Hazrat Abu Bakar ki Dosri Biwi

دوسری بیوی:

حضرت ام رومان رضی اللہ عنھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دوسری بیوی تھیں جو حضورﷺ کی حیات میں وفات پا گئیں، حضورﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی (سیر الصحابیات)۔ آپ سے دو بچے حضرت عائشہ اور عبدالرحمن رضی اللہ عنھما ہیں۔

1۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ

حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے سوا سب مسلمان ہو چکے تھے۔ غزوہ بدر میں نعرہ لگایا ”ھل من مبارز“ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آنکوں میں خون اتر آیا انہوں نے خود بڑھکر مقابلہ کرنا چاہا مگر حضور ﷺ نے اجازت نہ دی (مستدرک حاکم جلد 3 ص474)۔

قبول اسلام کے بعد ایک دفعہ آپ نے اپنے والد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ غزوہ بدر میں ایک بار آپ میری تلوار کی زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے محبت پدری میں آپ کو چھوڑ دیا، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اس دن تم میری تلوار کی زد میں آ جاتے تو خدا کی قسم میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا (اسدالغابہ، حصہ ششم، جلد 2، صفحہ348)۔

6ھ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کوئی دن نہ تھا۔ آپ نے ان کو اپنے پاس مدینہ منورہ بلا لیا، پھر اپنا کاروبار اور گھر کا انتظام و انصرام ان کے حوالے کر دیا (اسدالغابہ، حصہ ششم، جلد 2، صفحہ 349)۔

حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر کا نکاح قریبہ بنت ابو معاویہ سے ہوا جس سے عبداللہ، ام حکیم، عاصمہ، محمد، حفصہ پیدا ہوئیں۔ حضرت قریبہ کا نکاح پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا، انہوں نے طلاق دی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، انہوں نے بھی طلاق دی تو پھر حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر سے ہوا۔

حضرت عبدالرحمن صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے اور باپ کا کاروبار سب سنبھال لیا۔ بخاری 6141 حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو کھانا نہ کھلانے پر قسم کھائی کہ میں بھی کھانا نہ کھاؤں گا۔۔ کھانے میں برکت ہو گئی اور پھر اس میں سے حضور ﷺ نے بھی کھایا۔

حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بہادر، جنگجو اور تیرانداز بہت اچھے تھے۔ جنگ یمامہ میں غنیم کے سات بڑے جانبازوں کو نشانہ لگا کر جہنم پہنچایا۔ قلعہ یمامہ میں دشمن کا سردار قلعہ میں داخلے میں رکاوٹ تھا، آپ کے تیر سے مر گیا اور مسلمان اندر داخل ہو گئے (اصابہ جلد 2 ص 168)۔ اسد الغابہ جلد 3 میں ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت پر اعتراض کیا جیسا کہ بخاری 4827 میں بھی حدیث موجود ہے۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ اس کے بعد مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے اور 53ھ میں وفات پا گئے حالانکہ بالکل صحت مند تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید کسی نے زہر دے دیا مگر ایک تندرست عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں آئی اس نے نماز کا ایک سجدہ کیا اور دوسرا نہیں کیا تو ان کا یہ شک دور ہو گیا کہ کسی نے زہر دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حج پر آئیں تو اپنے بھائی کی قبر پر گئیں، رونا آ گیا اور کچھ اشعار بھی ان کی جدائی میں پڑھے (مستدرک حاکم جلد 2 ص 476)

2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا مومنین کی ماں ہیں اور ان کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے سُسر ہیں۔ بخاری 3895 ”حضور ﷺ کو ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا خواب میں دکھا کر فرشتے نہ کہا یہ آپ کی بیوی ہیں“۔بخاری 3772حضرت عمار فرماتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضور ﷺ کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہیں“۔ بخاری 3770 ”عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اسطرح ہے جسطرح تمام کھانوں سے ثرید افضل ہے“۔

بخاری 3896 ”مدینہ پاک کی طرف ہجرت سے تین سال پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا وصال ہو گیااور دو سال بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے حضور ﷺ نے 6سال کی عمر میں نکاح کیا، پھر 9سال کی عمر میں وہ آپ ﷺ کے گھر تشریف لائیں“۔(اس میں بحث نہیں کہ عمر کیا تھی بلکہ اصل یہ ہے کہ آپ بالغ تھیں جب رخصتی ہوئی اور یہی قانون ہے کہ بالغ ہونے پر نکاح کر دیں)۔

مسلم 6290”حضور ﷺنے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا اے میری بیٹی!کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پس تم اس (حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا) سے محبت کرو“۔ بخاری 3662 ”آپ ﷺ نے فرمایا میں سب سے زیادہ محبت عائشہ سے کرتا ہوں“۔ بخاری 6201 حضور ﷺ نے فرمایا اے عائشہ یہ جبریل تجھے سلام کہتے ہیں تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: اور ان پر بھی اللہ کی رحمت اور سلام ہو“۔ بخاری 3775 حضور ﷺ نے ایک دفعہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا: مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو، اللہ کی قسم، مجھ پر تم میں سے صرف عائشہ کے بستر پر ہی وحی نازل ہوتی ہے“۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر منافقین کی طرف سے بہتان لگا تو اللہ کریم نے قرآن میں سورہ نور کی آیات اُتار کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو پاک صاف قرار دیا اور بخاری 4141 میں مکمل وضاحت موجود ہے۔ بخاری 336 ”تیمم کی آیات بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ہار گُم ہو جانے کی وجہ سے نازل ہوئیں۔

بخاری 3774 حضور ﷺ کے آخری آیام حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں ان کے ساتھ تھے“ اور وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی گود میں ہوئی بخاری 4449“۔

ترمذی 3883 حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کو جب بھی کسی حدیث میں اشکال ہوتا تو ہم نے عائشہ رضی اللہ عنھاسے پوچھا اور ان کے پاس اس کے بارے میں علم پایا“۔ بخاری 3771 حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے قریب بیماری پرسی کی اور آپ کی تعریف کی“ اور مسند احمد میں ہے ”حضرت عائشہ نے فرمایا: اے عباس مجھے چھوڑ دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،میں چاہتی ہوں کہ میں بھولی ہوئی گمنام ہوتی“۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا 17 رمضان المبارک 58ھ میں وصال کیا اور آپ کا جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھایا (البدایہ و النہایہ، لابن کثیر، جلد 4، جز 7، ص 97)

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general