Nabi Farman Siddique Ke Pechan (نبوی فرمان۔۔ صدیق کی پہچان)

نبوی فرمان۔۔ صدیق کی پہچان

 

1۔حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت دیکھا ہے جب آپ ﷺ کے ساتھ صرف پانچ غلام، دو عورتوں اور ابوبکر رضی اللہ عنھم کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ غلام حضرت بلال، زید بن حارثہ، عامر بن فہیرہ، ابو فکیہ اور عبید بن زید حبشی، عورتیں حضرت خدیجہ اور ام ایمن یا سمیہ، غرض آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر اور بچوں میں حضرت علی اور عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھم ایمان لائیں (بخاری 3660) حضورﷺ نے فرمایا اے ابوبکر تم حوض کوثر پر بھی میرے رفیق (یار) ہو گئے جیسا کہ یار غار تھے۔(ترمذی 3670)

2۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا تم میں سے آج کس کا روزہ ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرا۔ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں نے۔ پھر فرمایا تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں نے۔ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں نے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہو جائیں وہ یقینا جنت میں داخل ہو گا (مسلم 2374)

3۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو ان کے لئے خَراج نکالتا تھا اور وہ اس کے خراج سے کھاتے تھے، ایک دن وہ کوئی چیز لے کر آیا، حضرت ابوبکر نے اس سے کھایا تو غلام نے پوچھا: آپ جانتے ہیں یہ کیا چیز تھی (جو آپ نے کھائی ہے)، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کیا چیز تھی، اس نے بتایا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کو کہانت سے کچھ بتایا تھا حالانکہ مجھے کہانت اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر میں نے اس کو دھوکہ دیا تھا (آج) وہ مجھ سے ملا تو اس نے مجھے اس کا معاوضہ دیا سو آپ نے اسی (معاوضہ) سے کھایا ہے، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ (اپنے حلق میں داخل کیا) اور جو کچھ پیٹ میں تھا، قے کر دیا (بخاری 3842) کیا ایسا صدیق باغ فدک کا غلط فیصلہ کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

4۔ حضور ﷺ نے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کے متعلق بیان فرمایا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا تہمد (دھوتی) ایک طرف سے لٹکنے لگتا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم ان تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو (بخاری6062) رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں تشریف لاتے تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کے سوا کوئی اپنا سر نہ اٹھاتا وہ دونوں آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور آپ ﷺ ان دونوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے۔ (رواہ ترمذی غریب 6062)

5۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہ دروازہ بہتر ہے، جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص اہل صدقہ میں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ دار ہو گا اسے صیام اور ریان کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جس شخص کو ان تمام ہی دروازوں سے بلایا جائے گا پھر تو اسے کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہے گا اور پوچھاکیا کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے اے ابوبکر (بخاری 3666)

6۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے پاس تشریف لارہے تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی سے لڑ کر آ رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے اور عمر کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی اور میں نے ان کو کچھ سخت الفاظ کہہ دئے ہیں لیکن بعد میں ندامت ہوئی تو میں معافی مانگ رہا ہوں مگر عمر معاف نہیں کر رہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوبکر تمہیں اللہ معاف کرے۔ اسی دوران حضرت عمر کو بھی ندامت ہوئی اور حضرت ابوبکر کے گھر گئے، معلوم ہوا کہ نہیں ہیں تو حضور ﷺ کے پاس آئے اور سلام کیا، نبی کریم ﷺ کا چہرہ غصہ سے بدل گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ، اللہ کی قسم زیادتی میری طرف سے تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کریم نے مجھے تمہاری طرف بھیجا اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعے انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ آپ نے دو دفعہ یہ فرمایا: آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سب ادب کرنے لگے (بخاری 3661)

7۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ سے، میں نے پوچھا اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب سے، اس طرح آپ ﷺ نے کئی آدمیوں کے نام لئے (بخاری 3662 مسلم 2384)

8۔ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھماکے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا یہ میری آنکھیں اور کان ہیں۔(ترمذی 3671) نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جب صحابہ کرام کے درمیان انتخاب ہوتا تو سب سے افضل اور بہتر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرار پاتے۔ (بخاری 3655) حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما دائیں بائیں اور حضور ﷺنے ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب مسجد میں داخل ہوئے اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن اسی طرح اُٹھائے جائیں گے۔(ترمذی 3669) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما سے کوئی مشورہ کیا، صحابہ نے عرض کی: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے صحیح ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں (مجمع الزوائد ج 9، ص 46)

9۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں پر ہوں اور اللہ کریم نے جتنا چاہا اس ڈول سے پانی کھینچا، پھر اس ڈول کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے۔۔ پھر اس ڈول نے ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کر لی اور اسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ میں لیا، میں نے ایسا شہ زور پہلوان آدمی نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچ سکتا ہو، انہوں نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو خوص سے سیراب کر لیا (بخاری 3664)

10۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ، میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عن، اسلئے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں (بخاری 3671) اہلتشیع بخاری شریف کا اکثر باغ فدک یا بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کے جنازے کا حوالہ دیتے ہیں، کبھی گھر جلانے کا الزام لگاتے ہیں تو بخاری کی اس حدیث کو کیوں نہیں مانتے؟ اہلتشیع ہیں ہی بے بنیاد مذہب ہے جسکی اپنی کتابیں سب منگھڑت ہیں جو حضور ﷺ تک متصل نہیں اور اہلسنت کو بدنام کرنے کے لئے قرآن و سنت میں معنوی تحریف کرتے ہیں۔

11۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جنازہ تحت پر تھا اور لوگ دعا کر رہے تھے کہ ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کاندھے پر رکھی اور کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کر دے گا کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”میں اور ابوبکر اور عمر تھے، میں نے ابوبکر و عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابوبکر اور عمر گئے“ بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا، میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے (بخاری 3677) ایسی احادیث اہلتشیع بے بنیاد نہیں سنائیں گے۔

12۔ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ، حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم احدپہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا: اے احد رک جا، تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں (بخاری 3686) حضور ﷺ نے فرمایا: ابوبکر سنو تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے۔ (ابو داود 4652)

13۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کی ایک دن میں حضور ﷺ کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب)بئر اریس کی منڈیر پر اپنی پنڈلیاں کھولے، اپنے پاؤں کنویں میں لٹکائے بیٹھے ہیں، میں نے آپ ﷺ کو سلام کر کے دروازے پر آ کر دربان بن کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، دروازہ کھولنا چاہا، میں نے پوچھاکون؟ انہوں نے فرمایا: ابوبکر۔ میں نے حضور ﷺ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اندر آنے کی اجازت دینے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت بھی دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی کنویں کی منڈیر پر دائیں طرف حضور ﷺ کے ساتھ پاؤں لٹکا پر بیٹھ گئے۔۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، پھر حضور ﷺ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دو، وہ حضور ﷺ کے بائیں طرف بیٹھ گئے۔ پھر دستک ہوئی، پوچھا توآواز آئی، عثمان، پھر حضور ﷺ سے اجازت مانگی، آپ ﷺ نے فرمایا آنے دو اور جنت کی بشارت بھی دو اور ایک مصیبت بھی پہنچے گی وہ بھی بتا دو۔ میں نے ایسا ہی کہا۔ وہ جب داخل ہوئے تو چبوترے پر جگہ نہیں تھی اسلئے دوسری طرف حضور ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی (ساتھ ساتھ اور جنت البقیع)(بخاری 3674، مسلم 2403)

14۔ حضور ﷺنے خطبہ دیا کہ ایک بندے کو اللہ کریم نے اختیار دیا ہے کہ دنیا میں رہے یا آخرت قبول کرے تو اُس بندے نے آخرت کو قبول کیا، یہ بات سُن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کر دیا جس پر صحابہ کرام کو تعجب ہوا مگر بعد میں علم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کیوں روئے اسلئے کہ حضور ﷺ نے دنیا سے جانا قبول کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے۔ فرمایا کہ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے (جو صحابہ کرام کے گھروں کو کھلتے تھے) بند کر دئے جائیں لیکن ابوبکر کا دروازہ رہنے دو (بخاری3654 مسلم 2382)

15۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزند عبدالرحمن کی طرف پیغام بھیجوں اور (خلافت کی) وصیت کر دوں تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کرے نہ تمنا (بخاری 7217) جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں، اس قوم میں ابوبکر کے سوا کسی اور کے لئے امام بننا جائز نہیں۔(ترمذی 3673)حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا، لہذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کی جانب اشارہ کیا (ترمذی 3663) ایک عورت نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر آنا۔ اس نے کہا اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پا سکو تو ابوبکر کے پاس چلی جانا (بخاری 3659)

16۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پرانا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھو لینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں (سیدہ عائشہ) نے عرض کی کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے کا مردے سے زیادہ مستحق ہے، یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہو جائے گا۔(بخاری 1387) رسول اللہ ﷺ کا تریسٹھ سال کی عمر میں وصال ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر کی عمریں بھی 63 سال تھیں (مسلم 6098)

نوٹ: ان تمام احادیث کو مختصر کر کے آسان انداز میں لکھ کر احادیث کے نمبر دے دئے ہیں، اگر پھر بھی کوئی غلطی ہو تو ضرور مطلع کریں اور غلطی بتانے والے کے لئے دعا ہے کہ اسے جنت ملے۔

اہلسنت: قرآن و سنت پر چلنے والے مسلمان کو اہلسنت کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اہلسنت چار مصلے اجماع امت عثمانیہ خلافت والے تھے جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ اسلئے ہر جماعت اپنا جواب دے۔

سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔

سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟

سوال: اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر ہیں، احادیث کی کتابیں بھی اہلسنت والی نہیں ہیں، ان کے علماء (زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی کُتب(الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کو حضورﷺ سے متصل نہیں بلکہ اپنے ڈپلیکیٹ امام سے منسوب کر کے بے بنیاد دین پر ہیں۔ اہلتشیع کا دین اہلکتاب عیسائی اور یہودی کی طرح ہے جنہوں نے اپنے دین میں منگھڑت عقائد بنا لئے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general