مزاح اور مذاق
مزاح، زندہ دلی اور خوش طبعی انسان کی خوبیوں میں شمار ہوتی ہیں اور اس حس سے خالی ہونا بھی ایک نقص ہے جو بسا اوقات انسان کو خشک مزاج بنا دیتا ہے۔ حضور ﷺ بھی مزاح کیا کرتے تھے:
1۔ بعض صحابہ کرام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ، آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں (۔طبرانی)
2۔ ایک بوڑھی عورت سے حضورﷺ نے فرمایا: بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی، اس نے عرض کی کہ ان بوڑھیوں میں کیا ایسی بات ہے جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جا سکیں گی، وہ بوڑھی عورت قرآن خواں تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے سورہ واقعہ کی یہ آیت نہیں پڑھی: جنت کی عورتوں کو ہم دوبارہ بنائیں گے اور نوخیز دوشیزہ بنا دیں گے۔ اسلئے جنت میں سب جوان ہو کر جائیں گے۔
3۔ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سواری کے لئے اونٹ مانگا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم کو سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا، اس شخص نے عرض کی کہ میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے (ترمذی)
4۔ حضور ﷺ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو محبت سے پکارتے ”یا ذالاذنین یعنی اے دو کانوں والے“ حالانکہ ہر بندے کے دو کان ہی ہوتے ہیں۔ (ابو داؤد)
5۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے گھر میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی آواز حضور ﷺ کے مقابلے میں اونچی تھی تو آپ اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے لپکے تو حضور ﷺ حضرت ابوبکر اور عائشہ رضی اللہ عنھا کے درمیان آ گئے جس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل گئے تو حضور ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مزاح فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمہیں اس شخص سے بچایا نہیں؟ (ابو داود) حالانکہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے باپ تھے۔
6۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں حضور ﷺ کے لئے چمڑے سے بنا ایک چھوٹا سائبان تھا، میں نے باہر سے عرض کی کہ حضور میں اندر آ جاؤں تو آپ ﷺ نے فرمایا آ جاؤ کیونکہ خیمہ چھوٹا تھا تو میں نے عرض کی کہ سرکار پورے کا پورا آ جاؤں۔ آپ نے بھی مسکرا کر فرمایا کہ ہاں پورے کا پورا (ابو داود)
شرعی اصول
1۔ ہنسی مذاق میں لطیفے دین، فرشتے، انبیاء کرام، اللہ کریم کا مذاق اڑانے کے لئے نہیں بنانے چاہئیں ورنہ بندہ دین سے نکل جاتا ہے۔
2۔ مزاح جھوٹ پر نہیں بلکہ سچائی پر مبنی ہونا چاہئے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو قوم کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے۔ (ابو داود)
3۔ مزاح میں کسی کو حقیر یا کمتر نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ مزاح نہیں بلکہ مذاق اُڑانا ہوتا ہے جو کہ منافقین کی ایک صفت ہے اور منافقین کا مذاق قیامت والے دن بنایا جائے گا۔
4۔ مسلمان بھائی کو بطور مذاق ڈرانا اور دھمکانا بھی نہیں چاہئے جیسا کہ ایک صحابی سوئے ہوئے تھے تو دوسرے نے اس کے اوپر ایک رسی لا کر رکھ دی جس سے وہ ڈر گیا کہ شاید سانپ ہے اور حضور ﷺ نے فرمایا یہ مذاق جائز نہیں (ابو داود) کسی کا مال کھیل کود یا سنجیدگی میں بھی لینے سے منع فرمایا گیا ہے۔
5۔ مذاق کو ایک چھیڑ بنانا بھی جائز نہیں اور مزاح وقتی طور پر دل لگی کی اور بات ختم ورنہ بندہ میراثیوں کی طرح جگتیں لگانے والا ہے جس کا نقصان ہمارے معاشرے میں نظر آ رہا ہے۔
6۔حضور ﷺ نے فرمایا: تم زیادہ مت ہنسا کرو اسلئے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (ترمذی)
7۔ مزاح کرتے وقت ہر انسان کے رتبے، عزت اور مرتبے کا خیال رکھنا چاہئے۔
مزاح: کسی نے ایک مولانا صاحب سے مذاقاً سوال کیا کہ اگر نماز کی حالت میں میرے سامنے شیر آ جائے تو میں اپنی نماز مکمل کروں یا توڑ دوں تو مولانا صاحب نے مزاح سے جواب دیا کہ اگر تمہارا وضو باقی رہ جائے تو نماز مکمل کر سکتے ہو ورنہ توڑ دو۔
مذاق کے مختلف انداز: اشارے یا باڈی لینگویج کا استعمال جیسے آنکھوں سے اشارہ کرنا یا آنکھ مارنا، منہ چڑانا، نقل اتارنا، آوازیں نکالنا، معنی خیز مسکراہٹ دینا، قہقہ لگانا، ہاتھ سے کوئی اشارہ کرنا، منہ بنانا وغیرہ۔
نجی محفلیں: سب سے زیادہ مذاق نجی محفلوں میں کیا جاتا ہے۔ ان نجی محفلوں میں شادی کی تقریب، گھر پر چھوٹی موٹی دعوتیں، دفاتر میں فارغ اوقات کی بیٹھک، دوستوں کی ملاقاتیں، طلباء کی تعلیمی اداروں میں محفلیں وغیرہ شامل ہیں۔
نشانہ : کسی ایسے کمزور شخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتا چنانچہ اس کمزور شکار کا کوئی حقیقی عیب یا اس کی کمزوری کو پکڑ کر اس پر جملے کسے جاتے ہیں، اس کو ذلیل کیا جاتا ہے اور اس کو بالکل ہی دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ اس مذاق میں ایک یا دو حضرات زیادہ مکار اور ہوشیار ہوتے ہیں جبکہ باقی لوگ ہنس کر یا کسی اور طریقے سے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔کسی پر کیا بیتی کوئی کیا جانے۔
نتائج: کسی کا مذاق اُڑانا دراصل اپنے بھائی کی عزت پر حملہ کر کے اسے نفسیاتی طور پر پریشان کرنا ہے جس سے ایک دوسرے کے ساتھ کدورتیں، رنجشیں، نفرتیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ اور سازشیں جنم لیتی ہیں جو زندگی کو جہنم بنا دیتی ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے، اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اور ان کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں۔ (بخاری)
فرق: مزاح اور مذاق میں فرق بھی ہر انسان کو سمجھ نہیں آتا بلکہ سمجھ اُس کو آتا ہے جس کو دین سے محبت ہو جائے اور انسانیت کا خیال رکھنا شروع کر دے۔ اسلئے دین میں مذاق نہیں ہے بلکہ دین غوروفکر کی عادت ڈالتا ہے۔ ہم مسلمانوں نے قرآن و سنت پر چلنے والا اہلسنت بننا ہے جس میں رکاوٹ خود دینی جماعتیں ہیں جو اپنی جماعت میں کسی کو داخلے کی شرائط نہیں بتاتے اور سوال کا جواب بھی نہیں دیتے:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
سوال: اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر ہیں، احادیث کی کتابیں بھی اہلسنت والی نہیں ہیں، ان کے علماء (زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی کُتب (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) حضورﷺ سے متصل نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ امام سے منسوب کر کے بے بنیاد دین پر ہیں۔ اہلتشیع کا دین اہلکتاب عیسائی اور یہودی کی طرح ہے جنہوں نے اپنے دین میں منگھڑت عقائد بنا لئے۔