ہر لمحہ آزمائش کا ہے!
ہمارے اُستاد صاحب ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ 24 گھنٹے اللہ کریم کی طرف سے ہر بندے کی آزمائش ہوتی ہے اور کامیاب ہونے پراُس کی ”مدد“ رحمت و برکت سے کی جاتی ہے۔ یہ ہماری آزمائش کا چھوٹا سا واقعہ ہے، جس نے ہم سب کا امتحان لیا اور بعد ازاں سب کے لئے اجر و ثواب، صبر و شُکر، رحمت و برکت اور ایمان کے بڑھنے کا ذریعہ بنا۔ اللہ کریم نے ہمیں آزمائش کے لئے پیدا کیا ہے اسلئے 24گھنٹوں میں،ہر ایک کو، کسی نہ کسی صورت میں، امتحان دینا پڑتا ہے۔
1۔ عُمرہ کرنے کے لئے تقریباً ہم 16 مرد و عورت نے جانا تھا، کچھ نان ریفینڈ ایبل ٹکٹیں بُک ہو چُکیں تھیں جن کی واپسی نہیں تھی، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے مکہ مدینہ میں ہوٹل بُک تھے، پہلے مدینہ جانا تھا، کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ بندہ گھر میں تیار ہوتا ہے، جانے کی خوشی میں نیند نہیں آتی، ائیر پورٹ چار گھنٹے پہلے پہنچنا ہوتا ہے، ایئر پورٹ پر احرام باندھنا، پھر جہاز کا لیٹ ہونا بھی ممکن، چار پانچ گھنٹے کی فلائٹ، جدہ ائیر پورٹ پر باہر نکلنے کا انتظار، مکہ کی طرف گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر، اُس کے بعد ہوٹل میں سامان رکھنا، اُس کے بعد تھکا تھکایا عُمرہ کرنا ”مزہ“ نہیں دیتا، اسلئے پہلے مدینہ پاک جانا چاہئے، حضورﷺ کو سلام پیش کر کے وہاں چند دن آرام کر کے جوش کے ساتھ مکہ مکرمہ جا کر عُمرہ کرنا چاہئے۔
2۔ صُبح 12کی فلائٹ تھی، سب ایک دوسرے کو گلے مل رہے تھے، ہار پہنائے جا رہے تھے، اچانک ایک فون آیا کہ آپ کی فلائٹ رات 12بجے تھی جو مس ہو چُکی ہے۔ اب عُمرہ پر جانے والوں کی پریشانی دیکھنے والی تھی، کوئی رو رہا ہے، کوئی پریشانی میں پوچھ رہا ہے، اب کیا ہو گا، ٹکٹیں جس دوست کے پاس تھیں، اُس کو بھی یہی بتایا گیا تھا کہ فلائٹ صبح بارہ بجے کی ہے۔
3۔ البتہ ایک بندہ یعنی ہمارے اُستاد صاحب مُسکرا رہے تھے، کسی نے روتے ہوئے کو کہا کہ استاد صاحب تو مسکرا رہے ہیں، وہ کہنے لگا کہ ان کے اعصاب سٹین لیس سٹیل کے بنے ہیں۔ اُستاد صاحب ہنس رہے تھے اور فرما رہے تھے صبر پہلی چوٹ کے ساتھ ہے، یہ وقت صبر کا ہے اور ان شاء اللہ 24گھنٹوں میں حالات بہتر ہو جائیں گے۔
4۔ جس دوست کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ فلائٹ صبح کی ہے، اُس پر بھی کوئی غصہ نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی کوئی الزام لگا رہا تھا کیونکہ ہماری تربیت استاد صاحب نے کی تھی۔ اُستاد صاحب نے دوستوں سے کہا کہ سب سے پہلے چیک کیا جائے کہ عُمرے پر جانے کے لئے سب سے پہلی فلائٹ کب مل رہی ہے؟
5۔ ایک دوست ایجنٹ کو سارا مسئلہ بتایا تو اُس نے کہا کہ اگرایک دو بندوں کے ڈیتھ سیرٹیفیکیٹ بنا لیں تو ٹکٹس واپس ہوکر پورے پیسے واپس مل جائیں گے۔ اس پر دوست نے کہا کہ پیسوں کا نقصان تو گوارا ہے، حالانکہ نقصان بھی تقریباً چھ سات لاکھ کا بن رہا تھا، مگر ایمان گنوانا گوارہ نہیں۔ جس کو ٹکٹس کے بارے میں غلط فہمی ہوئی تھی، اُس کے بھائی نے کہا کہ اے بھائی، فکر نہ کرو آدھا خرچہ مجھ پر ڈال اور یہ بھی ایک بھائی کا بھائی کیلئے قربانی کا جذبہ تھا۔
6۔ خیر دو دن بعد کی فلائٹ مل گئی لیکن جدہ کی، ہماری مرضی مدینہ پاک کی تھی مگر اب رب کی مرضی پہلے ہمیں اپنے گھر بُلا کر عمراہ کروانے کی تھی۔ ائیر پورٹ پر ہمارے ایک دوست پروفیسر صاحب تھے انہوں نے کہا کہ جتنا نقصان ہوا اُس کا آدھا میں دوں گا اور یہ قربانی بھائی کی قربانی سے بھی بڑھکر تھی کیونکہ آدھا خرچہ اپنے اوپر لے لیا۔ پروفیسر صاحب کے کہنے کے باجود اُن سے میٹنگ کی تاکہ کہیں جذبے میں نہ کہہ بیٹھے ہوں اور بعد میں پریشان نہ ہوں، یہ بھی ہمیں اُستادوں نے سکھایا تھا کہ کوئی جذبے میں بات کرے تو اُس کو اس بات پر بلیک میل نہیں کرنا اور نہ ہی فائدہ اُٹھانا ہے۔
7۔ ایک اور عجیب بات ہوئی جس کو سب نے اللہ کریم کی رحمت سمجھا کہ کریڈٹ کارڈ پر جو ہوٹل کے کمرے بُک کروائے تھے، اُس کے پیسے نہ کٹے، معلوم نہیں کیوں، کیونکہ جس بندے کے کریڈٹ کارڈ سے ہوٹل کے کمرے بُک کروائے تھے وہ کہنے لگا کہ میرے کریڈٹ کارڈ سے رقم نہیں کاٹی گئی۔مکہ مکرمہ پہنچ کر کم درجے کے ہوٹل لئے تاکہ پیسے کچھ آپس میں ایڈجسٹ کئے جا سکیں۔
8۔ اللہ کریم کا شُکر ہے کہ اس کے علاوہ راستے میں، اللہ کریم کے گھر اور نبی کریمﷺ کے در پر عجیب محبت بھرا ساماں رہا، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوئے وقت گذرا، یادگار سفر بن گیا جس میں سب نے ایک دوسرے سے محبتیں بانٹیں اور ایک دوسرے کا احساس کرکے اجر کماتے رہے۔
9۔ ہمیں سمجھایا گیا تھا کہ اللہ کریم بہانہ بنا کر سب کو آزماتا ہے، اسلئے آزمائش کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ کریڈٹ کارڈ کے پیسے نہ کٹنے کی وجہ سے، کم درجے کے ہوٹل میں رہائش رکھنے کی وجہ سے، ایک دوسرے پر پیسے تقسیم کرنے کی وجہ سے، سب کو صبر و شُکر کمانے کو ملا، اللہ کریم کی رحمتوں کو پانے کا موقع ملا۔ جس کی غلطی تھی اُس کا نقصان صرف 80000کا رہ گیا جو چھ سات لاکھ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا، البتہ اُستاد صاحب کے بقول اس آزمائش پر صبر کرنے، قربانی دینے اور ایک دوسرے کا احساس کرنے پر جو اجر، رحمت، برکت ملی وہ ناقابل بیان ہے۔
10۔ نیک صحبت تربیت کے لئے ہوتی ہے، بعض اوقات گھر، جماعت، دفتر، کاروبار میں ایک بندے کی غلطی سے بہت سے اپنوں کے ایمان کا امتحان ہو جاتا ہے، جس میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو زندگی کو چھوٹا اور آخرت کو بڑا سمجھ کر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین اور حق بات کا درس دیتے ہیں۔
آزمائش: اسی طرح ہم سب مسلمانوں نے دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث نہیں بننا بلکہ وہ مسلمان بننا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتا ہو۔ اسلئے یہ جماعتیں ہمارے ایمان کا امتحان ہے اور اس امتحان میں تب کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہم ان سوالوں کی تحقیق کریں:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
سوال: اہلتشیع قرآن و سنت سے اپنا تعلق ثابت کریں کہ کونسی احادیث کی کتابیں کن راویوں کے ذریعے حضورﷺ تک اسناد سے لکھی گئیں کیونکہ اہلتشیع کی احادیث اور فقہ جعفر کا دور دور تک حضور ﷺ اورحضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ثابت نہیں۔ اسلئے عیسائی حضرات کی طرح اہلتشیع بھی قرآن و سنت میں تحریف کر کے ایک نیا دین بنا چُکے ہیں۔