Namaz Ke Rakat Ka Saboot (نمازوں کی رکعتوں کا ثبوت)

نمازوں کی رکعتوں کا ثبوت

1۔ قرآن میں ”اقیموا لصلوۃ“نماز قائم کرنے اور ”صل“ نماز پڑھنے کا حُکم بھی ہے، البتہ حضور ﷺ کی طرح نماز پڑھنے کا طریقہ کار چار ائمہ کرام (امام ابو حنیفہ، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تقلید میں قرآن و سنت کے مطابق عوام کوملتا ہے کیونکہ محدثین نے احادیث بعد میں اکٹھی کیں اور فقہاء کرام نے اُس سے پہلے ہی احادیث پر تحقیق کر کے اصول بنائے اور عوام کو آسان انداز میں سمجھایا۔

2۔ جناب غلام احمد پرویز صاحب نے قرآن کی تفسیر عربی لغت (dictionary) میں کی اور احادیث کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ 300سال بعد لکھی گئیں حالانکہ احادیث اُس سے پہلے بھی موجود تھیں اور نماز روزے و دیگر مسائل پر عمل احادیث کے مطابق ہو رہا تھا۔ البتہ غلام احمد پرویز صاحب کی تقلید کرنے والے حضورﷺ کی اتباع نہیں کرتے بلکہ منکر احادیث اور منکر رسول ہیں۔

3۔ پانچ وقت کی نماز کی فرضیت کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے جیسے:

پانچ نمازیں: بخاری 7372: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ نے فرمایا کہ یمن میں عوام کو بتانا کہ اللہ کریم نے تم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔ بخاری 3221میں بھی پانچ وقت کی فرض نماز کا وقت حضور ﷺ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا۔ بخاری 3935میں بھی پانچ وقت کی فرض نمازوں کی رکعات بتائی گئی ہیں۔

سنت موکدہ: ترمذی 415، مسلم 730، ابو داود 1250: بارہ رکعتیں سنت موکدہ (چار رکعت ظہر سے پہلے، دو ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو نماز فجر کی) ادا کرنے والوں کیلئے جنت میں گھر کی بشارت ہے۔ فجر کی دو رکعتوں کو ہمیشہ حضورﷺ نے ادا کیا (بخاری 1159)۔

نفل: ترمذی 428، ابوداود 1269: حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرتے تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام قرار دیا“۔ یہ ثبو ت ہے کہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ ظہر اور دو رکعت سنت موکدہ ظہر اور دو نفل فرض نماز کے بعد ہیں۔

سنت غیر موکدہ عصر: ترمذی 430، ابو داود 1271: حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو عصر کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھتا ہے۔ اگر وقت کم ہو تو دو رکعت سنت غیر موکدہ عصر پڑھ لیں یہ بھی ابوداود 1272حدیث سے ثابت ہے۔

مغرب کی سنت موکدہ: بخاری 1180اور مسلم 1699کے مطابق حضورﷺ مغرب کی نماز کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ادا کرتے۔ مغرب کے دو نفلوں کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ”جس نے مغرب کی نماز کے بعد چار رکعت پڑھیں تو ایک غزوے کے بعد ایسے ہے جیسے دوسرا غزوہ کرنے والا۔

عشاء کی سنت غیر موکدہ: چار رکعت سنت موکدہ کا ثبوت حضورﷺ کی حدیث سے نہیں ملتا (اگر کسی کی نظر میں حوالہ ہو تو ضرور بتائے)البتہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔

عشاء کی سنت موکدہ اوردو نفل: بخاری 1180، مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔

نماز وتر: وتر ایک علیحدہ نماز ہے جس کا ثبوت ابو داود 1419 اور 1416میں موجود ہے، اسلئے بخاری 541کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ، سونے سے پہلے، سونے کے بعد، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازوتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی۔

جمعہ کے بعد: آثار صحابہ کرام و احادیث سے جمعہ کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت موکدہ جمعہ کا ثبوت ملتا ہے اور نماز جمعہ کے بعد بخاری 895 اورمسلم 882 کے مطابق دو رکعت سنت موکدہ اور مسلم 881سے چار رکعت جمعہ سنت موکدہ کا ثبوت ملتا ہے۔ اہلسنت دونوں احادیث پر عمل کر کے جمعہ کی چار اور دو رکعت سنت موکدہ یعنی 6رکعت سنت موکدہ ادا کرتے ہیں اور آخر میں دو رکعت نفل ہیں۔

تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کے نفل اللہ کا مقرب بندہ بننے کے لئے ادا کرنا مستحب ہے۔

اہلحدیث جماعت: اہلسنت کے نزدیک چار ائمہ کرام کی تقلید قرآن و سنت کے مطابق حضور ﷺ کی اتباع کرنے کے لئے کرنی واجب ہے۔ البتہ اہلحدیث حضرات تقلید کو بدعت و شرک بھی کہتے ہیں مگر اس سوال کا جواب نہیں دیتے:

سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟

البتہ دیوبندی اور بریلوی بھی کوئی مسلک و مذہب نہیں ہیں بلکہ ہر مسلمان کو قرآن و سنت پر چلنے کا حکم ہے۔ اسلئے دیوبندی اور بریلوی جماعتوں سے سوال ہے:

سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔

اہلتشیع خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر مسلمان تو وہ ہے جو قرآن میں تحریف کا قائل نہ ہو۔ اہلتشیع علماء نے اپنی صحیح احادیث کی کتابوں میں قرآن کی تحریف کا لکھا ہوا ہے اور ان علماء اور کتابوں کو کفریہ بھی نہ مانا جائے تو ایسوں کو مسلمان کیسے مانا جا سکتا ہے اسلئے سوال ہے:

سوال: اہلتشیع قرآن و سنت سے اپنا تعلق ثابت کریں کہ کونسی احادیث کی کتابیں کن راویوں کے ذریعے حضورﷺ تک اسناد سے لکھی گئیں کیونکہ اہلتشیع کی احادیث اور فقہ جعفر کا دور دور تک حضور ﷺ اورحضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ثابت نہیں۔ اسلئے عیسائی حضرات کی طرح اہلتشیع بھی قرآن و سنت میں تحریف کر کے ایک نیا دین بنا چُکے ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general