سود (interest)
1۔ سود کی حُرمت قرآن مجید اور احادیث میں موجود ہے، قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آخری وقت میں ہر بندہ کسی نے کسی ذریعے سے سود میں مبتلا ہو گا۔ پہلے بینک کی نوکری کرنے کو جائز نہیں سمجھا جاتا تھا اور اب بھی اگر کسی کو مجبوری نہ ہو تو وہ بینک کی نوکری نہ کرے۔
2۔ البتہ ضرورت کے تحت بینک سے کام پڑتا ہے جو کہ ایک مجبوری ہوتی ہے جیسے بینک سے Letter of credit لینا پڑتا ہے، بینک میں بل جمع کروانے ہوتے ہیں، بائک وغیرہ کی انشورنس کروانی ہوتی ہے۔ سود کی مختلف قسمیں ہیں:
مہاجنی سود: عوام اپنی ذاتی ضرورت کے لئے سرمایہ دار افراد سے قرضہ لیتی ہے اور اُسی رقم پر ماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتی رہتی ہے۔
بینک کا سود: عوام بینکوں سے تجارت یا زراعت کے لئے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔
فکس ڈیپازٹ: عوام بینکوں میں روپیہ رکھ کر پانچ یا دس سال کے لئے جمع کروا دیتے ہیں اور انہیں 15%یا12%سود دیتے ہیں۔ کسی بیوہ یا کمزور کی مجبوری ہو سکتی ہے مگراس سے بچنا بہتر ہے۔
لائف انشورنس: کسی ڈاکٹر سے اس امید کے ساتھ کے بندہ اتنے سال زندہ رہے گا اور کمپنی اس کے ساتھ معاہدہ کر لیتی ہے، دس سال تک اتنے پیسے دے گا، اگر بندہ اس دوران فوت ہو جائے تو کمپنی اس کے ورثاء کو کچھ نہیں دے گی، اگر دے گی تو اس کی شرائط ہوتی ہیں، اس سے رقم ڈوب بھی جاتی ہے۔ اس میں بہت سے خامیاں ہیں اور بعض اوقات ورثاء ہی بندے کو قتل بھی کروا دیتے ہیں۔
کمیٹی کا سود: بولی والی کمیٹی اُٹھانے والے بھی سودی کام کررہے ہیں اور یہ بھی بہت عام ہے۔
شئیر مارکیٹ: بعض علماء نے اس کو بعض شرائط کے تحت جائز قرار دیا ہے، البتہ شئیرز کا کام کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ بھی جوا بازی ہے۔ کمپنی فائدے میں ہو تو کیا ہوتا ہے اور کمپنی ڈوب جائے تو کیا ہوتا ہے۔
کریڈٹ کارڈ: کریڈٹ کارڈ میں بھی لمٹ سے زیادہ چیزیں پرچیز نہ کریں اور پیسے پہلے جمع کروا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ سود پڑ جاتا ہے۔
انعامی بانڈز: کچھ علماء انعامی بانڈز کو جائز قرار دیتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں یہ بھی جوئے کی ایک قسم ہے اسلئے اس سے بچیں۔
ریفل سئیور ٹکٹ وغیرہ جائز نہیں ہیں۔
قسطوں پر گاڑی یا چیزیں: قسطوں پر گاڑی چند شرائط پر جائز ہیں:
قیمتوں میں فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمت مقرر کی جائے، ہر ماہ کتنی قسط، کتنے ماہ اور کس تاریخ کو دی جائے گی اور مقررہ تاریخ پر اگر نہ دی جا سکے تو قیمت میں اضافہ نہیں کرنا کیونکہ وہ سود ہے۔
کرنسی کی ڈی ویلیو: کرنسی کی ڈی ویلیو سے بچنے کے لئے سودے ڈالر میں کئے جائیں یعنی ڈالر کے حساب سے یا سونے کے حساب سے کئے جائیں تاکہ کرنسی اوپر نیچے ہو تو ڈالر یا سونے میں رقم واپس کی جائے۔
تکافل: تکافل لائف انشورنس کا متبادل ہے۔ کچھ علماء نے تکافل کو جائز قرار دیا ہے اور کچھ علماء نے اس پر تنقید بھی کی ہے۔ عوام اپنی اپنی جماعت کے مفتیان عظام کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔
گروی مکان: گروی مکان دینا جائز نہیں ہے۔ البتہ کرائے پر مکان دینا جائز ہے۔
فتوی: اگرہم نے غلطی کی ہے تو جید مفتیان عظام کا فتوی دکھاکر ہماری بھی اصلاح کریں۔
مجبور اور مُختار: ہر بندہ اگر مجبور نہیں ہے تو اپنوں کو سود لینے نہ دے، رسم و رواج اور غیر ضروری کاموں پر پیسہ نہ لگائے، کسی کو کاروبار کروائے، نوکری دلوائے، کسی یتیم کو پیروں پر کھڑا کرے، بہنوں اور بیٹیوں کو کاروبار میں شریک کرے، قرضہ دے کر واپسی کی اُمید نہ رکھے اس صورت میں دے۔ کسی سے دنیاوی تعلقات بنانے کے لئے کام نہ کرے بلکہ رب کو پانے کے لئے کام کرے، یہ من چلے کے سودے ہیں جس کا آخرت میں فائدہ ہو گا۔
اتحاد امت: حضور ﷺ کی امت کو عوام اور علماء نے اکٹھا کرنا ہے، اسلئے دیوبندی بریلوی اور اہلحدیث بتائیں کہ اتحاد کا ایجنڈا کیا ہے؟ اختلاف بتائیں، اختلاف مٹائیں اور مسلمان بنائیں ورنہ رافضیت و قادیانیت کو پروموٹ یہی تینوں جماعتیں کرتی ہیں کیونکہ پوچھا جاتا ہے کہ کونسے اہلسنت ہو اے مسلمانوں جو ایک دوسرے کو کافر بدعتی و مشرک کہتے ہیں۔