے ہیں (ترجمہ حیات القلوب: ۸۹۶،۲)
3۔ لوگ روایت کرتے ہیں کہ آگ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے (نعوذ باللہ) حضرت رسولِ خداﷺتھے(ترجمہ حیات القلوب: ۷۰۱،۲)
4۔ رافضی اپنی کتاب ”قولِ مقبول کے صفحہ: ۴۷۹ پر لکھتا ہے کہ ”نبی ﷺ کی بیٹیاں سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنھا) جو کہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں تھیں وہ نبیﷺ کی بیٹیاں نہیں تھیں۔
جسطرح جناب ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ) کے باپ کا فیصلہ یا عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) کے باپ کا فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا، اسی طرح (حضرت) عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ نہیں ہو سکا، ان کے باپ نبی کریمﷺ یقینا نہیں ہیں۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
5۔ حضرت قائم ال محمد (امام مہدی) جب ظاہر ہوں گے تو (حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا) کو زندہ کریں گے اور ان پر حد جاری کریں گے (حیات القلوب: ۹۰۱/۲) نعوذ باللہ
6۔ (حضرت) عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنھا) نے حضرت محمد ﷺ کو زہر دیا اور اسی زہر سے حضور ﷺ شہید ہوئے (حیات القلوب: ۸۹۹،۲)
7۔ یہ فیصلہ اہلسنت نہیں کر سکے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ کون تھا؟ آذر یا تارخ؟ پس جسطرح جناب (حضرت) ابوہریرہ (رضی اللہ عن) کے باپ کا فیصلہ یا جناب عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کے باپ کا فیصلہ نہیں ہو سکا، اسی طرح حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی بیویوں کے باپ کا فیصلہ بھی نہیں ہو سکا۔ ان کے باپ نبی کریمﷺتو یقینا نہیں ہیں (قول مقبول از غلام حسین نجفی ۴۷۹)
8۔امام باقر سے روایت ہے کہ جب جناب رسول خداﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی، چار اشخاص علی بن ابی طالب، مقداد، سلمان فارسی اور ابوذر کے سوا سب مرتد ہو گئے (حیات القلوب ۹۲۳)
9۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے بعد اسلام شراب نوشی کی (نورِ ایمان)
10۔ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی بیوم ام کلثوم کی موت کے بعد ان کے مردہ جسم سے ہمبستری کی ہے، پھر لکھتاہے اور بغیر غسل کے نماز جنازہ پڑھا، اسی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) عورتوں کے عاشقِ زار تھے، اسلئے رقیہ کو حاصل کرنے کی لالچ میں مسلمان ہو گئے تھے۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ مگر بیان سے باہر ہے (کتاب قولِ مقبول صفحہ ۴۱۹) (نعوذ باللہ من ذلک)
11۔ امام جعفر نے امام ابوحنفیہ کی ماں سے متعہ کیا، علی نے عمر کی بہن عضرا سے متعہ کیا، حضورﷺ نے ابوبکر و عمر کی لڑکیوں عائشہ و حفصہ سے نکاح کیا تھا تاکہ شیخین میرے اسلام میں گڑ بڑ نہ کریں لیکن نہ ہی نبیﷺ اپنے مقصد میں کامیاب ہو ئے اور نہ ہی ہمارے امام جعفر صادق اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ (قول مقبول: ۳۹۵)
12۔ غلام حسین نجفی کتاب خصائل معاویہ میں لکھتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو قتل کیا ہے۔ اسی میں لکھتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوں نائلہ نے ڈانس کیا، اسی کتاب کے صفحہ 391 میں لکھتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ زانی باپ کا شرابی بیٹا خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ اسی میں لکھتا ہے کہ ابوسفیان آخر تک زندیق اور منافق رہا۔
13۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بی بی ہندہ سے فرمایا کہ زنا مت کرنا، ہندہ نے کہا کہ آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے، یہ سن کر عمر مسکرائے کیونکہ ایام جاہلیت میں اس سے زنا کر چکے تھے اور ہندہ مشہور زنا کار تھی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ زنا سے ہی پیدا ہوئے (حیات القلوب)
14۔ رافضیوں کی کتاب ”عین الحیوۃ“ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد سب صحابہ مرتد ہو گئے تھے۔
15۔ کتاب حق الیقین میں رافضی لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھم کو امام غائب (امام مہدی)آ کر قبروں سے نکال کر ان کو سزا دیں گے، فرعون اور ہامان سے مراد ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنھم) ہیں۔ ابوبکر خلیفہ نہیں مرتد ہے، مستحق قتل ہے، شیطان سے مراد عمر ہے، طلحہ و زبیر مرتد تھے(نعوذ باللہ)
16۔ حضورﷺ پر جھوٹ بولنے والا ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ) ہے۔
17۔ خورشید خاور لکھتا ہے کہ ہندہ نے معاویہ کو نکاح جماعت سے جنا ہے، معاویہ نے 40سال ظالمانہ حکومت کی ہے، اگر معاویہ جنگ صفین میں ہلاک ہوتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا حرام تھا۔ معاویہ سور کھانے کو حلال جانتا تھا، حکومت اسلامی بنو امیہ کے ایک بدکار کے بعد دوسرے بدکار کو ملی۔ یہ کونڈے مرگ معاویہ کی خوشی میں ہیں۔
18۔ متعہ اہلسنت کے نزدیک حرام ہے، بغیر گواہوں کے نکاح حرام ہے، متعہ صرف آجکل کے دور میں رنڈیاں کرتی ہیں۔ البتہ شیعہ پیشوا کہتے ہیں کہ عفیفہ باکرہ لڑکی سے متعہ کرنے والا بہشتی ہے۔
19۔ جناب ابوبکر، عمر و عثمان (رضی اللہ عنھم) نہ تو مسلمانوں کے چنے ہوئے لیڈر تھے اور نہ ہی خدا و رسول کے چنے ہوئے تھے بلکہ چور دروازے سے آئے تھے۔
20۔ جناب رسول خداﷺ نے بیٹی دو منافقوں کو دی، اس میں ایک ابوالعاص دوسرے عثمان (رضی اللہ عنھم) لیکن حضرت ﷺ نے تقیہ کی وجہ سے ان کے نام نہ لئے۔ (حیات القلوب)
21۔ جناب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا اعتقاد ہے کہ جناب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) تمام ائمہ اور تمام انبیاء سے افضل ہیں (حیات القلوب)
3۔ عید غدیر خم
اہلتشیع حضرات کا کہنا ہے کہ حجتہ الوداع سے واپسی پر حضور ﷺ نے ”غدیر خم“ کے مقام پر ”جس کا میں مولا اُس کا علی مولا“ سب صحابہ کرام کے سامنے فرما کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ”امامت“ کا اعلان کیا حالانکہ اصل وجوہات یہ تھیں ورنہ اگر اعلان کیا ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ خاموش نہ رہتے:
1۔ حضور ﷺ مدینہ پاک سے روانہ ہو کر حج کرنے پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت حج پر پہنچے۔ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں۔ ان میں سے ایک لونڈی بطور خمس حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے لی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔
2۔ آپ ﷺ حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو اس مقام پر آپ ﷺ نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس دوران بعض صحابہ کرام کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جن میں سے ایک شکایت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے متعلق تھی۔
3۔ غدیر خم کے مقام پر 18 ذوالحجہ 10ھ نبی کریمﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریمﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی اور ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ (ترمذي حدیث نمبر (3713) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 121) یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) اس کے محبوب اور دوست ہیں۔
4۔ بغض صحابہ رکھنے والوں کے نزدیک یہ حدیث جس مقام پر اُتری وہ مقام مقدس، الیوم اکملت لکم دینکم کی وجہ سے بڑی اہمیت، اسلئے اس حدیث کو متواتر حدیث کا درجہ دے کر قانون بنانا چاہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بجائے پہلے خلیفہ تھے۔
5۔ سبائی ٹولے کے نزدیک “مولا” کے لفظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کے لئے نہیں بولے گئے حالانکہ نبی کریمﷺ نے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے حق میں ارشاد فرمایا: قال لزید انت اخونا و مولانا ترجمہ: آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولا ہیں (مشکوۃ شریف ص 293 بحوالہ بخاری و مسلم باب بلوغ صغیر الفصل الاول)۔
6۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریمﷺنے غدیر خم کے موقعہ پرحضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی:
(1) نبی کریم ﷺ کے انتقال سے کچھ پہلے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم ﷺ کا وصال ہو جائے، اس بنا پر ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے اور اگر امارت و خلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم ﷺ ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرما دیں گے۔
اس کے جواب میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم ﷺ سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تو نبی کریم ﷺ کے بعد لوگ کبھی بھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے۔ اللہ کی قسم! نبی کریم ﷺ سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا۔(صحیح البخاری :4447)
اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولاً تو حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیاً حضرت علی (رضی اللہ عنہ) ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم ﷺ غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں، لہذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
(2) نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا؟ کیا یہ حضور ﷺ کی نافرمانی نہ ہوئی جس کو اہلتشیع حضرات تقیہ کہہ کر اپنے بے بنیاد مذہب کو ثابت کرتے ہیں۔
(3) تمام مہاجرین و انصار صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبویﷺ کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کر دیا؟ اب یہ الزام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سب صحابہ کرام پر بھی ان کی وجہ سے لگے گا جو در والے اور گھر والوں میں فرق کرنے والے رافضی ہیں ورنہ اہلبیت اور صحابہ کرام پر قرآن و احادیث کا ہی قانون لگتا ہے اور اہلبیت و صحابہ کرام میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔
(4) اس طرح دور صدیقی کے اختتام پر حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا، اس وقت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کے لئے ایک اہم موقعہ تھا۔
(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشورہ ہوا اورحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ منتخب فرمایا تو اس موقعہ پر کسی ہاشمی!غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا۔
(6) حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے بیعت لینے سے انکار کردیا اور بنی عمر و بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے”و قد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ و فرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ (البدیہ ج7ص225قبل ذکر بیعت علی بالخلافتہ)
شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ دعونی والتمسوا غیری۔۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعی اسمعکم و اطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانا لکم وزیرا خیر لکم منی امیرا یعنی (بیعت کے معاملے میں) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کرلو۔۔۔
اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا۔اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناؤ گے امید ہے کہ میں اس کا تم سے سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لئے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے۔(نہج البلاغتہ للسید الشریف ارضی ص181طبع مصر۔ تحت و من خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیعت بعد قتل عثمان)
مندرجہ بالا کی روشنی میں واضح ہوا کہ سیدنا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی خلافت بلا فصل کے لئے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیر لکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے۔
(7) امام حسن (رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادے حضرت حسن مثنی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ: من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ اس کے جواب میں حضرت مثنی فرماتے ہیں کہ اگر اس جملہ سے نبی کریم ﷺ کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم ﷺ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرما دیتے کہ اے لوگو! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ فصیح(افصح الناس) تھے۔(طبقات ابن سعد ج 5 تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنھم) اس سے بھی یہ واضح ہو گیا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کے لئے نص صریح نہیں۔
4۔ حدیث قرطاس
اہلتشیع حضرات غدیر خم کے اعلان کے بعد پھر ایک جھوٹ بولتے ہیں کہ حضورﷺ نے وصال سے پہلے قلم کاغذ منگوا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے لگے تھے مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لکھنے نہیں دیا حالانکہ اصل مسئلہ یہ نہیں تھا:
1۔ قرطاس کاغذ کو کہتے ہیں اور حدیث قرطاس کا مطلب ہے وہ حدیث جس میں حضور ﷺ نے وفات سے چند روز قبل اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے اہلبیت اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ کاغذ اور دوات لاؤ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں جس سے تمہاری راہنمائی ہو جائے اور تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو حالانکہ اس سے پہلے آیت مبارکہ الیوم اکملت لکم دینکم یعنی تمہارا دین مکمل ہوگیا نازل ہو چُکی تھی۔
حدیث قرطاس: نبی اکرم ﷺ کی وفات کا وقت ہوا تو اس وقت گھرمیں کچھ صحابہ موجودتھے، ایک سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ ﷺنے فرمایا: قلم کاغذ لائیں، میں تحریر کر دوں، جس کے بعد آپ ہر گز نہ بھولوگے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تکلیف میں ہیں اور قرآن موجود ہے، لہٰذا ہمیں قرآن و حدیث ہی کافی ہے۔ گھر میں موجود صحابہ نے اس میں اختلاف کیا اور بحث مباحثہ ہونے لگا، کچھ کہہ رہے تھے کہ (قلم کاغذ)دیں، آپ ﷺ تحریر فرما دیں، جس کے بعد آپ ہر گز نہیں بھولیں گے، کچھ کہہ رہے تھےرہنے دیجئے آپ ﷺتکلیف میں ہیں۔ اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس سے اُٹھ جائیں۔ (صحیح البخاری: 7366)
نتیجہ: اہلتشیع قلم دوات اور تحریر نہ لکھنے کا سارا الزام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیتے ہیں حالانکہ یہ الزام پھر حضورﷺ پر بھی لگے گا کیونکہ اگر حق نہیں پہنچایا یعنی لکھوایا نہیں تو نعوذ باللہ پھر اُن کی نبوت پر حرف آتا ہے کہ حق پہنچایا کیوں نہیں؟ جانثار صحابہ کرام اور اہلبیت میں سے کسی ایک نے بھی کاغذ نہیں دیا تو پھر سب پر حرف آتا ہے کہ اُس وقت موجود سب صحابہ اور اہلبیت مجرم ہوئے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ کفار کے روکنے سے تبلیغِ دین سے نہ رکے توصحابہ کے روکنے سے کیسے رُک سکتے تھے؟
2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے الفاظ ”مالہ اہجر استفہموہ“ کا مطلب اہلتشیع نے ہذیان کیا یعنی وفات کے وقت میں بیہودہ کلام کرنا ٖ(نعوذ باللہ) حالانکہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہودمن جزیرۃ العرب، جلد 10، ص 426، رقم الحدیث 2932 پر یوں موجود ہے: فقالو مالہ اہجر استفہموہ ۔ یعنی حاضرین نے کہا کہ حضورﷺ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ ﷺ دنیا سے ہجرت (وصال) فرمانے لگے ہیں۔ آپﷺ سے دریافت تو کرلو۔
دوسرا عبارت میں قالوا جمع کا صیغہ ہے اسلئے ایک شخص واحد حضرت عمر رضیﷲ عنہ مراد لے لیا کیوں حالانکہ کئی بولے تھے؟ دوسری جہالت یہ کہ ہجر کا معنی اہلتشیع نے ہذیان لکھ مارا حالانکہ ہجر معنی ہذیان کیا جائے تو آگے استفہموہ نے بتادیا کہ ہجر کے معنی اس دنیا سے تشریف لے جانے کا تھا۔ تیسرا معنی اسطرح ہوگا کہ کیا حضور ﷺ کوئی ہذیان فرما رہے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرمارہے ہیں ذرا آپ ﷺ سےدریافت تو کرلو۔
نتیجہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سارے فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے بے ادبی کا احتمال نہیں رہتا۔ دوسری بات بہت سی روایات میں یہ جملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب نہیں ہے۔ اسلئے اس لفظ کی غلط تشریح اہلتشیع کی شرارت ہے۔
3۔ حدیث میں یہ بھی آیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ ہی کافی ہے۔اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ حضور دین مکمل ہو چکا، اگر کاغذ قلم سے کچھ تحریر فرمانا حکم الہی نہیں تو آپ ﷺ تحریر قرطاس کی تکلیف نہ فرمائیں۔ حضورﷺ نے حضرت عمر رضیﷲ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر، باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم جلد 10، ص 268، رقم الحدیث 2825 پر ہے:دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ۔
نتیجہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کے سامنے عرض کر دی کہ ہمیں کتاب اللہ ہی کافی ہے۔کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی شان میں یہ گستاخی کی ہو گی اور کتاب اللہ کو کافی قرار دینا غلط تھا، اگر ایسا ہے تو یہ مقدمہ صحابہ کرام اور اہلبیت لڑتے، بے بنیاد شیعہ مذہب نے اس کو اپنے بے ایمان ہونے کا حصہ کیوں بنایا؟
4۔ حضور ﷺ کیا لکھ کر دینا چاہتے تھے وہ بھی احادیث میں موجود ہے۔ سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا: ۔۔۔میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزندعبد الرحمن کی طرف پیغام بھیجوں اور (خلافت کی) وصیت کردوں ، تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کر ے نہ تمنا ۔”(صحیح البخاری:7217)
نتیجہ: نبی کریم ﷺ نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا، پھر ترک کردیا، اس لیے کہ جب خلافت کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ یہ اہلتشیع الزام لگاتے ہیں کہ حضور ﷺ کے جسد خاکی کو چھوڑ کر تینوں خلفاء نے حضور ﷺ کا جنازہ بھی ادا نہیں کیا، یہ کیوں نہیں بتاتے کہ حضرت علی یا کسی بھی صحابی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خود صحابہ چھوڑ کر گئے کہ تم یہ کام کرو ہم یہ معاملہ نپٹا کر آتے ہیں۔
5۔ اس سے وضاحت ہو گئی کہ”غدیر خم“ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خلافت بلا فصل کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے چوتھے برحق خلیفہ ہیں،اس پر امت محمدیہ کا اجماع ہے۔
5۔ باغ فدک
1۔ خیبر میں ایک قصبہ ہے جس کی اکثریت یہودی آبادی کی تھی۔ فتح خیبر کے موقع پر یہودیوں سے ان شرائط پر صُلح ہو گئی۔ کہ اہل فدک کے مال و اسباب اور زرعی زمینیں یہودیوں کے پاس رہیں گی، مسلمان ان کو تحفظ دیں گے، یہودی ہر سال اپنی کُل آمدنی جو ان زمینوں سے ہو گی اس کا نصف مسلمانوں کو دیں گے۔
2۔ سات ہجری میں فدک کی اراضی سے آنے والی آمدنی چوبیس ہزار دینار سالانہ تھی۔ سنن ابی داود کی روایت کے مطابق نناوے ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں فدک کی آمدن چالیس ہزار دینار تک پہنچ گئی تھی۔
3۔ البتہ علماء کرام کے مطابق فدک کی حیثیت ”مالِ فے“ کی تھی یعنی جو مال دشمن سے بغیر جنگ کے حاصل ہو وہ مال فے کہلاتا ہے۔ اس کے بار ے میں اللہ کریم نے یہ فرمایا ہے:
جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول ﷺ پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنومطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔
اور جو کچھ رسول ﷺ تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ (مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیں۔
(یہ مال اُن انصار کے لئے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں(الْحَشْر)
4۔ مال غنیمت کے بر عکس اموال فے کی ملکیت کسی کو منتقل نہیں کی گئی بلکہ یہ ریاست کی تھی۔ ان آیات کے مطابق مال کی تقسیم حضورﷺ ریاست کے لیڈر ہونے کی وجہ سےاپنے مبارک زمانے میں کرتے رہے۔
5۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ریاست کے خلیفہ بنے تو آپ نے فدک پر (management) تولیت قبضہ کیا نہ کسی سے قبضہ چھڑایا، اس کے مصارف بھی نہیں بدلے اور نہ ہی ذاتی استعمال میں لائے۔
مطالبہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے فدک کے انتظامات ان کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ ہبہ واپس لینے کا نہیں تھا بلکہ بنتِ رسول کی حیثیت سے فدک کی تولیت (management) کا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہ ”اللہ کی قسم میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا، تمام انتظامات اسی طرح رہیں گے جیسے حضورﷺ کے دور میں تھے اور وہیں پر یہ مال خرچ کیا جائے گا جن پر حضورﷺ خرچ کرتے تھے۔میں اپنے اقرباء سے زیادہ صلہ رحمی پسند کرتا ہوں کہ حضورﷺکے اقربا سے کروں“۔
6۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھانے بعد میں اس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نیابتِ رسول ﷺ کے سبب فدک کے انتظامات اپنے پاس رکھے مگر اس کی آمدن کی تقسیم بالکل وہی رہی جو رسول اللہﷺ کے دور میں تھی یعنی ازواج مطھرات و آل فاطمہ سمیت دیگر مصارف فے کی کفالت جاری رہی۔
7۔ حضرت عمر، حضرت عثمان، سیدنا علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنھم کے دور میں بھی یہی معاملہ رہا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا۔ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ غلط ہوتا توحضرت علی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اس کو بدل دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔
6۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ
شیعہ حضرات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے نعوذباللہ ناراضگی تھی اسلئے راتوں رات دفن کر دیا اور کسی کو خبر تک نہ ہونے دی- رافضیت بے بنیاد مذہب ہےاور ان کا کام ہی الزامی سوال تیار کر کے “عوام” کو ثابت کرنا کہ اہلبیت سے بڑا ظلم ہوا اور خود کو اہلبیت کے محبتی ثابت کرتے ہیں۔
1۔ امام بخاری و مسلم نے احادیث اکٹھی کی ہیں لیکن علماء اہلسنت سب احادیث کو اکٹھی کر کے قانون سمجھائیں گے ورنہ امام بخاری و امام مسلم کی کتابوں سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے مکمل نماز کیسے ادا کی۔ اسلئے احادیث کی تشریح علماء اہلسنت کریں گے۔
2۔ بخاری حدیث نمبر 4240 کے اندرامام زہری کا قول ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ دی گئ بلکہ راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا۔ یہ امام زہری کی ذاتی رائے ہے ورنہ امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے بھی یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا۔ لہذا زہری کا اضافہ بغیر دلیل و سند کے ہے اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا۔ علماء کا اجماع ہے کہ بخاری و مسلم کی احادیث صحیح ہیں مگر علماء کا یہ بھی اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں۔( نعمۃ الباری شرح بخاری 7/615 وغیرہ)
3۔ سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا ابوبکر عمر عثمان زبیر عبدالرحمن(وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا۔(تاریخ الخمیس 1/278 الریاض النضرۃ 1/176، سمط النجوم 1/536)
4۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر عثمان طلحۃ زیر سعیدرضی اللہ عنھم اور دیگر کئ صحابہ جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا (الكامل في ضعفاء الرجال 5/422 ,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر 2492)
5۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث 1/381)
6۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں۔(حلیۃ الاولیاء 4/96,)
7۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں (ميزان الاعتدال 2/488)
8۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھاکا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(الطبقات الكبرى 8/24)
9۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بنت رسول سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (الطبقات الكبرى8/24)
10۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (البدایہ و النہایۃ 1/98، اتحاف الخیرۃ 2/460، حلیۃ الاولیاء 4/96، کنزالعمال 15/718)
11۔ بےشک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دفنایا۔ (سنن کبری بیھقی روایت نمبر 6896)
فیصلہ: مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ یا اکثر ضعیف ہیں مگر تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق “ وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن ترجمہ: تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے۔ (شیعہ کتاب نفحات الازھار 13/55)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی ناراضگی
1۔ اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا…(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری 5/192 ،عمدۃ القاری 22/233 وغیرہ کتب)
2۔ بالفرض اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں منا لیا تھا، راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں (ترضاھا حتی رضیت) سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنھا بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو (غلط فھمیاں دور فرما کر)مناتےرہے حتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں (سنن کبری 12735 عمدۃالقاری 15/20، السیرۃ النبویہ ابن کثیر 4/575)
3۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے۔
سیدہ فاطمہ کی وصیت: میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اورعلی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)
4۔ یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، حضرت علی و عباس رضی اللہ عنھما، ازواج مطہرات، اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم ﷺ کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا….سچ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نےخود بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک ﷺ نے اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفع پیداوار ملتی، اسکو ان پر خرچ کرتے تھے۔
اسی طرح رسول کریم ﷺ کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ فدک وغیرہ رسول کریم ﷺ کے چھوڑے ہوئے صدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پر اور کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے۔ حضرت عمر و علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم ﷺ کا رہا تھا۔ (دیکھیے تاریخ الخلفاء ص 305، ابوداود روایت نمبر 2970 ,2972، سنن کبری للبیھی روایت نمبر 12724، بخاری روایت نمبر 2776 ،3712،)
5۔ انبیاء کرام علیھم السلام کی میراث درھم و دینار(کوئی مالی میراث)نہیں، انکی میراث تو فقط علم ہے۔ (شیعہ کتاب الکافی 1/34)
7۔ داماد علی
عرب میں عمروں کے تعین سے نکاح نہیں ہوتے تھے، حضور ﷺ نے کس کس عمر میں نکاح کئے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اسطرح ایک رشتہ سید زادی کا ایک جنتی صحابی سے ہوا جس کے موجودہ اہلتشیع مُنکر ہیں اور اُن کے مُنکر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ خود متعہ کرتے ہیں مگر ڈپلیکیٹ اہلبیت میں سے کس کس عورت یا مرد کی سنت زندہ کرنے کے لئےمتعہ کرتے ہیں، ہر گز نہیں بتائیں گے، البتہ اہلسنت کے نزدیک تو متعہ حرام ہے۔ سید زادی کا نکاح اہلتشیع مانیں ورنہ اپنی کتابیں جلائیں اور کہیں کہ ہمارے علماء اور اہلبیت ڈپلیکیٹ ہیں۔
1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاکی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کے شوہر ہیں، اسلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے داماد اورحضرت امام حسن وحسین رضی اللہ عنھما کے بہنوئی ہیں۔ حضرت ام کلثوم سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاایک لڑکا زید اور ایک لڑکی فاطمہ ہوئی۔
2۔ اہلتشیع کی صحاح کتابوں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے داماد ہونے کے حوالے دیتے ہیں لیکن یہ پھر بھی کہیں گے کہ اتنی چھوٹی سی عمرمیں اتنے بڑی عمر سے نکاح کیسے ہوا، کیلکولیشن سے سمجھاؤ،اس کا ایک ہی جواب ہے کہ پہلے اپنی بنیادی علماء اور کتابوں کا انکار کر دیں۔ ان کتابوں میں دئے گئے زہریلے اور کاٹ دار دلائل پڑھیں۔
دلائل؛ شیعہ کے ثقہ الاسلام ابو جعفر بن یعقوب بن اسحاق کلینی الرازی المتوفی 328 تا 329ھ اپنی کتاب”فروع کافى” کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو امام غائب مہدی المنتظر پر پیش کیا تو انہوں نے فرمایا: ھذا کاف لشیعتنا ” یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے”۔ملا خلیل شارح کافی اپنی کتاب الصافی شرح اصول کافی میں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آثار صحیح اس پر دلالت کرتے ہیں کہ جو حدیث بھی کافی (اصول و فروع ) میں مروی ہے بالکل صحیح ہے۔ ‘‘ (الصافی: ص 36) ان دونوں وضاحتوں سے ثابت ہوا کہ شیعہ دنیا میں کافی (اصول و فروع) کو صحیح اور مستند کتاب اور اس کی احادیث کا انکار گویا امام کو جھٹلاتے کے مترادف ہے۔ اب حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے:
1۔ امام جعفر صادق سے جب بى بى ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح کے متعلق پوچھا گیا ( کہ اس کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیسے ہو گیا؟ تو فرمانے لگے کہ یہ ایک رشتہ ہم سے چھین لیا گیا تھا۔( فروع کافى باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ج 5 ص 346)
2۔ جناب جعفر صادق کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ طلب فرمایا تو آپ نے جواب میں فرمایا: وہ ابھی جوان نہیں ہوئی تو اس جواب کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں بیمار ہوں؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیوں کیا بات ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ کے بھتیجے (علی رضی اللہ عنہ) سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ہے، انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ یاد رکھئے! اگر اس نے میری فرمائش پوری نہ کی تو میں تم سے آب زمزم کی انتظامی سربراہی واپس لے لوں گا اور تمہاری بزرگی ایک ایک کر کے ختم کر دوں گا اور علی رضی اللہ عنہ پر چوری کے دو گواہ قائم کر کے چوری کی حد میں اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دوں گا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جذبات کی اطلاع کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی دختر ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے نکاح کا معاملہ میرے سپرد کر دو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ ( فروع کافی: 5/ 346 طبع دار الکتب الاسلامیہ تہران)
3۔ عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔
4۔ سلیمان بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر بن صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔ ( فروع کافی: کتاب الطلاق 6/ 116)
5۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی متوفی 460ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘: عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب داماد علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔( تہذیب الاحکام، کتاب النکاح)
6۔ سلیمان بن خالد کہتے کہ میں نے حضرت جعفر صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے؟ آپ نے میرے جواب میں کہا: جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی دختر ام کلثوم (زوجہ عمر رضی اللہ عنہ ) کے پاس تشریف لائے۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے۔(تہذیب الاحکام: حوالہ مذکورہ )
درجہ استناد: فروع کافی کی روایات نمبر 3 و نمبر 4 کو ہم سے شیعہ کی صحاح اربعہ میں شامل کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ سے دوبارہ اس لیے نقل کیا ہے تاکہ قارئین کو ان روایتوں کے پائے کا علم ہو جائے کہ شیعی محدثین نے ان روایات کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ ان سے مسائل فقہیہ کا استخراج بھی کیا ہے۔
7۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت باقر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب اور اس کا بیٹا زید بن عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت فوت ہوئے اور یہ علم نہ ہو سکا کہ ان دونوں سے میں سے کون پہلے فوت ہوا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نماز جنازہ بھی اکٹھی پڑھی گئی۔ (تہذیب الاحکام 9/ 262۔ 263)
8۔ عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔ (کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج 3 ص 302)
9۔ سلمان بن خالد کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے۔(کتاب الاستبصار: باب المتوفى عنہا زوجہا ان تبیت عن منزلہا ام لا -( ج 3 ص 302)
10۔ قاضی نور اللہ شوستری شہید ثالث جو کہ گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد ہیں اپنی مایہ ناز کتاب مجالس المؤمنین میں فروع کافی میں لکھتے ہیں: ’’کتاب استغاثہ وغیرہ میں منقول ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنی خلافت کو ترویج دینے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا تو آپ نے دوبارہ حجت قائم کرنے کے لیے اس سے انکار کر دیا۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور قسم کھا کر کہا کہ اگر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجھے اپنا داماد بنانے پر تیار نہ کیا تو مجھ سے جو کچھ ہو سکا کروں گا اور سقایہ حج اور زمزم کا منصب تجھ سے واپس لے لوں گا۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کر لیا کہ یہ سخت آدمی اس ناروا معاملہ کو اسی طرح کرے گا جیسا کہ وہ کہہ کر رہا ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چمٹ کر التماس کی کہ اس مطہرہ مظلومہ کے نکاح کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیں۔ جب حضرت اس بارے میں حد سے گزر گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بصورت اکراہ خاموش اختیار کر لی یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ پھر اپنے آپ اس نکاح کے مرتکب ہوئے اور بھڑکنے والے فتنہ کی آگ کو بجھانے کی خاطر اس منافق ظاہر اسلام (عمر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ عقد کیا۔ (مجالس المومنین ج 1ص 182، کشف الاسرار ص 39)
11۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح بڑی خوشی سے خود کیا، مہر وصول کیا اور بیٹی کو اپنے شوہر عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی اتباع کی وصیت فرمائی۔ ‘‘ (ناسخ التواریخ ج 2 ص 296) مزید برآں یہ کہ خود قاضی صاحب موصوف اپنی اس کتاب ’’مجالس المومنین ‘‘ میں ایک دوسرے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس مجبوری کا خود بھی ذکر نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں:نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی عثمان رضی اللہ عنہ کو دی اور علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی عمر رضی اللہ عنہ کو دی۔ (مجالس المومنین ج 1ص 204)
لطیفہ: شیعہ حضرات حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی دشمنی میں اس رشتہ کا انکار کرتے ہوئے اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم بنت علی کا رشتہ طلب کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک جن عورت کو اپنی بیٹی ام کلثوم کی صورت میں ڈھال کر عمر رضی اللہ عنہ سے بیاہ دیا تھا۔
تاویل: ام کلثوم نامی عورت جس کانکاح حضرت عمرسے ہوا وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر کا نام بھی ام کلثوم تھا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز صحیح نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام ام کلثوم نہ تھا اور پھر ’’تہذیب الاحکام ‘‘ کی وہ روایت جو پیش نظر مقالہ کی دلیل نمبر 7 میں ہے۔ اس کی کیا تاویل کرو گے؟ (ملاحظہ فرمائیے تہذیب الاحکام، کتاب المیراث)
اہلسنت کے دلائل
بخاری شریف: حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں۔ ایک عمدہ چادر بچ رہی۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ حضرت ! آپ یہ چادر رسول اللہ ﷺ کی نواسی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو عنایت فرما دیجئے جو آپ کی بیوی ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: یا امیر المؤمنین اعط ہذا بیت رسول اللہ ﷺ التى عندک۔ امیر المؤمنین حضرت عمر نے فرمایا: میری بیوی ام کلثوم کے مقابلہ میں بی بی ام سلیط اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں۔ وہ انصاری عورت تھیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی۔ امیر المؤمنین کہنے لگے: یہ بی بی ام سلیط رضی اللہ عنہا جنگ احد میں پانی کی مشکیں اپنی کمر پر لاد لاد کر ہمارے لیے لاتی تھیں۔ (بخاری: باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزوہ ج 1 ص 3)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:حضرت ام کلثوم امیر المومنین جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، ان کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہے، اسی لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ ﷺ کہا، بی بی کلثوم رسول اللہ ﷺ کی حیات ہی میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ص 59)
نواب وحید الزمان اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ چادر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کو اس خیال سے نہ دی کہ ان کی بیوی تھیں اور غیر عورت کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم رکھا۔ ( تیسیر الباری ج 3 ص 108)
علامہ کرمانی صحیح بخاری کی اس حدیث شرح میں لکھتے ہیں کہ ام کلثوم فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں جو رسول اللہ کی حیات میں پیدا ہوئی تھیں۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس محترمہ کار شتہ طلب کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ کو میری بیٹی پسند ہے تو میں نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا۔ (کرمانی شرح البخاری حاشیہ صحیح البخاری ص 403)
8۔ حضورﷺ کی چار بیٹیاں
شیعہ مذہب کی بنیادی چار کتابیں ہیں جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے: (1) اصول کافی (2) من لا یحضر الفقیة (3) تهذيب الاحکام (4) الاستبصار، البتہ اصول کافی کا حوالہ ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں جو 329ھ میں فوت ہوا۔ فارسی نہیں لکھی تاکہ بات لمبی نہ ہو۔ یہ پوسٹ اہلسنت اپنے بچوں کو بھی سنائیں۔
1۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی ” کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ ” میں ذکر کیا ہے کہ ” نبی اکرم ﷺ نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔” (اصول کافی ص 439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)
اس کے بعد اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ”الصافی شرح کافی“ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔
2۔ مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبدﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب ” قرب الاسناد” لکھتے ہیں ” حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنھاسے جناب رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذيل اولاد پیدا ہوئی ۔القاسم، الطاہر ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فو ت ہوگئیں پھر رسول ﷲ ﷺ نے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ ” (قرب الاسناد لابی العباس)
يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد ﷲ العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے (تحفہ اثناعشریہ ص 245)
اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد 2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد1 ص108 میں اور عبدﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے۔
3۔ شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کے اندر لکھتے ہیں۔” (رسولﷲ ﷺ نے فرمایا) ﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبدﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں۔” (کتاب الخصال للصدوق ص 375)۔
4۔ گیارھویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت ﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا سے نبی اقدس ﷺ کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضیﷲ تعالی عنھن۔
5۔ شیخ عباس قمی چودہویں صدی کے مجتہد شیعہ ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ "حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ سے رسول خدا ﷺ کی يہ اولاد متولد ہوئی۔ طاہر، قاسم ، فاطمہ، ام کلثوم، رقیہ اور زینب۔ آگے لکھتے ہیں۔” فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی شادی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے ساتھ ہوئی زینب رضی ﷲ عنہا کا ابو العاص رضی ﷲ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا جو بنو امیہ میں سے تھے اور ام کلثوم کا عثمان ابن عفان رضیﷲ عنہ سے نکاح ہوا جب ان کی وفات ہوئی تو رقیہ کی تزویج بھی عثمان رضی ﷲ عنہ سے کر دی۔ ” (منتھی الآمال للشیخ عباس فارسی طبع تہران)
6۔ شیعہ مذہب کے ايک اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب لکھتے ہیں: حضرت خدیجہ رضیﷲ عنہا سے جناب رسول ﷺ کے ہاں پہلے فرزند عبدﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبدﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی ﷲ تعالی عنہن۔(حیات القلوب ج 2 ص 728 طبع لکھنو)
يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ “ کتابہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید۔ (کشف الاسرار) ترجمہ: وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو۔
7۔ شیعہ مذہب کے قدیم مورخ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں رقمطراز ہیں: "جس وقت حضور اکرم ﷺ نے خدیجہ الکبری سے رشتہ قائم فرمایا تو آپ کی عمر مبارک 25 یا بعض کے مطابق30سال تھی اور بعثت سے پہلے جو نبی اقدس ﷺ کی جو اولاد پیدا ہوئیں وہ قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم تھی آپ کی بعثت کے بعد عبدﷲ جو دور اسلام میں پیدا ہونے کی بناء پر طیب وطاہر کے نام سے مشہور تھے) اور فاطمہ رضی ﷲ عنہا متولد ہوئیں۔”۔(تاریخ یعقوبی ج 2 ص 20)
8۔ شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضیﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب”نہج البلاغہ“ ہے۔ حضرت علی المرتضی رضیﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی ﷲ عنہ آپ رسول ﷲ ﷺ کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی پاک ﷺ کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضیﷲعنہما نہیں پاسکے۔’ ’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو۔” وانت اقرب الی رسول ﷲ ﷺ شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ ” (نہج البلاغہ ص 303 مطبوعہ تہران) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضیﷲ عنہ کو رسولﷲ ﷺ کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی سرکار طیبہﷺ کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
9۔ شیعہ عالم علی بن عیسیٰ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ ” خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا حضور اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ آپ ﷺ نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضیﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضیﷲ عنہا سے متولد ہوئے۔ "(کشف الغمہ)
10۔ علماءشیعہ کے معروف عالم شیخ عبدﷲ مامقانی رقمطراز ہیں:خدیجہ رضیﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔(تنقیح المقال ج 3 ص 73 طبع لنبان)
9۔ غلط فہمی کی جنگیں
سبائی ایجنٹو ں نے جو باغی گروپ تیار کر کے پراپیگنڈہ کیا تو اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ جمل و جنگ صفین ہوئی لیکن جنگ نہروان نے ثابت کیا کہ اصل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل سبائی و خارجی تھے جن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگ میں جلا دیااور جنازہ نہ پڑھا:
جنگ جمل
جمل نر (male) اونٹ کو کہا جاتا ہے،جنگ جمل اسلئے کہ اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سُرخ اونٹ پر سوار تھیں۔یہ جنگ 36ھ، بصرہ میں، غلط فہمی کی وجہ سے ماں بیٹے کے درمیان ہوئی کیونکہ حضورﷺ کے دامادحضرت علی رضی اللہ عنہ اور بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہیں۔
خلافت: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے تیسرے جانشین تھے جن کی قانونی حکومت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت سب نے تسلیم کیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حکومت کمزور نہیں تھی بلکہ مضبوط تھی جس میں جدہ کا سی پورٹ اور بحری جنگی جہازجہاد کیلئے تیار ہو رہے تھے۔
مطالبہ: البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں صحابہ کرام کا مطالبہ نہیں بلکہ باغی اور گمنام لوگ آئے جو خلیفہ وقت پر الزام لگاتے ہیں کہ تم بنو امیہ کے خاندان کے ہو، صرف اپنے رشتے داروں کو نواز رہے ہو، خلافت پر تمہارا حق نہیں ہے حالانکہ یہ الزام غلط تھا، اسلئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے جی دار کی جان پر بن آئی مگر باغیوں کے کہنے پر استعفی نہیں دیا۔
شہید: باغی اور گمنام لوگ کتنے طاقتور تھے کہ مدینہ منورہ میں باب العلم و فاتح خیبر، حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھم اور دیگر صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے GHQ کے اندرآئے، چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور خلیفہ وقت کو شہید بھی کردیا۔ ان کا پراپیگنڈے کا اثر صحابہ کرام پر بھی تھا جیسا کہ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے علم ہوتا ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ ان باغیوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہل رہی تھیں۔
سازش: ایران فتح ہواتو دشمنوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ صرف ان کو اندرونی مسائل میں اُلجھانا ہے ورنہ مسلمان قابو میں نہیں آ سکتے۔
دفن: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتے ہیں کہ تین دن تک مظلوم خلیفہ کی لاش پڑی رہی اور پھر رات کے اندھیرے میں دفن کیا گیا۔ خلیفہ وقت کی لاش ایسے ہی پڑی رہی تو سوال ہے کہ حضرت حسن و حسین و علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟
حیرت: اسقدر شدید فتنہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا جاتا ہے کہ خلافت لیں مگر وہ قبول نہیں کرتے پھر تا