ذخیرہ اندوزی (Hoarding)
تعریف: ذخیرہ اندوزی کو اسلام میں احتکار کہتے ہیں، جس کا لفظی معنی ظلم ہے، شرعی اصطلاح میں اگر کوئی مسلمان ضروریات زندگی کی اشیاء جیسے غلہ (چاول، چینی، آٹا، پٹرول) دوائی، میڈیسن وغیرہ، یہ معلوم ہونے پر کہ حکومت مہنگی کرنے لگی ہے یا حکومتی کارندے اشیاء کو اسٹور کر کے مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے عوام کو پریشان کریں تو اس کو ذخیرہ اندوزی (احتکار) کہتے ہیں۔
نقصان: ذخیرہ اندوزی سے مسلمانوں میں بے چینی پھیلے گی، عوام دکانیں لوٹے گی،صبر و شُکر ختم اور گھر گھر میں مہنگائی پر لڑائی اور بحث ہو گی۔ ایک دانشور کہتا ہے کہ نماز روزے سے بڑھکر فرض روٹی ہے کیونکہ ہر محبت اپنے وقت پر ختم ہو جاتی ہے مگر کھانے کی محبت ساری زندگی ختم نہیں ہوتی جیسے شوگر والا مریض گولی کھا لیتا ہے مگر میٹھا کھانے سے رُکتا نہیں۔
احادیث: مسلم 4120: ذخیرہ اندوزی صرف گناہ گار شخص کرتا ہے۔ ابن ماجہ 2153: تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوز لعنتی ہے۔ابن ماجہ 2155؛ جس شخص نے مسلمانوں پر ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالی اُس پر جذام (کوڑھ) اور افلاس کو مسلط کرے گا۔اسلئے اسلام میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔
مذاق اُڑانا: اگر کوئی کہے کہ ان احادیث کا ذخیرہ اندوزوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تو اُس کے ایمان پر بھی شک ہے کیونکہ سزاؤں کا دارومدار قیامت والے دن ہے۔مسلمان اپنے اپنے ممالک میں بھی غلام ہیں کیونکہ آزاد وہی ہے جس کو حضورﷺ جیسا لیڈر مل گیا ہو جو شعب ابی طالب میں تین سال تک بھوکے پیاسے رہ کر دین کی بات کرے۔مدینہ پاک کی ریاست میں کافروں کے قافلوں کو جانے نہ دے، یہود و نصاری،منافقین و کفار سے اکٹھا مقابلہ کرے۔داخلہ اور خارجہ پالیسی کو زبردست بنا کرمعاشی طور پر ملک کو مضبوط بنائے۔
جائز: اگر کوئی نئے چاول لے کر رکھ لیتا ہے تاکہ پرانے ہونے پر بیچ دوں گا تو اس کو احتکار اسلئے نہیں کہتے کہ عوام نئے اور پرانے ریٹ کو سمجھتی ہے اور عوام کو چاولوں کی قلت بھی کوئی نہیں ہے۔ اسلئے ہر وہ مال ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جس سے عوام کو قلت نہ ہو اور دکاندار آہستہ آہستہ بیچتا رہے۔
مثال: پاکستان میں 1965کی جنگ کے دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ نہ تو تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کی اور نہ ہی عوام نے دُکانیں لوٹیں بلکہ کوئی پرچہ چوری یا ڈاکہ ڈالنے کا نہیں ہوا کیونکہ عوام میں ملک کی محبت کا جذبہ تھا البتہ کیا کریں کہ کچھ لیڈر ملک ہی بیچ دینے کا کام کرتے ہیں۔
مسلمان: ہمیں دیوبندی، بریلوی، وہابی یا شیعہ نہیں بننا بلکہ مسلمان بننا ہے اور اس میں رکاوٹ بھی حکومتیں اور مذہبی عوام اورعلماء ہیں، اگر ایسا نہیں تومذہبی جماعتوں سے سوال ہیں:
1۔ کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو؟
2۔ اہلحدیث جماعت ”صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں تو اُن سے ایک سوال ہے کہ کس ”ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
3۔ اہلتشیع قرآن و سنت سے اپنا تعلق ثابت کریں کہ کونسی احادیث کی کتابیں کن راویوں کے ذریعے حضورﷺ تک اسناد سے لکھی گئیں کیونکہ اہلتشیع کی احادیث اور فقہ جعفر کا دور دور تک حضور ﷺ اور حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ثابت نہیں۔