Al Saud Saudia Arab (آل سعود سعودی عرب)

آل سعود (سعودی عرب)

1۔ آل سعود کا تعلق 18ویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے اور سعود کے نام پرسعودی عرب ہے۔ شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ء میں محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا (محمدبن عبدالوہاب کیلئے سلطنت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) مزار، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، تقلید، استمداد، استغاثہ، توسل کی وجہ سے بدعتی و مُشرک تھے)۔اسلئے آل سعود اور آل وہاب کا معاہدہ ہوا کہ بادشاہت آل سعود کی ہو گی اور وزارت مذہبی امور پر آل وہاب کی اجارہ داری ہو گی، اسلئے پاکستان میں بھی اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہنے والے وہابی ہیں۔

2۔ سعود بن محمد کی نسل کو 1818ء میں عثمانی افواج (ترکی) کے ہاتھوں شکست ہوئی لیکن چھ برس بعد ہی سعود خاندان نے ریاض (نجد) پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1902میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد مختلف قبیلوں سے لڑائی کے بعد بہت سے علاقوں کو متحد کر لیا۔1913میں خلیجی ساحل کا کنٹرول حاصل کر لیا۔

3۔ دوسری جانب 1918میں سلطنت عثمانیہ کو سعودی عرب میں شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی آخری شریف مکہ قرار پائے۔ شریف مکہ کا منصب فاطمین مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام کرنا تھا۔

4۔ حسین بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دئے اور آخر کار 1925میں حسین بن علی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ عبدالعزیز بن سعود نے 1932میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا جس کی وجہ یہ بھی تھی کہ خلافت کا لفظ مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا تھا۔ اب تک کے بادشاہوں کی تفصیل یہ ہے:

۱) 9نومبر 1953کو سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز کا انتقال ہو۔
۲) شاہ سعود حکمران بنے مگر 2نومبر 1964کوکرپشن اور نااہلی کے الزامات کے تحت معزول۔
۳) شاہ فیصل بادشاہ بنے مگر مارچ 1975میں ان کے ایک بھتیجے نے قتل کر دیا۔
۴) شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ خالد 1982میں اپنی وفات تک حکمران رہے۔
۵) شاہ فہدحکمران بنے اور اپنی عمر سے دو سال چھوٹے شاہ عبداللہ کو ولی عہد مقرر کر دیا۔ 1995 میں شاہ فہد پر فالج کا حملہ،عملی طور پر شاہ عبداللہ نے کام سنبھالا اور آئینی طور پر 2005 میں شاہ فہد کے انتقال پر حکمران بنے اور 23جنوری 2015کو انتقال کیا۔
۶)اب ان کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز حکمران اور محمد بن سلمان ولی عہد بن چکے ہیں۔

تجزیاتی رپورٹ

1۔سلطنت عثمانیہ کے احتتام پر یورپ نے تین بر اعظم کے ممالک کی بندر بانٹ کی اور اپنی پسند کے حکمرانوں کو مختلف ممالک کا حکمران بنایا۔ خلافت کا نام ختم ہوا، یہود و نصاری اکٹھے ہوئے، ترکی اور سعودی مسلمان کا آپس میں اختلاف قرآن و سنت پر نہیں ہوا بلکہ اقتدار کی وجہ سے ہوا۔ آل وہاب نے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو بدعتی و مُشرک کہا اور اب ساری دنیا کے اہلسنت علماء کرام اپنے اپنے ممالک میں بے یارو مددگارہیں اور مکہ مکرمہ میں بھی اکٹھے میٹنگ نہیں کر سکتے۔

2۔سعودی حکومت بھی گدی نشین پیروں کی طرح باپ کی جگہ بیٹا یا بھائی لیتا ہے۔ سعودی عرب میں مسلمان کمائی کرنے جاتے ہیں لیکن سعودی عرب میں کوئی اپنا مکان، دُکان یا جائیداد نہیں بنا سکتا۔ ہر مسلمان کفیل کے انڈر کام کرتا ہے یعنی کفیل کو ہر سال اپنی تنخواہ سے پالتا ہے اور کفیل تنگ کرے تو دوسرا کفیل کر لیا جاتا ہے یعنی غلامی کی ایک نئی قسم ہے۔

3۔ آل وہاب نے بدعت و شرک ختم نہیں کیا بلکہ اجماع امت کا دور ختم کیا۔وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ، چار مصلوں کے خلاف ایسا پراپیگنڈہ کیا کہ تاریخ مٹا دی گئی کہ عام و خاص یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کس شاندار طریقے سے چار ائمہ کرام خانہ کعبہ میں امامت کرواتے، جمعہ کیسے ہوتا، حج کا خطبہ کون دیتا تھا۔ بس اتنا کہہ دیا کہ بدعت و شرک تھا مگر یہ نہیں بتایا کہ بدعت و شرک کیا تھا۔

4۔سعودی عرب میں سکون اسلئے ہے کہ کسی کو بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے حتی کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے خطیب کے ساتھ ساتھ پورے سعودی عرب کے خطیب وہی خطبہ پڑھیں گے جو حکومت سے تیار ملے گا۔ حرمین شریفین کا انتظام بہت شاندار ہے اور خوبصورتی بھی قابل دید ہے، البتہ یہ ایک کمائی کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ ہر مسلمان نے اپنے مذہبی فرائض کے لئے حج و عمرہ کرنے جانا ہوتا ہے۔

5۔ سعودی عرب میں خلافت نہیں بادشاہت ہے اور سعودی عرب صرف اپنی قوم کو دنیاوی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور کسی بھی مسلمان ملک کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ عربوں کا اپنا بلاک ہے جو یورپ کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اسلئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات یورپ نے مدد کرنی ہو تو سعودی عرب کے ذریعے مسلمان ممالک کی کرواتا ہے تاکہ سیکریسی رہے۔

6۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں قرآن و سنت کے مطابق چار فقہی انداز (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے مقلد خانہ کعبہ میں اپنے اپنے امام کے پیچھے بغیر اضطراب کے نماز ادا کرتے۔سعودی عرب کے امام کعبہ کی امامت میں نماز ادا کرنے والی پاکستانی دینی جماعتیں (سلفی، توحیدی، محمدی، اہلحدیث، غیر مقلد، حنفی دیوبندی) سعودی عرب سے”امام کعبہ“ کے عقائد اور مسائل میں کس کے ”مقلد“ ہیں، اس پر ایک فتوی حاصل کریں اور پاکستان میں بھی ایک ہو کر ”ایک فقہی مصلہ“ قائم کریں جیسا خانہ کعبہ میں ہے تاکہ مسلمان ایک نظر آئیں ورنہ چار مصلوں کی بجائے خود کتنے مصلے بنائے بیٹھے ہیں۔

7۔بریلوی جماعتوں کے علماء اور پیر حضرات (جو رافضی نہیں ہیں) چار مصلے اجماع امت کے نعرے پر اکٹھے ہو کر اپنی پہچان فتاوی رضویہ کے ”عقائد اہلسنت“ سے کروائیں ورنہ رافضی تو خارجی سے بھی بدتر ہیں جو کہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں۔

8۔ بنو عباس نے بنو امیہ کا نام و نشان مٹا دیا، عباسی حکومت کے بعد خلافت عثمانیہ آئی اور اب سعودی عرب کے بادشاہوں کی حکومت ہے اور رہنی وہ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کریم کی سنت ہے کہ دن بدلتا رہتا ہے اور قیامت والے دن اس کو اجر ملے گا جس نے اسلام اور مسلمانوں کے لئے کچھ کیا ہو گا۔

9۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا حال ساری دنیا میں بُرا کیوں ہے، مسلمانوں نے صدیاں حکومت کی ہیں اور اب بھی مسلمان ملکوں پر معاشی پابندیاں اور کالے قانون یورپ لاگو کرتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ مسلمان سے مذہبی روح ختم کرنی ہے۔

10۔ البتہ ہم نے کسی کی ریاست، بادشاہت یا خلافت کو ختم نہیں کرنا بلکہ اپنے وقت میں حقائق تلاش کر کے ان سوالوں کے جواب اپنی نسلوں کو سکھانے ہیں، اسلئے ہر جماعت اپنا جواب دے:

سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔

سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟

سوال: اہلتشیع قرآن و سنت سے اپنا تعلق ثابت کریں کہ کونسی احادیث کی کتابیں کن راویوں کے ذریعے حضورﷺ تک اسناد سے لکھی گئیں کیونکہ اہلتشیع کی احادیث اور فقہ جعفر کا دور دور تک حضور ﷺ اورحضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ثابت نہیں۔ اسلئے عیسائی حضرات کی طرح اہلتشیع بھی قرآن و سنت میں تحریف کر کے ایک نیا دین بنا چُکے ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general