سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا گیا؟
عام آدمی کو یہ واقعات سُننے، پڑھنے اور ویڈیوز دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ اہلسنت کی کتابوں میں لکھا ہے (یعنی اہلسنت نے خود اپنے خلاف لکھا ہے)کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر حضرات علی، طلحہ، زبیر وغیرہ کو دھمکیاں لگائیں، لڑائی بھی کی، گھر کو آگ لگائی گئی یا دروازہ توڑا گیا جو کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پیٹ پر لگا اور آپ کا بچہ پیٹ میں شہید ہو گیا، اسلئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شہادت کے ذمہ دار بھی یہ خلفاء ہیں۔
اس کی کہانی یہ بنائی جاتی ہے کہ حضرت علی، طلحہ، زبیر، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنھم بھی ”خلیفہ“ بننے کے امیدوار تھے اور یہ حضرات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میٹنگ کرتے تھے جو کہ لازمی ہے کہ خلیفہ وقت کو ہٹانے کے لئے ہوں گی جس پر حضرت عمریا کہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنھما کا نام آتا ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔
تحقیق یہ کہتی ہے کہ حضرت فاطمہ، حضرت علی، حسن و حُسین رضی اللہ عنھم کے امام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے باغ فدک کی مینجمنٹ کا مطالبہ کیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلیفہ سمجھ کر، امام سمجھ کر، بھائی سمجھ کر یا بڑا سمجھ کر مطالبہ کیا تھا یا نعوذ باللہ دُشمن سمجھ کر کیا تھا؟ ہمارے نزدیک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے ان کو اپنا امام سمجھ کر کیا تھا اور مان کے ساتھ کیا تھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ایمانی دلائل سُن کر پھر کبھی باغ فدک کا نام نہیں لیا۔
البتہ عام آدمی جب یہ دروازہ توڑنے والی یا آگ لگانے والی باتیں سُنے گا، کتابوں کے سکین حوالے دیکھے گا اور ایک داڑھی والا نورارنی چہرے والا یہ بیان کر رہا ہو گا تو اُس کا دماغ خراب ہو جائے گا کہ کیا حضور ﷺ کے صحبت یافتہ مسلمان ایسے تھے اور کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ کیا قرآن اور احادیث ایسے بدری، احد، بیعت رضوان، فتح مکہ، غزوہ حنین کرنے والے صحابہ کرام کو رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ کہہ کر جنتی ہونے کی بشارت دے رہا ہے؟ کیا نعوذ باللہ یہ سازشی لوگ تھے؟
ہر مسلمان کو مشورہ ہے کہ یہ کتابیں اور رافضی و نام نہاد سُنی علماء و پیر کی ویڈیوز دیکھ کر بے ایمان ہونے سے پہلے غور کرے کہ کیا حضور ﷺ کے بعد کا دور خلافت راشدہ کا دور نہیں ہے؟ کیا حضرت ابوبکر، عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنھم آپس میں رشتے دار نہیں ہیں؟ کیا قرآن و سنت میں ان کیلئے جنت کی بشارتیں نہیں ہیں؟ کیا قرآن کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام اور اہلبیت گناہ گار لوگ ہیں؟ کیا یہ سب آپس میں لڑنے اور جھگڑنے والے اقتدار پسند لوگ تھے جن کا مقصد دین نہیں تھا؟
جب غور کریں گے تو سمجھ آئے گی کہ ان صحابہ کرام اور اہلبیت کو چھوڑ کر نہ تو ہمیں قرآن ملے گا اور نہ ہی احادیث ملیں گی اور یہی شیطانی لوگ چاہتے ہیں۔ اسلئے یقین کریں کہ قرآن و سنت کے رکھوالے سچے ہیں، حضور ﷺ کے دور کے بعد کا دور ختم نبوت والا دور ہے، جنگوں کا دور ہے، اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والا دور ہے۔ اہلبیت، صحابہ کرام اور عشرہ مبشرہ سب جنتی ہیں۔
خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے قرآن، تاریخ او ر احادیث کا سارا ذخیرہ پڑھکر قانون بنایا تھا کہ صحابہ کرام کے صحابہ کرام کے ساتھ مسائل، صحابہ کرام کے اہلبیت کے ساتھ معاملات اور اہلبیت کے اہلبیت کے ساتھ مشاجرات پر خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ وہ سارے مجتہد ہیں اور ان کے حق میں قرآن و سنت موجود ہے۔ موجودہ دور میں نام نہاد سنی علماء اور پیر حضرات رافضیوں سے ملکر ان واقعات اور احادیث کو اچھال رہے ہیں تاکہ عوام کو مذہبی انتشار کا شکار کریں۔
عوام کو کیا علم کے صحیح احادیث اور ضعیف احادیث میں کیا فرق ہے، کیا کمزور روایات پر قانون بنتے ہیں؟ اسلئے یہ یاد رہے کہ ایسے واقعات:
۱) بے بنیاد مذہب اہلتشیع کی چار مستند ترین کتب احادیث اصول اربعہ میں موجود نہیں ہیں۔
۲) اہلسنت کی چھ مستند کتابوں میں موجود نہیں ہیں۔
۳) بارہ امام میں سے کسی ایک کا قول بھی ان واقعات کے متعلق موجود نہیں ہے۔
۴) چاروں خلفاء آپس میں اس معاملے پرنہیں لڑے تو ہم کیوں لڑ رہے ہیں اور یہ مقدمہ کس نے کیا اور کس کے خلاف ہے۔
نتیجہ: اسلئے بے سند اور کمزور روایات پر کوئی قانون یا اصول نہیں بنتا بلکہ ان کو بیان کرنا جُرم ہے۔
پریشانی: یہ پریشانی تب تک رہے گی جب تک اہلسنت کہلوانے والی جماعتیں اپنے اپنے سوال کا جواب نہیں دیں گی:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔ کیا علماء بتانا پسند کریں گے اور عوام پوچھنا پسند کرے گی؟
سوال: اہلحدیث جماعت تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور اہلحدیث جماعت کہتی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے مقلد ہیں تو اس پر ایک ضروری سوال ہے کہ کیا حضور ﷺ، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین نے بخاری و مسلم سے پہلے صحیح احادیث کے مطابق نماز ادا کی؟ اگر نہیں تو صحاح ستہ کے کتنے عرصے بعد کس ”مجتہد“ نے اہلحدیث جماعت کو ”صحیح احادیث“ سے نماز سکھائی اس کا نام بتا دیں۔
تجزیہ: اہلتشیع بے بنیاد مذہب اسلئے ہے کہ قرآن و سنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا اور نہ ہی اہلبیت (حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین و دیگر امام رضی اللہ عنھم) کا تعلق ان کتابوں (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) اور اہلتشیع علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابوبریدہ) سے ہے، اسلئے اہلتشیع ختم نبوت کے منکر اور ڈپلیکیٹ علی کے حوالے سے اپنے دین کی عمارت بے بنیاد بنا کر بیٹھے ہیں۔