نام رکھنا
1۔ قرآن مجید سے بچے کا “نام” نکال کر رکھنے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ بچے کا نام بھاری نہیں ہوتا اور نہ ہی نام کی وجہ سے بچہ بیمار ہوتا ہے۔ بچے کا نام تاریخ پیدائش، ستاروں، علم الاعداد، برجوں کے حوالے سے رکھنا قرآن و سنت میں نہیں آیا۔ نام کا پہلا حرف (ب، س یا ز ) پوچھ کر رکھنا، ان سب مسائل کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے۔
2۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اشیاء کے نام بتانے پر فرشتوں پر فضیلت دی گئی۔ حضرت یحیی علیہ السلام کا نام اللہ کریم نے یحیی رکھا اور اُس سے پہلے کسی کا نام یحیی نہیں تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما کے نام ”حرب“ رکھا مگر حضورﷺ نے بدل کر حسن و حسین نام رکھے۔البتہ صحابہ کرام نے حسن و حُسین کی بجائے اپنی اولادوں کے نام ابوبکر، عمر، عثمان و علی رکھے۔
3۔ نام، باپ کا نام، ذات، مسلک و مذہب، مُلک، تعلیم، پیشہ ہرانسان کا تعارف ہے، البتہ آج کے دور میں نیا نام رکھنا فیشن، دوڑ اورکاروبار بن گیا ہے۔ یورپ میں کاروباری عوام اپنی کمپنی، دفتر، دُکان کا نام اچھوتا رکھنے کے لئے پیسے دیتے تھے اور اب اپنے بچوں کے اچھوتا نام رکھنے پر پیسہ دیتے ہیں۔ البتہ پڑھا لکھا معاشرہ ہر ایک کو اچھے نام سے پکارتاہے اور للو، کلو، پپو ناموں سے پُکارنا جائز نہیں ہے۔
4۔قرآن وسنت کے مطابق بالترتیب بہتر نام عبداللہ، عبدالرحمن، پھرنبیوں، صحابہ، اہلبیت، اولیاء کرام اور با معنی ناموں پر نام رکھنا ہے۔ قیامت والے دن ہر ایک کو باپ دادا کے نام سے پُکارا جائے گا اور ماں کے نام سے پُکارنے والی روایت ضعیف ہے۔ عورت کی نکاح سے پہلے پہچان باپ کے نام سے اور نکاح کے بعد پہچان خاوند کے نام سے ہوتی ہے، اسلئے خاوند کا نام ساتھ لگانے میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔
5۔ محمد، احمد نام رکھنا جائز ہے۔عبدالنبی اور عبدالرسول نام رکھنا جائز ہے کیونکہ عبد کا مطلب غلام بھی ہوتا ہے اسلئے عبدالنبی اور عبدالرسول کا مطلب حضورﷺ کا غلام۔بُرا، بڑائی اور تکبر والے نام جیسے شہنشاہ، ابو الحکم، شہنشاہوں کا شہنشاہ وغیرہ نہیں رکھنے چاہئیں۔ پرویز کے معنی نہایت اعلی، مہذب، فاتح، عزیز کے ہیں، البتہ شاہ ایران پرویز نے حضورﷺ کا خط پھاڑا تھااور قیصر روم کے بادشاہوں کا لقب تھا، اسلئے یہ دونوں نام نہ رکھے جائیں تو بہتر ہے۔
6۔ حضورﷺ ہر ایک شے کا نام رکھتے جیسے حضور ﷺ کے(1) عمامہ شریف کا نام سحاب تھا (2) دو پیالے لکڑی اور پتھر کے تھے ایک کا نام ریان اور دوسرے کا نام مضیب تھا۔(3) آبخورہ تھا جس کا نام صادر تھا (4) خیمہ تھا جس کا نام رِکی تھا (5) آئینہ تھا جس کا نام مُدلہ تھا (6) قینچی تھی جس کا نام جامع تھا (7) جوتی مبارکہ تھی جس کا نام ممشوق تھا (8) دو ذرہیں تھیں ذات الفصول اور فضہ(9) پانچ نیزے تھے المثوی المنثنی، النبعہ البیضاء، العنزۃ،الھد، العمرۃ۔(9) سات گھوڑوں کے نام السکب، سجد، لزاز، الطرب، الورد وغیرہ وغیرہ
7۔ میلاد، تقلید، عرس، قل و چہلم، تیجہ، دسواں وغیرہ سب نام ہیں اور کسی بھی عمل کا نام رکھنا جیسے نمازوں کے نام فجر، ظہر، عصر، مغرب و عشاء حضور ﷺ کی سنت ہے۔ البتہ اہلسنت علماء کرام نے اس میں کیا اعمال کرنے کو جائز قرار دیا اور شریعت کے خلاف عوام جو کر رہی ہے اُس کو ملکر ختم کرنا ہو گا۔
8۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، وہابی اور شیعہ “نام” کی ضرورت نہیں بلکہ قرآن و سنت پر جو ہے وہ مسلمان ہے۔ اسلئے اتحاد امت کے لئے یہ سوال دیوبندی و بریلوی علماء، اہلحدیث اور شیعہ سے کر کے ان کو ایک کریں:
1۔ کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو؟
2۔ اہلحدیث جماعت بالکل ”صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں تو اُن سے ایک سوال ہے کہ کس ”ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا اور محدثین نے مختلف روایات کو صحیح قرار دیا؟
3۔ اہلتشیع قرآن و سنت سے اپنا تعلق ثابت کریں کہ کونسی احادیث کی کتابیں کن راویوں کے ذریعے حضورﷺ تک اسناد سے لکھی گئیں کیونکہ اہلتشیع کی احادیث اور فقہ جعفر کا دور دور تک حضور ﷺ اور حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ثابت نہیں۔