مہر اور جہیز فاطمی
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے حق مہر کے بارے میں مختلف روایات ہیں جن میں جناب احمد رضا خاں صاحب نے اپنے فتاوی رضویہ جلد 12 میں بہت اچھے انداز میں سکھایا، اگر اس سے بہتر کہیں لکھا ہو تو کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ فتاوی رضویہ کو آسان انداز میں لکھ رہے ہیں کہ آپ نے لکھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے مہر کے بارے میں تین روایتیں ہیں:
پہلی روایت: زرہ (درِع) حق مہر
حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مال غنیمت میں ایک زرہ دی تھی،حضورﷺ نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے کیا تو فرمایا اے علی تو اپنی حطمی درِع (تلواروں کو توڑنے والی زرہ) مہر میں دے دے۔ الطبقات الکبری لابن سعد باب ذکر بنات رسول اللہﷺ دار صادر بیروت 21/8)۔ حافظ نے اصابہ میں کہا یہ حدیث مرسل صحیح ہے۔ ذرہ والا مہر سنن ابوداؤد کتاب النکاح میں بھی ہے۔ مسند احمد میں بھی درع حق مہر کی بات موجود ہے۔ ابن اسحاق نے سیرت ابن کبری میں بھی یہ روایت بیان کی ہے۔
دوسری روایت: چار سو اسی درہم حق مہر یا جہیز فاطمہ
حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے حضورﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا رشتہ مانگا تو حضورﷺ نے سکوت فرمایا اور کوئی جواب نہ دیا۔ ان دونوں ہستیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رشتہ طلب کرنے کے لئے کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ میرا نکاح فاطمہ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا تیرے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کی: گھوڑا اور ایک اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا گھوڑا تو تیرے لئے ضروری ہے لیکن اُونٹ کو فروخت کر دو تو میں نے 480درہم میں اونٹ فروخت کر دیا اور رقم حضورﷺ کی گود میں ڈال دی۔ آپ ﷺ نے ان میں سے ایک مٹھی بھر کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دے کر خوشبو خریدنے کا فرمایا۔ اور فرمایا کہ باقی رقم سے جہیز تیار کرو تو ایک بُنی ہوئی چارپائی، ایک چمڑے کا تکیہ جس میں گھجی بھری تھی، تیار کئے۔ آپﷺ نے فرمایا: اے علی جب تیرے پاس فاطمہ پہنچ جائے تو کوئی بات نہ کرنا جب تک میں نہ پہنچ جاؤں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا ام ایمن رضی اللہ عنھا کے ساتھ آئیں اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئیں اور دوسری جانب میں تھا تو اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لائے (کنز الاعمال بحوالہ مسند انس حدیث 37755 مؤسستہ الرسالتہ بیروت 13/85 – 684)
تاریخ الخمیس کی ایک روایت میں ہے کہ منگنی کی تو رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح کر دیا اور مہر 480 درہم تھا۔ اور تاریخ الخمیس میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ فروخت کی بارہ اوقیہ میں۔ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور یہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا حق مہر تھا۔
تیسری روایت: چار سو مثقال چاندی
حضورﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی مرتضی سے کر دوں تو گواہ ہو جاؤ کہ میں نے یہ نکاح چارسو مثقال چاندی پر کر دیا ہے، اگر علی راضی ہو جائیں۔ پھر حضورﷺ نے بُسر کھجوروں کا بڑا ٹوکرا طلب فرمایا اور فرمایا: اس میں سے چن چن کر کھاؤ تو ہم نے کھائیں۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو حضورﷺ مسکرائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تو اس نکاح سے راضی ہے؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرضی کی یا رسول اللہﷺ میں راضی ہوں، تو حضورﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی تم دونوں کے حال متفق فرمائے، تمہاری بزرگی کو باعزت بنائے، تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور تم میں سے اللہ تعالی کثیر طیب پیدا فرمائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم اللہ تعالی نے ان دونوں سے کثیر طیب پیدا فرمائے (الموہب اللدنیہ)
باطل: اس کے علاوہ جتنی روایتیں ہیں کہ 500درہم مہر تھا یا چالیس مثقال سونا یا 19مثقال ذہب وغیرہ سب باطل ہیں۔پہلی دو روایتوں تو اکٹھی ہو جاتی ہیں کہ مہر میں ذرہ دی جو کہ 480درہم میں بکی اور480درہم (درہم کے وزن بھی مختلف دور میں مختلف رہے ہیں حتی کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مختلف درہم سے ایک قیمت کا درہم بنایا گیا) کی 400مثقال چاندی بنتی ہے اور 400 مثقال چاندی (1700گرام یعنی 1.7کلو گرام) کی قیمت ہے جو کہ کم و بیش پاکستان 180710روپے بنتا ہے۔
جہیز فاطمی: حضورﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا حق مہر180710روپے رکھا اور مندرجہ بالا روایات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضورﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو کوئی جہیز نہیں دیا تھا بلکہ انہی پیسوں میں سے ہی چند چیزیں خریدی گئیں تھیں۔
جہیز: آپ ﷺ نے کسی بیٹی کو جہیز نہیں دیا اور نہ ہی آپ ﷺ کی کوئی بیوی جہیز لے کر آئی۔ یہ جہیز کی لعنت برصغیر میں زیادہ ہے کہ بچیوں نے تو کمانا نہیں ہوتا مگر والدین پر جہیز کا بوجھ ڈال دیا گیا اور لڑکے والے وری تیار کرتے رہیں۔ بس ساری زندگی کا حاصل یہی رہ گیا کہ کمانا، نکاح کے لئے بنانا، پھر بچے پیدا کرنا اور ان کا سوچ سوچ کر بوڑھے ہو جانا۔
اصول: اگر مرد حق مہر معاف نہ کروائے اور جہیز خود بنائے تو ہر گھر کی بچی سُکھی ہو جائے کیونکہ ہر گھر میں ایک شاہزادی موجود ہے۔
اتحاد: اسی طرح ہر مسلمان دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، وہابی نہ کہلائے بلکہ قرآن و سنت پر چل کر دکھائے تو حضور ﷺ کی امت متحد ہو جائے۔ ہر جماعت دوسروں پر الزامی سوال کی بجائے اپنے سوال کا جواب دے تو مسئلہ حل ہو جائے:
سوال: دیوبندی اور بریلوی اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قبر پر اذان، عرس، ایصالِ ثواب، میلاد پر عوام کو گمراہ نہ کریں بلکہ یہ بتائیں کہ کیا دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا اور دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف دونوں جماعتوں کا فرق ہے؟ اگر ایسا نہیں تو عوام نہیں دونوں جماعتوں کے علماء ملکر عوام کو بتائیں کہ اصل اختلاف کیا ہے؟
سوال: پاکستان کے اہلحدیث اگر سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ نہیں ہیں تو بتا دیں کہ مقلد ہونے کے باوجود تقلید کو بدعت و شرک کیوں کہتے ہیں، اگر مقلد نہیں ہیں تو بتائیں کہ کس ایک نے کس دور میں صحیح احادیث کے مطابق نماز روزے کے مسائل پوری جماعت کو سکھائے کیونکہ صحابہ کرام کے دور کے بعد تابعین کے چار ائمہ کرام کو بھی صحیح احادیث نہیں ملیں؟
سوال: اہلتشیع حضرات اہلسنت پر الزام لگانے کی بجائے قرآن و سنت سے اپنا تعلق بتا دیں۔