اصلاحی باتیں
1۔ حدیث کہتی ہے کہ قبرکی تنگی کے وقت نیک اعمال ایمان والے کی مدد و حفاظت کریں گے اور اس کا مطلب ہوا کہ بُرے اعمال قبر کی تنگی کے وقت میں۔۔۔
2۔جو بندہ اذان کی آواز کو اللہ کریم کی بندگی کرنے کا ظاہری اشارہ نہیں سمجھتا وہ باطن میں اُٹھنے والے اشارے کب سمجھ سکتا ہے۔ ظاہر و باطن میں انقلاب ظاہری و باطنی اشاروں سے سمجھ میں آتا ہے۔
3۔کاش تُونیک باتیں مزے کیلئے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لئے سنتا۔ کاش تُو نعت یا قرآن سُن کر رونے کی بجائے اپنی اصلاح کرتا اور کاش نیک باتوں کے اثرات تجھ پر نظر بھی آتے ورنہ فائدہ کیا؟
4۔ پرہیزگار نیک سمجھدار والدین اپنی اولاد کو اپنے لئے نہیں بلکہ دین کے لئے پالتے ہیں اور دنیا دار والدین اپنی اولاد کو اپنی دنیا (status symbol) کے لئے پالتے ہیں۔
5۔ ہجرت یعنی اپنے وطن کو چھوڑنا۔ اسی طرح اپنے نفس پر قابو پا کر حسد، کینہ، بغض، تکبر، انا کو چھوڑ دینااور صبر، شکر، توکل، یقین کی طرف لوٹ جانے کو اپنے جسم کے اندر ہجرت یعنی سفر در وطن کہتے ہیں۔ باطن کا سفر روح تب شروع کرتی ہے جب روحانی بیماریاں دور ہو جائیں اور روح صحت پا لے اور یہ تصوف کی کتابوں سے نہیں بلکہ کسی اللہ والے کے کردار سے فیض یاب ہونے سے شروع ہوتا ہے۔
6۔ عام و خاص کے لئے ”روٹی“ دین پر چلنے کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ غریبی کا خوف امیروں کو بھی غریب رکھتا ہے، اسلئے ساری زندگی پیسہ اکٹھا کرتے ہیں مگر دین کے غریب رہ جاتے ہیں۔ غریبی دولت ملنے سے نہیں جاتی بلکہ اللہ تعالی کا قُرب غریب کو دُنیا والوں کی نظر میں بھی امیر بنا دیتا ہے اور غریبی کے امتحان میں بعض لوگ کُفر بک کر مشرک اور کافر بھی بن جاتے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کتنی جائیداد کے بعد امیر آدمی کہے گا کہ اب مجھے کمانے کی حاجت نہیں ہے؟
7۔ نبی کریم ﷺ کی غلامی ہر غم کا علاج ہے اور اس غلامی میں بندہ شریعت پر چلنے میں آزاد اور دنیا کے کاموں میں قید ہوتا ہے۔
8۔نیک خیالات، نیک ارادے، نیک اعمال اور نیک دوست مسلمان کی زندگی کی تفسیر اور کہانی کا انجام ہوتے ہیں البتہ یہ سب کچھ نیک ماحول اور نیک صحبت سے ملتے ہیں۔
9۔ عابد (عبادت کرنے والا) اور معبود (اللہ کریم جس کی عبادت کی جا رہی ہے) کے درمیان پردہ ہے ورنہ ہر وقت عابد و معبود آمنے سامنے ہیں۔ اگر عابد اللہ تعالی کو نہیں دیکھ پاتا تو کوئی غم نہیں کیونکہ یہ خوشی کیا کم ہے کہ معبود تو عابد کو دیکھ رہا ہے اور یہ یقین رکھنا بھی ایک منزل اور مقام ہے۔
10۔ یہ عادت بھی عجیب سرشاری ہے، حالات کیسے بھی ہوں مگر اللہ تعالی کا ذکر نہ چھوٹے، مایوسی کی لہریں طبعیت میں اُٹھتی ہوں مگر نبی کریم ﷺ کی غلامی میں رہنے کا طلسم نہ ٹوٹے، زخم ہزار گہرے لگے ہوں آزمائشوں کے مگر اللہ کی عبادت کرنے کا جذبہ نہ روٹھے۔
11۔ دینی جماعتوں میں داخلے سے پہلے ہر مسلمان سوچ سمجھ لے تاکہ کل قیامت والے دن وقت کا ضائع ہونے کا غم نہ کیا جائے۔
اہلسنت: اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نسل در نسل خلافت عثمانیہ، چار مصلے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ اب سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ جو ہے وہ وہابی اور خارجی ہے کیونکہ اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہتا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کا آپس میں اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
رافضیت: اہلتشیع بے بنیاد مذہب اسلئے ہے کہ قرآن و سنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا اور نہ ہی اہلبیت (حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین و دیگرامام رضی اللہ عنھم) کا تعلق ان کتابوں (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) اور اہلتشیع علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابوبریدہ) سے ہے، اسلئے اہلتشیع ختم نبوت کے منکراور ڈپلیکیٹ علی کے حوالے سے اپنے دین کی عمارت بے بنیاد بنا کر بیٹھے ہیں۔
نقصان: سعودی عرب کی وجہ سے اہلسنت کا نقصان ہوا اور اب بہت سے علماء رافضی بن رہے ہیں اور ہم خوش ہو رہے ہیں اور بہت سے علماء وہابی علماء کے ساتھ ملکر اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں۔ کوئی خوف خدا نہیں اور کوئی شرم نہیں۔ اہلسنت چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت اہلسنت ہیں۔