انسانیت ہونی چاہئے
اکثر عوام یہ جُملہ کہتی ہے کہ ”انسانیت“ ہونی چاہئے حالانکہ مذہب کوئی بھی ہو انسانوں کا حق ادا کرنے کا درس دیتا ہے، اسلئے مذہب کے مطابق اپنوں اور غیروں (انسانوں) کے کام آنا ہی مذہبِ انسانیت ہے۔مذہب کو چھوڑ کر صرف انسانیت کا درس دینے والوں سے سوال ہے کہ انسانیت کی راہ میں رکاوٹیں یہ ہیں ان کو کون اور کیسے ختم کیا جائے:
1۔انسانیت کی راہ میں رکاوٹیں مُلک کے اوپر لگی غیر مُلکی معاشرتی و معاشی پابندیاں ہیں۔
2۔ نااہل اور کرپٹ صدر، وزیر اعظم، اسٹیبلشمنٹ اور سرکاری ادارے ہیں۔
3۔ پارلیمنٹ میں وزارتیں حاصل کر کے کمائی کرنے والے ہیں۔
4۔بیرون ممالک سے قرضے لینے اور اپنے مُلک سے قرضے معاف کراکر جائیدادیں بنانے۔۔
5۔ پارلیمنٹ میں انسانیت کے حق میں قانون منظور نہ کرنے والے۔۔
6۔ قانون کو نافذ کرنے والے ادارے ہیں جو رشوت لے کر انسانیت کا خون کرتے ہیں۔
7۔ غلط معاشی پالیسیاں بنانے والے ہوتے ہیں۔۔
8۔ سرکاری محکموں میں تنخواہ لے کر اپنی ذ مہ داری یا کام نہ کرنے والے بھکاری۔۔
9۔عوام کو کرپٹ ہونے کا مشورہ دینے والے اور معاشرے کو کرپٹ کرنے والا میڈیا۔۔
10۔ مساجد و مدارس میں شرعی مسائل نہ سکھانے والے ہیں۔
11۔ اپنی اولادوں کے اندر صبر و شُکر و توکل پیدا نہ کرنے والے والدین ہوتے ہیں۔
اجتماعی کاوشیں
1۔ اگر حکمران، وڈیرے اور سردار عوام کو بنیادی سہولتیں دینے کے لئے ”پارلیمنٹ“ یا اداروں سے قانون منظور کروائیں، قرضے نہ لیں، معاشی پالیسیاں بہتر بنائیں، اپنا بجٹ خود بنائیں، ادارے سختی سے اس پر عمل کروائیں اور عوام تک سہولتیں پہنچ جائیں تو انسانوں کو سکون ملے گا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سہولتیں چھین کر حکمران خود پر لگائیں اور عوام کو کہیں کہ اچھا بن کر دکھائے۔
2۔ وفاقی یا صوبائی لیول پر عوام کے مسقبل کے مالک حکمران ہوتے ہیں جنہوں نے بجلی، سوئی گیس، پانی، پٹرول، چاول، دال، آٹا، چینی وغیرہ عوام کو سستے داموں مہیا کروانی ہوتی ہے۔ اگر حکومت ہی یہ اشیاء مہنگی کرے گی تو انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نفسا نفسی پیدا ہوتی ہے۔
3۔ سڑکیں، ڈیم، ہسپتال وغیرہ بنانا یہ سب حکومت کا کام ہے، اسلئے ٹیکس کاٹ کر ضروریات زندگی کے شعبے بہتر بنائے جائیں، آج سوچیں اور کل اُس سوچ کی تکمیل کریں ورنہ کل بہت پریشانی ہو گی۔
4۔ دین کا کام صرف مولوی پر نہ چھوڑیں بلکہ روٹی، پانی، گیس، بجلی کی طرح ہر کوئی ”ایمان“ کو اپنے لئے ضروری سمجھ کر دین کو پھیلائے اور اللہ کریم کے احکامات پر عمل کرے ورنہ دین ایک پروفیشن بن جائے گا۔
5۔ عُمرہ، حج، قربانی ہونی چاہئے، اگر کوئی اس کے خلاف بولے کہ اس سے بہتر ہے کہ انسانوں کے کام آنا چاہئے تو اپنی اپنی سالانہ رپورٹ دکھائے کہ اُس نے انسانیت کے لئے کتنا پیسہ لگایا اور کہاں لگایا۔ الحمد للہ ایک مذہبی انسان نے اُس سے زیادہ انسانوں پر لگایا ہو گا۔
انفرادی کوشش
1۔ اس دُنیا میں یہ سمجھ آ گئی کہ نفسا نفسی ہے، اسلئے اس نفسا نفسی میں حکمرانوں، اداروں، علماء سوء اور غیر ذمہ دار والدین، استاد، پیر، ججز، وکیل کا رونا نہیں رونا بلکہ اپنی اولاد کو سکھانے کے لئے اپنے اوپر اسلام نافذ کرنا ہے، اپنی کمائی کے مطابق خرچہ چلانا، بچوں کو پڑھانا، تزکئیہ باطن کرنا، نیت صاف رکھنا، اللہ کریم کو یاد کرنا، اپنی اولادوں کو اپنا نمازِ جنازہ کے لئے تیار کرنا، بہن بھائیوں کو وراثت میں سے حصہ دینا، رشتے داروں اور دوستوں سے اچھا سلوک شریعت کے مطابق کرنا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کریم سے داد اور اللہ کریم کا ساتھ مانگنے کے لئے کرنا ہے۔
2۔ زکوۃ، صدقہ و خیرات ”مسجد“ میں آنے والوں، علمی کاموں، پڑھنے لکھنے والے بچوں کی تعلیم، کام کرنے والے ہُنر مندوں کو مشینری، بچوں بچیوں کا نکاح کر کے مکان بناکر دینے اور مستحق مسلمانوں کے قرضے کو معاف کرنے میں لگایا جائے۔ نیک لوگوں اور علماء حق کی مالی مددکر کے قدر کی جائے۔ دکھاوے کے میلاد، ایصالِ ثواب، تیل مہندیاں، براتیں، بسنت، ویلنٹائن ڈے، شرلیاں پٹاخے چھوڑ کر انسانوں پر پیسہ لگاکر اصل میلاد اور ایصال ثواب کیا جائے۔
3۔ امیر آدمی کو سمجھایا جائے کہ اگر پورا سال گوشت کھا سکتا ہے تو قربانی کا سارا گوشت تو اللہ کریم کی راہ میں بانٹ دے، غریب آدمی کو سمجھایا کہ اگر تو پورا سال گوشت نہیں کھاتا تو قربانی کے دنوں میں بھی نہ کھا اللہ کریم تجھے مقام توکل عطا فرمائے گا۔اسطرح ہر مسئلے میں کیا جائے۔
4۔ مفاد پرست عوام سے بچنے کی کوشش کی جائے اور ہمیشہ صرف نیک انسانوں کے کام آیا جائے، دنیا داروں سے تعلقات ضرور بنائیں اور ان سے دنیا داری دین کے مطابق کریں کیونکہ PR کا مطلب کسی سے فائدہ لینے کا نہیں بلکہ ہر ایک کو فائدہ دینے کا ہے۔
5۔ بندوں اور چندوں کے پیچھے نہیں بھاگنا بلکہ بھاگنا صرف اللہ کریم کے حُکم پر ہے۔ اسلئے بڑی بڑی جماعتیں نہیں بنانی تاکہ فخر کیا جا سکے بلکہ ہر ایک کو ایک جماعت بنانے کے لئے سوال کرنے ہیں جس کا جواب ہر مسلمان پرحاصل کرنا لازم ہے تاکہ حضورﷺ کی امت کو اکٹھا اور اپنی نسلوں کو سمجھا کر کل قیامت والے دن کامیاب ہوں۔
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
سوال: اہلتشیع کا دین اہلکتاب عیسائی اور یہودی کی طرح ہے جنہوں نے اپنے دین میں منگھڑت عقائد بنا لئے۔ صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کے سب کا قرآن اور احادیث ایک تھیں۔ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام نے جو قرآن اکٹھا کیا اُس پر ہے کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر ہیں، احادیث کی کتابیں بھی اہلسنت والی نہیں ہیں، اسلئے ان کے علماء (زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی کُتب (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) سب منگھڑت ہیں۔ اسلئے اہلتشیع اپنے علماء اور کتابوں کو حضورﷺ سے نہیں بلکہ اپنے ڈپلیکیٹ امام سے منسوب کر کے اپنے بے بنیاد دین پر ہیں۔