مُردے کے بال اور ناخن
1۔ مُردہ جب مر جاتا ہے تو اُسی وقت اُس کی آنکھیں بند کرنے کا حُکم ہے۔ پٹی یا کسی کپڑے سے ٹھوڑی اور سر کو زور سے لپیٹ کر مُنہ بند کر دیا جاتا ہے تاکہ مُنہ کُھلے کا کُھلا نہ رہ جائے اور میت بدصورت نہ لگے، دونوں انگوٹھے دونوں پاؤں کے باندھ کر پاؤں سیدھے اور ہاتھ بھی سیدھے کر دئے جاتے ہیں۔ یہ اسلئے کہ جسم ٹھنڈا ہونے پر مُردہ وہیں جَم جاتا ہے اور لاش پھر سیدھی نہیں ہوتی۔2۔ مسلم 338 اور ابو داود 4018: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔ ترمذی 2794 اور ابو داود 4017 اپنا ستر اپنی بیوی کے سوا سب سے چھپاؤ۔ ابو داود 3140 اور ابن ماجہ 1460 اپنی ران سے کپڑا نہ اُٹھاؤ اور کسی زندہ یا مردہ کی ران نہ دیکھو۔ ان احادیث کی وجہ سے میت کو نہلاتے ہوئے مرد کے گھٹنوں سے لے کر ناف تک اور عورت کے اوپر موٹا کپڑا ڈال دیا جاتا ہے تاکہ مرد کی شرمگاہ اور عورت کا جسم نظر نہ آئے، البتہ بہت سے بے وقوف ایسے ہیں جو میت کو بغیر کپڑوں کے یعنی سارے کپڑے اتار کر غسل دیتے ہیں، کیا ایسا غسل دینے والے بتا سکتے ہیں کہ کن احادیث پر عمل کرتے ہیں؟3۔ مُردے کوبال اور ناخن کاٹے 40 دن نہیں ہوئے تھے تو پھر بھی بال صاف کرنے والے کس حیثیت سے اور کس حدیث پر عمل کرتے ہوئے میت کے بال اور ناخن اُتارتے ہیں؟4۔اگر مُردے کا جسم ٹھنڈا ہو کر بے حس و حرکت ہو گیا تو کسطرح اور کہاں تک اُس کے بغلوں اور شرمگاہوں کے بال زبردستی ہاتھ کھول اور پاؤں کھول کر صاف کریں گے؟ کوئی ایسا کرنے والا بتانا پسند کرے گا کہ کونسی حدیث پر عمل کر رہا ہے؟
مصنف ابن ابی شیبہ 246/3 میں ہے کہ ایک نے کہا کہ میت کے ناخن اتار دئے جائیں گے تو امام شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت حماد کے سامنے پیش کی تو آپ نے فرمایا: مجھے بتاؤ کہ اگر اُس کا ختنہ نہیں ہو تو کیا اُس کا ختنہ بھی کرو گے؟ یہی بات امام حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے بھی فرمائی کہ میت کے ناخن اور بال نہ اُتارے جائیں (مسائل الامام احمد لابی داؤد: 246/3)
5۔ حوالہ دیں کہ کس حدیث میں فرمایا گیا کہ میت کے بال اور ناخن کاٹ کراُس کوقبر میں دفن کیا جائے ورنہ سب گناہ گار ہوں گے اور میت کو بھی بال صاف نہ ہونے کی وجہ سے عذاب ہو گا؟
6۔ اگر عذاب ہے تو ہر مسلمان کا داڑھی رکھنا واجب یا سنت موکدہ ہے، اس گناہ پر عذاب بھی ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ حضور ﷺ کو پہچاننے کی توفیق ہی نہ ملے کہ کیسا مسلمان ہے جو حضورﷺ کی صورت جیسی صورت بنانے کی جرات نہیں کر سکا۔ بال صاف کرنے والے مُردے کو داڑھی نہ رکھنے کہ گناہ اور عذاب سے کیسے بچائیں گے؟
نتیجہ: اہلسنت کے نزدیک میت کے ناخن اور بال نہیں اُتارتے کیونکہ میت پر اب یہ فرض نہیں اور زندہ پر یہ قرض نہیں ہے۔ انتقال کے بعد میت کے بالوں میں کنگھی بھی نہ کی جائے کیونکہ بال سیدھا کرنے پر زور لگے گا تو میت کو تکلیف ہو گی۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے غسل کرنا فرض واجب یا سنت موکدہ نہیں بلکہ مستحب عمل ہے۔ بالوں کے متعلق مزید یہ بھی یاد رہے:
1۔ ہر مرد کیلئے داڑھی کے بال رکھنا واجب یا سنت موکدہ اور مونچھیں پست رکھے گا۔ ہر مرد و عورت کو ابرو کے بال اُکھاڑ کر باریک بنانا جائز نہیں۔ سینے، کمر، پنڈلی اور بازو کے بالوں کے متعلق شریعت کا کوئی واضح حُکم نہیں ہے اسلئے ”ضرورت“ سمجھیں تو صاف کر لیں۔ البتہ بغلوں اور زیر ناف بال غیر ضروری ہیں جن کو جب مرضی اور ہر اُس طریقے سے صاف کر سکتے ہیں جس میں عورت و مرد کو کوئی تکلیف نہ ہو، مرد عورت والے یا عورت مرد والے طریقے (عورت کیلئے حوالہ بخاری 5246) سے صاف کر لے کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر اپنے اپنے طریقے سے کریں تو زیادہ بہتر ہے۔
2۔ شرمگاہ کے پاس کہاں سے لے کر کہاں تک غیر ضروری بال کاٹنے ہیں اس کی وضاحت موجود نہیں ہے۔ البتہ حدیث کے مطابق مرد و عورت کے بال صاف کرنے کی جگہ عانہ (پیٹ کے نیچے شرمگاہ کے پاس ہڈی ہوتی ہے، اُس پر بال اُگتے ہیں، اُس جگہ کو عانہ کہتے ہیں) ہے۔ اس کے علاوہ مرد ناف سے لے کر خصیتین (انڈوں) تک، جہاں سیاہ حلقہ پڑتا ہے، پاخانے کے مقام اور ارد گرد بھی صاف کر سکتا ہے کوئی گناہ نہیں۔ کچھ لوگ رانوں کو بھی صاف کر لیتے ہیں اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔
3۔ ناخن، بغلوں اور زیر ناف بالوں کو 40 دن کے اندر جب مرضی کاٹ سکتے ہیں اور اگر 40 دن کے اندر نہیں کاٹے گئے تو مسلمان نے حضور ﷺ کے فرمان کی مخالفت کی، ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے مگر نماز ایسی حالت میں بھی ہو جائے گی۔ یہ بال جُنبی حالت میں صاف نہیں کرنے، البتہ روزہ رکھ کر بال صاف کئے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
فرقہ واریت: دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ کے دور، اجماع امت کا دور، اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔
حل: اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء نے اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کس اصول اور کس مجتہد کے کہنے پر کیا، اگر اصول اور مجتہد کا نام بتا دیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی کہ تعلیم اہلسنت میں کوئی بدعت و شرک نہیں ہے۔ اتحاد امت صرف اور صرف دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر ہو سکتا ہے لیکن علماء اور جماعتوں پر نہیں۔
اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے کیونکہ مسلمانوں میں خلافت چلی لیکن امامت کا کوئی تصور نہیں تھا اور یہ سیدنا علی پر بہتان ہے کہ وہ پہلے امام ہیں کیونکہ آپ نے نہ تو آئینی، قانونی، شرعی طور پر آپ نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن کر کام کیا ہے۔ اہلتشیع حضرات جو امامت کو نہ مانے اس کو مسلمان نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیت مسلمان نہ رہے۔ چودہ اور بارہ کا عقیدہ اسلام کے خلاف اور ایک بے بنیاد دین کی غلطی ہے۔
4۔ کوئی دوست اس سے بہتر سمجھانا چاہے اور حوالہ دینا یا حوالہ لینا چاہے تاکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی اصلاح کر سکے تو کمنٹ سیکشن میں اصلاح کرے کیونکہ سوال کا جواب ملنا چاہئے ورنہ مسلمان شک میں زندگی گذارتا ہے۔ اسلئے اس پیج پر بھی دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث جماعتوں سے سوال ہے کہ بریلوی دیوبندی یا اہلحدیث بننا لازم نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا چاہئے، اسلئے ہر جماعت اپنے حصے کے سوال کا جواب دے اور الزامی سوال نہ کرے:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
سوال: اہلتشیع کا دین اہلکتاب عیسائی اور یہودی کی طرح ہے جنہوں نے اپنے دین میں منگھڑت عقائد بنا لئے۔ صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کے سب کا قرآن اور احادیث ایک تھیں۔ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام نے جو قرآن اکٹھا کیا اُس پر ہے کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر ہیں، احادیث کی کتابیں بھی اہلسنت والی نہیں ہیں، اسلئے ان کے علماء (زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی کُتب(الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) سب منگھڑت ہیں۔ اسلئے اہلتشیع اپنے علماء اور کتابوں کو حضورﷺ سے نہیں بلکہ اپنے ڈپلیکیٹ امام سے منسوب کر کے اپنے بے بنیاد دین پر ہیں۔