لفظوں کی بے حُرمتی
1۔ الفاظ اپنا تقدس اسلئے کھو چُکے ہیں کہ میڈیا(رائٹر،ایکٹر،پروگرامر) پرجھوٹے جذباتی الفاظ کا کاروبار کرکے، عوام کا دماغ اپ سیٹ (خراب) کر کے، خوب کمائی کی جا رہی ہے۔حُکمران لفاظی سے عوام کاپیٹ بھر کر اپنا وقت گذار کر”اللہ کریم“ کے حضور حاضر ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام بھی ایک دوسرے سے فائدہ اُٹھانے کیلئے جھوٹی قسمیں اور جھوٹے وعدے کرکے ”الفاظ“ کی بے حُرمتی کر رہی ہے۔ لفظوں کا استعمال کسی پر سحر (جادو) کر دیتا ہے مگر ساتھ میں جہنم بھی مقدر کر دیتا ہے۔
2۔ روٹی کا ٹکرا بھی روٹی کہلاتا ہے اور روٹی یا رزق ضائع نہیں کیا جاتا، اسی طرح ہر ایک کے الفاظ روٹی یا رزق ہے جو ضائع کرنے پر پکڑ ہو گی۔ اسلئے اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے اچھی بات کہو اورایمان والوں کی نشانی یہی ہے کہ لغو، بیہودہ اور فضول بات اور عمل سے دور رہتے ہیں۔
3۔بخاری 6474 جو کوئی اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے کیونکہ انسان کوئی بات کرتا ہے تو اس کو لکھنے کے لئے ایک فرشتہ تیار رہتا ہے۔ بخاری 6477 بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متلعق سوچتا نہیں (کتنی کفریہ ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گرتا ہے جتنا مشرق سے مغرب دور ہے۔
4۔ قرآن و سنت میں خاموشی (زبان بندی)کا حُکم ہے، البتہ خاموشی کے لفظی معنی چُپ رہنے کے ہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی بات کہی جائے جس کی ضرورت ہو اور ہر اس بات سے بچا جائے جس میں کوئی دینی یا دُنیاوی فائدے کا پہلو موجود نہ ہو۔ اگر لایعنی، فضول، لغو، غیبت، چُغلی، بہتان، کُفر ہماری زبان سے ادا نہ ہو تو پھر ہماری زبان ایک دوسرے کو صبر، شُکر، حوصلہ اور جذبہ سکھائے گی۔
5۔ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کا شیوہ تھا کہ وہ آپ کی بارگاہ میں خاموش نہ رہتی اور ان سے طرح طرح کے سوالات کرتی رہتی۔ سورہ البقرہ میں گائے کا قصہ اس واقعہ کی ایک مثال ہے۔اسلئے اللہ تعالی نے امت محمدی ﷺ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: (اے مسلمانو) کیا تم چاہتے ہو کہ تم بھی اپنے رسول ﷺ سے اسی طرح کے سوالات کرو جیسا کہ اس سے پہلے موسی (علیہ السلام) سے کئے گئے تھے تو جو کوئی ایمان کے بدلے میں کُفر حاصل کرے پس وہ واقعتا سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ (البقرہ)
6۔ اسلئے کوئی بارگاہ ایسی ہوتی ہے کہ جہاں خاموش رہنا بہتر اور بک بک کرنے سے نیکیاں برباد اور اللہ کریم کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ اسلئے غور و فکر (مراقبہ)اور ذکر و اذکار اللہ کریم کا قُرب پانے کے لئے کیا جائے تو دل کا تعلق غیر اللہ سے نہیں رہتا بلکہ مسلمان کے اندر نور فراست پیدا ہو جاتا ہے جس سے وہ دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور شیطانی وسوسوں کو پہچان لیتا ہے۔
7۔ سنن ابو داود 3664جس شخص نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لئے سیکھا جس سے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔ابن ماجہ 261، ترمذی 2649 جو شخص بھی علم دین یاد رکھتے ہوئے اسے چھپائے تو اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا۔
8۔ قرآن و سنت کے الفاظ کی بے حُرمتی سے تب بچا جا سکتا ہے جب خاموشی توڑ کرعوام کو ان سوالوں کے جواب دئے جائیں:
1) سعودی عرب کے وہابی علماء نے 600سالہ خلافت عثمانیہ کے دور کے ساری دُنیا کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو بدعتی و مُشرک کیوں کہا اور بدعت و شرک کس نے سکھایا؟
2) سعودی عرب کے وہابی علماء کی وجہ سے پاکستان میں ایران کے بے بنیاد مذہب اہلتشیع کا اثر و رسوخ بڑھا جس سے اہلسنت علماء کرام ایک مرکز پر 100سالوں میں اکٹھے نہیں ہو سکے؟
3) کیا یہ بہتر ہے کہ قادیانی، رافضی، سعودی، ایرانی، آغا خانی پیسہ لگائیں اور عوام کو جماعتوں میں تقسیم کر دیں یا یہ بہتر ہے کہ علماء کرام اور عوام کو ”اہلسنت“ کی پہچان کروا کر اکٹھا کر دیں؟
رزق جائے گا، بے عزتی بھی ہو گی، پریشانی بھی آئے گی، عوام بھی نہیں مانے گی، یہ بھی کہا جائے گا کہ تفرقہ پھیلایا جا رہا ہے، فتنہ پھیلا رہے ہو مگر حق اُس کی زبان سے نکلتا ہے جو حق کے ساتھ ہو، اُسے کیا پرواہ کہ کیا ہو گا، وہ تو اللہ کریم کے دیدار کی خوشی میں مست ہو کر اس دنیا سے جانا چاہتا ہے۔