بارہ امام اور ایک معصوم
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی آل اولاد پر کوئی وحی نہیں آتی تھی اور نہ ہی ان کا قول حضور ﷺ کے برابر ہے۔ قرآن میں بھی حضور ﷺ کی اتباع کا حکم ہے، چاروں خلفاء کرام قرآن و سنت پر تھے اور اور اہلسنت بھی قرآن کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام، محدثین و مفسرین اور خلافت عثمانیہ، اجماع امت، اہلسنت علماء کرام کے متفقہ عقائد پر ہیں۔
اسلئے اہلسنت صرف حضورﷺ کومعصوم مانتے ہیں لیکن اہلتشیع بے بنیاد مذہب بارہ امام کو معصوم مانتے ہیں مگر فلاسفی یہ نہیں سمجھ آتی کہ حضور ﷺ کی ازواج معصوم نہیں تو پنجتن کو کیوں معصوم مانا اور اگر پنجتن کو معصوم مانا تو پھر حضرت فاطمہ، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کی ساری آل معصوم کیوں نہیں؟ اسلئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
پہلے امام: حضرت علی رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بچوں میں سب سے پہلے حضور ﷺ پر ایمان لانے والے، بہادر، نڈر، اور حضور ﷺ کے داماد ہیں۔ آیت تطہیر میں، حدیث کساء میں اور آیت مباہلے میں شامل ہیں۔ غدیر خم پر ہر الزام سے پاک کر کے حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولا فرمایا، البتہ یہ اعلان امامت یا خلافت کا ہر گز نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضورﷺ کے وصال کے بعدحضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا بہادر مومن حضور ﷺ کے فرمان پر اعلان نہ کرتے تو قرآن و سنت کے منکر ہوتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ازواج و اولاد کے نام یہ ہیں:
پہلی بیوی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ سے ہوا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیات تک کسی اور سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح نہیں کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے حضرات حسن، حسین رضی اللہ عنہما اور بعض نے کہا: محسن رضی اللہ عنہ بھی پیدا ہوئے مگر بچپن میں انتقال کر گئے اور دو بیٹیاں: حضرت زینب کبریٰ، حضرت ام کلثوم کبریٰ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔
دوسری بیوی: ام البنین بنت حزام عامریہ رضی اللہ عنہا سے چار فرزند حضرت عباس جو ابوالفضل اور علمدار کربلا کے نام سے مشہور تھے، حضرت جعفر، حضرت عبداللہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے، یہ سب کربلا میں شہید ہوگئے تھے۔
تیسری بیوی: لیلیٰ بنت مسعود تیمیہ رضی اللہ عنہا سے دو بیٹے عبیداللہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے، یہ دونوں بھی کربلا میں شہید ہوگئے تھے۔
چوتھی بیوی: اسما بنت عمیس خثعمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے، جن سے حضرت محمد، عبد اللہ اور عون رضی اللہ عنھم پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے، جن سے حضرت محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے اور تیسرا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، جن سےحضرت یحییٰ اور محمد اصغر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ (بعض نے محمد اصغر کی جگہ عون رحمتہ اللہ علیہ لکھا ہے)۔
پانچویں بیوی: ام حبیبہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے حضرت عمر اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
چھٹی بیوی: ام سعید بنت عروہ رضی اللہ عنہا سے دو لڑکیاں ام الحسین اور رملہ کبریٰ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔
ساتویں: محیاۃ بنت امراءالقیس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئیں۔
آٹھویں: امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا جو حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے داماد اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے وصال کے بعد حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا اور ان سے محمد اوسط رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
نویں: خولہ بنت جعفر حنفیہ رضی اللہ عنہا سے محمد اکبر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو محمد حنفیہ کے نام سے معروف ہیں۔
لونڈیاں: متعدد با ندیوں سے پیدا ہونے والی آپ کی اولاد کے نام :حضرت ام ہانی، حضرت میمونہ، حضرت زینب صغریٰ، حضرت رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، حضرت فاطمہ، امامہ، حضرت خدیجہ، حضرت ام الکبریٰ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام جعفر، حضرت ام جمانہ، حضرت نفیسہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ٹوٹل: تاریخ کی کتابوں سےحضرت علی رضی اللہ عنہ کے کل 14 لڑکے اور 17 لڑکیوں کا علم ہوتا ہے۔ ان میں سے پانچ (حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور محمد بن الحنیفہ، عباس، عمر رحمتہ اللہ علیھم) سے سلسلہٴ نسل جاری رہا۔ حضرت عباس، حضرت عمر بن علی اور حضرت محمد بن الحنفیہ کی نسل علوی کہلاتی ہے مگر یہ سب معصوم نہیں ہیں۔
حوالہ جات: (1) ابن کثير، البدايه و النهايه، 7: 332، بيروت، مکتبه المعارف (2) ابن قتيبه، المعارف، 1: 210، القاهره، دارالمعارف (3) ابن کثير، الکامل في التاريخ، 3: 262، بيروت، دارالکتب (4) تاریخ اسلام: شاہ معین الدین ندوی، ص: 328)۔
دوسرے امام: حضرت حسن رضی اللہ عنہ
حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے نواسے، حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے بڑے بیٹے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ حدیث کساء میں، آیت تطہیر اور مباہلے میں شامل ہیں۔ تاریخ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ پرجھوٹا الزام ہے کہ آپ نے 99 یا 150 یا 300 کے قریب عورتوں سے نکاح کئے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ملتے ہیں:
۱۔ حضورﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت فضل رضی اللہ عنہ جو حضورﷺ کے بعد از وصال غسل دینے والوں میں شامل تھے، اُن کی بیٹی ”ام کلثوم“ رضی اللہ عنھا سے نکاح ہوا۔
۲۔ خولہ بنت منظور سے نکاح ہوا جس سے حسن مثنی پیدا ہوئے۔ خولہ پہلے حضرت طلحہ کے بیٹے محمد کے نکاح میں تھیں جو جنگ جمل میں شہید ہو گئے اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔
۳۔ ام بشیر بنت ابی مسعود انصاری سے نکاح ہوا جس سے زید، ام الحسن و ام الحسین پیدا ہوئے۔
۴۔ ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ (عشرہ مبشرہ) سے طلحہ، حسین(لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ام اسحاق کا نکاح ہوا۔
۵۔ ام ولد یا رملہ جن سے حضرت ابوبکر بن حسن پیدا ہوئے اور کربلہ میں شہید ہوئے۔
۶۔ ام فروہ سے قاسم پیدا ہوئے یہ بھی کربلہ میں شہید ہو گئے۔
۷۔ عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ، جعدہ بنت اشعث، ہند بنت سہیل بن عمرو، ام عبداللہ بنت سلیل بن عبداللہ سے نکاح ہوا۔ بعض دیگر ازواج سے عبداللہ، عبدالرحمن، ام عبداللہ، ام سلمہ و رقیہ پیدا ہوئے۔
ٹوٹل: ابن جوزی، ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی تعداد میں 15 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہیں۔ کربلہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے حضرت قاسم، ابوبکر اور عبداللہ شہید ہوئے۔ حضرت حسن مثنی کا نکاح حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی فاطمہ سے ہوا جن سے عبداللہ، ابراہیم، حسن و زینب رحمتہ اللہ علیھم پید ا ہوئے۔ حسنی سادات کہلانے والے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ۔ اسلئے اہلتشیع ان سے بہت نفرت کرتے ہیں کیونکہ اہلسنت ہیں۔ دوسری نسل حضرت زید بن حسن سے زیدی حسنی نسل چلی ہے مگر حسن مثنی اور حضرت زید بن حسن رحمتہ اللہ علیھما اہلتشیع کے نزدیک معصوم نہیں ہیں۔
وفات: حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا، کس نے دیا، کس کے کہنے پر دیا اس کا علم کسی کو نہیں جیسے اس پیج کی پوسٹ “شہادت حسن رضی اللہ عنہ اور زہر“ کا لنک مانگ سکتے ہیں۔ تاریخ پیدائش اور وفات میں اختلاف ہے مگر اہلتشیع حضرات کے نزدیک پیدائش 15رمضان المبارک اور وفات 28 صفر المظفر کو ہوئی۔اسلئے ہر سال حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی شہادت منا کر چالیسویں پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا غم (رولا) منا کر اہلتشیع کا دین ختم ہو جاتا ہے۔ صفر کے مہینے میں کوئی الائیں بلائیں نہیں ہوتیں بلکہ اہلتشیع ہی اسلام کے لئے الا بلا ہے جو صرف عوام کو صفر میں ڈراتی ہے۔
تیسرے امام: حضرت حسین رضی اللہ عنہ
حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے نواسے، حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے بیٹے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ حدیث کساء میں، آیت تطہیر اور مباہلے میں شامل ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ملتے ہیں:
۱۔ حضرت شہر بانو جو ایران کے آخری بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھی۔ ایرانی ایک کہانی (لنک مانگ سکتے ہیں) میں بیان کیا تھا کہ حضرت عمر کا ایران کو فتح کرنا، تین شہزادیوں کو بانٹنا، بدلے میں شہادت عمر و عثمان و عمار ابن یاسر و حسن و حسین رضی اللہ عنھم میں ایران اور اس کے ایجنٹوں کا ہاتھ ہے۔ حضرت شہر بانوکا کردار کس کو علم ہو تو بتائے کہ کیا حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ کو پیدا کر کے وفات پا گئیں؟ کیا کربلہ میں تھیں یا نہیں؟ کیا کربلا میں بدلہ لینے کے بعدحضرت شہر بانو کو ایرانی واپس لے گئے (کسی کو حقیقت کا علم ہو تو بتائے)۔ البتہ حضرت علی(اوسط) بن حسین المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ہیں اور اسلئے اہلتشیع کے بارہ امام کا کھیل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
۲۔ حضرت لیلی بنت مرہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بھتیجی ہیں جن سے حضرت علی اکبر (تقریباً 26 سال کی عمر میں کربلا میں شہید ہو گئے) پیدا ہوئے۔ (کتاب نسب قریش از مصعب زبیری)
۳۔ حضرت رباب بنت امراء القیس بن عدی کے ہاں حضرت سکینہ (چار سال کی عمر میں وفات پا گئیں اورشام میں باب صغیر میں مدفون ہیں)، حضرت عبداللہ بن حسین المعروف علی اصغر(کربلہ میں 6ماہ کی عمر میں شہید ہوئے) اور رقیہ بنت حسین (چار سال کی عمر میں وفات پا گئیں) پیدا ہوئے۔
۴۔ ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ(عشرہ مبشرہ) سے طلحہ، حسین(لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ حضرت ام اسحاق بنت طلحہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھر فاطمہ صغری پیدا ہوئیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت حسن مثنی سے ہوا تھا۔ خاوند کی وفات کے بعد ایک سال تک غم میں ان کی قبر میں بیٹھی رہیں۔ حضرت حسن مثنی کے بعد حضرت فاطمہ صغری نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے نکاح کیا۔ حضرت فاطمہ صغری کے پہلے خاوند حضرت حسن مثنی سے عبداللہ، ابراہیم، حسن و زینب تھیں اور دوسرے خاوند عبداللہ بن عمر و سے محمد، دیباج، قاسم اور رقیہ تھیں۔
چوتھے امام: حضرت علی المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سیدنا حسین کی اولاد میں حضرت علی المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ جو کربلا میں بیماری کی وجہ سے جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کا نکاح حضرت فاطمہ بن حسن سے ہوا جن سے حسنی حُسینی باقر رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔حضرت زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کے ایک بیٹے حضرت زید بھی ہیں جن سے زیدی نسل چلی مگر اہلتشیع معصوم صرف حضرت باقر رحمتہ اللہ علیہ کو مانتے ہیں۔ حضرت زین العابدین کی پیدائیش 38ھ اور وصال 95ھ ہے۔ جنت البقیع میں حضرت سیدنا امام حسن مجتبی اور امام زین العابدین، امام باقر، امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیھم کی قبور اکٹھی ہیں۔
پانچویں امام: حضرت باقر رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا نام محمد اور لقب باقر تھا۔ اسلئے آپ محمد بن علی بن حسین بن علی ہیں۔ پیدائش57ھ اور وفات 114ھ، 57سال کی عمر پائی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر اور اُن کے بیٹے حضرت قاسم رحمتہ اللہ علیہ کی بیٹی ام فروہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت باقر رحمتہ اللہ علیہ کا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد پاک سے ہوا جن سے حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ پیداہوئے۔اسلئے یہاں حسنی حسینی اور صدیقی اکٹھے ہو گئے۔
چھٹے امام: حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ
حضرت جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی المعروف امام جعفر صادق کی پیدائش 82ھ اور وصال148ھ میں 65سال کی عمر میں ہوا۔
پہلی بیوی: حضرت حمیدہ کے بطن سے حضرت موسی کاظم، اسحاق و محمد پیدا ہوئے۔
دوسری بیوی: حضرت فاطمہ سے اسماعیل، عبداللہ، افطح و ام فروہ پیدا ہوئے۔
دیگر ازواج: حضرت عباس، علی، اسماء اور فاطمہ پیدا ہوئے۔
قرآن و سنت: حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ دین کا کام کرتے رہے مگر ان کے نام سے کوئی فقہ موجود نہیں ہے۔ اہلتشیع کا مقدمہ فقہ جعفر کو ثابت کرنے کا یا حضرت نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ کو آپ کا شاگرد ثابت کرنے کا جھوٹا ہے، البتہ حضرت امام باقر سے حضرت نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) رحمتہ اللہ علیہ کا مکالمہ ملتا ہے۔
ساتویں امام: حضرت موسی کاظم رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا نام موسی اورلقب کاظم تھا۔ 128ھ پیدائش اور وصال 183ھ میں 55 سال کی عمر میں ہوا، بغداد عراق میں آپ کی قبر انور ہے۔ آپ کی زوجہ کا نام حضرت نجمہ ملتا ہے۔ بچوں میں حضرت رضا، معصومہ، ابراہیم، قاسم، شاہ چراغ، حمزہ، عبداللہ، اسحاق، حکیمہ کے نام ملتے ہیں۔
آٹھویں امام: حضرت علی رضا رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا نام علی اور رضا لقب تھا۔ 148ھ پیدائش اور وصال 203 ھ یعنی 55 سال کی عمر میں وفات پائی اور ایران کے شہر مشہد میں آپ کی قبر انور ہے۔آپ کی زوجہ کا نام سبیکہ لیا جاتا ہے اور اولاد کی تعداد بھی مختلف ہے جس میں حضرت محمد تقی اور دیگر بہن بھائیوں میں حضرت حسن، جعفر، ابراہیم،حسین و عائشہ رحمتہ اللہ علیھم کے نام آتے ہیں۔
نویں امام: حضرت محمد تقی رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا نام محمد اور لقب تقی تھا۔ پیدائش 195ھ اور وصال 220ھ کو ہوا۔حضرت موسی کاظم رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ہی قبر انور ہے۔آپ کی ازواج میں سمانہ، مغربیہ، ام الفضل بنت مامون کے نام ملتے ہیں اور اولاد میں حضرت علی رحمتہ اللہ علیہ، موسی، فاطمہ اور امامہ کے نام ملتے ہیں۔
دسویں امام: حضرت علی نقی رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا نام علی اور لقب نقی ہے۔ پیدائش 212ھ اور وصال 254ھ کو 42 سال کی عمر میں ہوا اور عراق میں آپ کی قبر ہے۔آپ کی زوجہ کا نام حدیث ملتا ہے اور اولاد میں حضرت حسن، محمد، حسین، جعفررحمتہ اللہ علیھم کے نام ملتے ہیں۔
گیارہویں امام: حضرت حسن عسکری رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا نام حسن اور سامرہ کے محلہ عسکر میں رہنے کی وجہ سے عسکری کہلاتے ہیں۔ 232 ھ پیدائش اور 260 ھ کو وصال ہوا اور اپنے والد صاحب کے پاس ہی مدفون ہیں۔آپ کی بیوی کا نام نرجس بتایا جاتا ہے۔کچھ کہتے ہیں کہ ان کے گھر اولاد پیدا نہیں ہوئی۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ پانچ سال کا بچہ پیدا ہوا جو ایک غار میں غائب ہو گیا جسے وہ امام مھدی کہتے ہیں اور غائب سے عوام کو دیکھ رہا ہے۔
بارھویں امام
امام مہدی جنہوں نے قرب قیامت میں تشریف لانا ہے اور حضور ﷺ نے ان کی نشانیاں بھی بتائی ہیں۔ امام مہدی پر ”اہلسنت کے امام مہدی“ پوسٹ اس پیج پر موجود ہے جس کا لنک مانگ سکتے ہیں۔
14 معصوم: اہلتشیع حضور ﷺ کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو بھی معصوم مانتے ہیں۔ اسلئے یہ بارہ امام بھی ان کے نزدیک معصوم اور دو حضور ﷺ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو ڈال کر چودہ معصوم ہوئے حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل میں سے دو بیٹیاں(حضرت زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنھما) بھی ہیں مگر معصوم نہیں ہیں۔
حضرت سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنھا
حضور ﷺ کے چچا ابو طالب اور اُن کے بیٹے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ ہیں۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنھا کا نکاح حضرت عبداللہ سے ہوا جن سے دو بچے حضرت عون اور محمد کربلہ میں شہید ہوئے اور دیگر تین عبداللہ، علی اور ام کلثوم ہیں۔
حضرت سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا جس سے دو بچے حضرت زید اور لڑکی فاطمہ پیدا ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عون پھر اُن کی وفات کے بعد حضرت جعفر طیار کے بیٹے محمد اور اُن کی وفات کے بعد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ سے نکاح کیا حالانکہ اس سے پہلے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کی سگی بہن حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح بھی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار سے ہوا تھا۔ دو باتیں ہیں، پہلی یہ کہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کو طلاق دے دی یا دوسری بات ان کی وفات کے بعدنکاح ہوا۔
یزید کے سسر: طبقات ابن سعد اور نساب قریش کے مطابق حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے ایک نکاح لیلی بنت مسعود سے کیا جس سے ام محمد اور ام ابیہا پیدا ہوئے۔ ام محمد کا نکاح یزید بن معاویہ سے ہوا۔ اسلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی کے بیٹے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید کے سُسر ہیں اسلئے اہلتشیع کیسے بیٹیوں کو معصوم مانتے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنھا کربلا کے بعد اپنی سوتیلی بیٹی کے ساتھ یزید کے گھر میں رہیں۔
بنو امیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دونوں بیٹیاں ام کلثوم اور زینب رضی اللہ عنھما کا مزار دمشق شام میں ہے، اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار کا بنو امیہ خاندان سے گہرا رشتہ تھا۔ واقعہ کربلا کے ساتھ ساتھ ان حقائق کو ضرور یاد رکھنا چاہئے تاکہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب گمراہ نہ کرے۔
اصلاح: تاریخ مستند نہیں ہوتی، اسلئے کوئی بھی دوست اصلاح کر سکتا ہے کیونکہ ہم سب سیکھنے اور سکھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔
تحقیق: اسی طرح اپنی اولادوں کو دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث یا شیعہ نہیں بنانا بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بنانا ہے، اسلئے تحقیق کرنے کے لئے مذہبی جماعتوں سے سوال ہیں:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔ کیا علماء بتانا پسند کریں گے اور عوام پوچھنا پسند کرے گی؟
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ حضور، صحابہ کرام اور تابعین کے دور تک تو بخاری و مسلم لکھی نہیں گئیں اس سے پہلے اہلحدیث تھے مگر اہلحدیث جماعت نہیں تھی؟ کیا کوئی اہلحدیث جماعت سے اس کے مجتہد کا نام پوچھ کر بتا سکتا ہے؟
اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا اور نہ ہی اہلبیت (حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین و دیگرامام رضی اللہ عنھم) کا تعلق اہلتشیع کی کتابوں (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) اور اہلتشیع علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابوبریدہ) سے ہے، اسلئے اہلتشیع ختم نبوت کے منکر اور ڈپلیکیٹ علی کے حوالے سے اپنے دین کی عمارت بے بنیاد بنا کر بیٹھے ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔