علم کے بغیر مُحَدِّث
ہر کوئی سمجھتا ہے کہ حدیث تو حدیث ہوتی ہے، جہاں صحیح حدیث لکھا ہے بس وہ صحیح ہے، اس پر عمل ہونا چاہئے حالانکہ اُس سے پہلے مندرجہ ذیل غوروفکر کرنا چاہئے تاکہ علم ہو کہ محدثین کتنی محنت کرتے ہیں۔ عام آدمی اس پوسٹ کو سرسری نظر سے دیکھ کر سمجھ جائے گا اور خاص کو تو اس کی ضرورت نہیں:
حدیث کی اقسام
حدیث کی دو اقسام خبر متواتر اور خبر واحد ہیں۔
خبر متواتر: تواتر کا لغوی معنی ہے کسی چیز کا یکے بعد دیگرے اور لگاتار آنا۔ اس کا اصطلاحی معنی ہے کہ کسی حدیث کو اس قدر زیادہ لوگ بیان کرنے والے ہوں کہ عقل کے نزدیک ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔
خبر متواتر کے لیے شرط ہے کہ اس کے روایت کرنے والے کثیر ہوں، یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے یعنی ابتدا سے انتہا تک راوی کثیر ہوں، یہ کثرت اس درجہ کی ہو کہ ان کا عادۃً جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو، اس خبر کی سند کی انتہا احساس اور مشاہدہ پر ہو۔ خبر متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے جس کی تصدیق سننے والا غیر اختیاری طور پر کرتا ہے، گویا کہ اس نے اس کا خود مشاہدہ کر لیا ہو۔
خبر متواتر لفظی: جس کے الفاظ اور معنی دونوں متواتر ہوں۔
خبر متواتر معنوی: جس کے صرف معنی متواتر ہوں، الفاظ متواتر نہ ہوں۔
خبر واحد: از روئے لغت خبر واحد وہ حدیث ہے جس کو ایک شخص روایت کرے۔ خبر واحد کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ جس حدیث میں خبر متواتر کی کوئی ایک شرط نہ ہو وہ خبر واحد ہے۔ اس کی تین اقسام ہیں:
1) مشہور: مشہور وہ حدیث ہے جو دو سے زائد سندوں سے مروی ہو اور حد تواتر سے کم ہو۔
2) عزیز: حدیث عزیز وہ ہے جس میں سند کے کسی طبقہ میں دو سے کم راوی نہ ہوں۔
3) غریب: غریب اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں کسی جگہ بھی راوی اس روایت میں متفرد ہو۔
قوت اور ضعف کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم
خبر الآحاد یعنی مشہور، عزیز اور غریب کی قوت اور ضعف کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں۔
مقبول: یہ وہ قسم ہے جس میں خبر کا صدق راجح ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے استدلال جائز ہے اور اس کےمقتضیٰ پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس کی اقسام ہیں:
صحیح لذاتہ: جس حدیث کی سند متصل ہو اور اس کے راوی عادل اور تام الضبط ہوں، وہ حدیث غیر شاذ اور غیر معلل ہو۔
صحیح لغیرہ: اگر حدیث صحیح لذاتہ کی صفات میں سے ضبط روایت میں کچھ کمی ہو لیکن اس کمی کی تلافی تعدد اسانید سے ہو جائے تو اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔
حسن لذاتہ: حسن وہ حدیث متصل ہے جس کے عادل راوی کا ضبط کم ہو اور وہ منکر الحدیث ہونے سے بری ہو اور اس کی حدیث شاذ اور معلل نہ ہو۔
حسن لغیرہ: حدیث حسن لغیرہ دراصل حدیث ضعیف ہے جب کہ وہ متعدد سندوں سے مروی ہو۔
مردود: یہ وہ قسم ہے جس میں خبر کا صدق راجح نہیں ہوتا اور اس کی وجہ خبر مقبول کی ایک یا ایک سے زائد شرائط کا فقدان ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں ہوتا اور نہ اس کے مقتضیٰ پر عمل کرنا واجب ہے۔
حدیث ضعیف: ہر وہ حدیث جس میں صحیح اور حسن کی ایک یا ایک سے زائد صفات نہ ہوں وہ حدیث ضعیف ہے۔
حدیث معلق: جب مصنف کے تصرف سے سند کے اول سے راوی کو ساقط کر دیا جائے تو وہ حدیث معلق ہے۔
حدیث مرسل: جس حدیث کی سند کے آخر میں تابعی کے بعد راوی (صحابی) کو حذف کر دیا جائے وہ مرسل ہے۔
حدیث معضل: جس حدیث کی سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی متواتر ساقط ہوں۔
حدیث منقطع: منقطع وہ حدیث ہے جس میں کسی وجہ سے بھی عدم اتصال ہواور اس کا اکثر اطلاق اس حدیث پر ہوتا ہے جس میں تابعی کے نیچے درجہ کا کوئی شخص صحابی سے روایت کرے۔
حدیث مدلّس: اس کا معنی ہے سند میں کسی عیب کا چھپانا اور اس کے ظاہر کی تحسین کرنا۔
حدیث مرسل خفی: جو حدیث راوی کے ایسے معاصر سے صادر ہوئی ہو جس نے اس شخص سے ملاقات نہ کی ہو جس نے اس کو وہ حدیث بیان کی ہو، بلکہ اس معاصر اور حدیث بیان کرنے والے کے درمیان واسطہ ہو۔
حدیث معنعن: معنعن وہ حدیث ہے جس میں راوی عن فلاں عن فلاں کہے۔
راوی میں طعن کا بیان: راوی میں طعن کا مطلب یہ ہے کہ راوی پر زبان سے جرح کی جائے اور اس کی عدالت اور دینداری اور اس کے ضبط و حفظ اور بیدار مغزی سے بحث کی جائے۔
حدیث موضوع: جب راوی میں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا طعن ہو تو اس کی حدیث موضوع کہلاتی ہے۔ جو جھوٹی بات گھڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دی گئی ہواس کو حدیث موضوع کہتے ہیں۔
حدیث متروک: یہ وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس پر کذب کی تہمت ہو۔
حدیث منکر: جب راوی میں فحش غلطی یا کثرت غفلت یا فسق کا طعن ہو تو اس کی حدیث کو منکر کہتے ہیں۔
حدیث معروف: اگر ضعیف راوی ثقہ کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر اور ثقہ کی روایت کو معروف کہتے ہیں۔
حدیث شاذ اور حدیث محفوظ: جو راوی ضبط کی زیادتی، کثرت عدد یا دوسری وجوہ ترجیح سے راجح ہو اس کی روایت کو محفوظ کہتے ہیں اور جو اس راجح راوی کی مخالفت کرے اور وہ اس کی بہ نسبت مرجوح ہو، اس کی روایت کو شاذ کہتے ہیں۔
حدیث معلل: اگر قرائن سے راوی کے اس وہم پر اطلاع ہو جائے کہ وہ مرسل یا منقطع کو موصول قرار دیتا ہے اور اسی قسم کے اوہام جو حدیث میں طعن کا موجب ہیں، تو یہ حدیث معلل ہے۔
حدیث مدرج: جس حدیث کی سند میں تغییر کی وجہ سے ثقات کی مخالفت ہو وہ مدرج الاسناد ہے۔
حدیث مقلوب: حدیث مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں کسی لفظ کو بدل دیا جائے یا مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم کر دیا جائے۔
حدیث مضطرب: مضطرب وہ حدیث ہے جو مختلف سندوں سے مروی ہو یا ان کی روایت مختلف ہو اور وہ سندیں مساوی قوت کی ہوں۔ اگر سندیں مساوی نہ ہوں تو راجح اور مرجوح میں سے کوئی بھی مضطرب نہ ہو گی، راجح حدیث کو صحیح قرار دیا جائے گا اور مرجوح شاذ یا منکر قرار پائے گی۔
حدیث مصحف: جس حدیث میں ثقہ راویوں کی مخالفت کسی حرف یا حروف کے تغیر سے کی گئی اور لکھنے کی صورت باقی ہو، اگر صرف لفظوں میں مخالفت ہو تو اس کو مصحف کہتے ہیں اگر شکل میں مخالفت ہو تو اس کو محرف کہتےہیں۔
مجہول راوی: مجہول راوی اس کو کہتے ہیں جس کی ذات اور شخصیت کا پتا نہ چلے یا ذات اور شخصیت کا پتا ہو لیکن اس کی صفت کا پتا نہ ہو کہ آیا وہ عادل ہے یا غیر عادل۔ مجہول کی روایت کا کوئی مستقل نام نہیں ہے اور اس کی روایت کو حدیث ضعیف کی اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔
مبہم راوی: مبہم راوی کی روایت کو بھی مجہول کی اقسام میں شمار کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی حدیث ضعیف کی قسم ہے اور اس کا کوئی مستقل نام نہیں ہے۔
بدعتی راوی: بدعتی کی روایت کردہ حدیث کا کوئی مستقل نام نہیں ہے تاہم اس کو حدیث مردود کی اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔
حدیث مسند: جس حدیث مرفوع کی نبی کریم ﷺ تک سند متصل ہو۔
حدیث متصل: جس حدیث کی سند متصل ہو، خواہ وہ مرفوع ہو یا کسی پر بھی موقوف ہو، اس کو موصول بھی کہتے ہیں۔
یاد رکھنے والی بات: عقائد میں علم یقین درکار ہوتا ہے اور حدیث جب تک مشہور متواتر نہ ہو اس کا ثبوت نہیں دیتی۔ حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو، ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقاد میں ظنیات کا کچھ اعتبار نہیں۔
دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ ان کے لئے اگرچہ اتنی قوت درکار نہیں لیکن حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا ضروری ہے۔ جمہور علما یہاں ضعیف حدیث قبول نہیں کرتے۔
تیسرا مرتبہ فضائل و مراتب کا ہے۔ یہاں بالاتفاقِ علما، ضعیف حدیث بھی کافی ہے۔ مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی، کہ جو ایسا کرے گا اتنا ثواب پائے گا، یا کسی نبی یا صحابی کی خوبی بیان ہوئی کہ انھیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا، یہ فضل عطا فرمایا، تو ان کے مان لینے کو ضعیف حدیث بھی کافی ہے۔
فتح المبین میں ہے کہ حدیث ضعیف پر فضائل اعمال میں عمل اس لیے ٹھیک ہے کہ اگر واقع میں صحیح ہوئی تو جو اس کا حق تھا کہ اس پر عمل کیا جائے، وہ ادا ہو گیا، اور اگر صحیح نہ بھی ہو تو اس پر عمل کرنے میں کسی تحریم یا کسی کی حق تلفی کا مفسدہ نہیں ۔
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کا معنی یہ ہے کہ استحباب مانا جائے ورنہ نفسِ جواز تو اباحتِ اصلیہ سے خود ہی ثابت ہے، اس میں حدیث ضعیف کا کیا دخل ہوا، تو ورود حدیث کے سبب فعل کو ترجیح دی جائے، اور یہی استحباب ہے، کیونکہ یہ ضعیف حدیث پر عمل نفس اباحت سے ایک زائد چیز ہے لہٰذا مستحب ہے۔ چنانچہ جس کے پاس کوئی حدیث ضعیف پہنچے کہ جو فلاں فعل کرے گا اتنا فائدہ پائے گا، اسے چاہئے کہ نیک نیتی سے اس پر عمل کرے اور تحقیقِ صحت کے پیچھے نہ پڑے، وہ ان شاءاللہ اپنی حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ جائے گا۔
تقریب و تدریب میں ہے کہ کسی حدیث کو ضعیف کہا جائے تو معنی یہ ہیں کہ اس کی اسناد شرط مذکور پر نہیں، نہ یہ کہ واقع میں جھوٹ ہے۔ یعنی ضعیف کے یہ معنی نہیں کہ وہ واقع میں باطل ہے بلکہ یہ کہ جو شرطیں محدثین نے اعتبار کیں ان پر پوری نہ اتری۔
ہوم ورک: محدثین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بات (حدیث) کو 114000 صحابہ کرام نے سُنا (سماع) ہے اور صحابہ سے تابعین اور تابعین سے تبع تابعین نے سُنا اور پھر احادیث کتابی شکل میں سند اور متن کے ساتھ اکٹھی کی گئیں ہیں۔ اس پر اہلتشیع بے بنیاد مذہب سے سوال ہے:
سوال: حضور ﷺ کے کم و بیش 124000 صحابہ کرام (اہلبیت سمیت) نے ملکر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گذاری، احادیث کو بیان کیا جس میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ اہلتشیع کا کونسا ڈپلیکیٹ علی ہے جس نے قرآن بھی خود اکٹھا کیا اور حضور ﷺ کی مرفوع، موقوف، مقطوع احادیث کے راوی (صحابی، تابعین و تبع تابعین) کون کون ہیں؟
بے بنیاد مذہب: اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں اسناد اور راوی کے بغیر منگھڑت ہیں، حضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھوٹ منسوب ہے، اسلئے جب قرآن و سنت ہی نہیں تو فقہ جعفر کیسے سچی ہو سکتی ہے۔ اب جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر بنی ہو اُس کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ قصے اور کہانیوں کا نام اور الزامی سوالوں کا نام ”اسلام“ رکھا ہے۔ اللہ کرے مرنے سے پہلے کسی اہلتشیع کو سمجھ آ جائے۔
اتحاد امت: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی علماء کرام اہلسنت ہیں جنہوں نے 600 سال میں دین کی خوب خدمت کی اور اُس دور میں بہت سا علمی کام ہوا، البتہ سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ کے احتتام پر دُنیا کے اہلسنت کو بدعتی و مُشرک کہاجس سے امت مسلمہ کا نقصان ہوا۔
دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کا آپس میں اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کُفریہ عبارتیں ہیں۔ اگر دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو ان کے اکابر وہابی کے نزدیک بدعتی و مُشرک ہیں۔ اسلئے تقیہ بازی نہ کریں۔
پھر دیوبندی کو حنفیت چھوڑ کر اور اہلحدیث کو غیر مقلدیت چھوڑ کو ”حنبلی“ طریقے سے نماز ادا کرنی چاہئے ورنہ مصلہ ایک نہیں ہے۔