پیغمبر کی بات (حدیث)
پیغمبر کی بات کو صحابہ کرام نے سمجھ کر تابعین اور تابعین نے سمجھ کرتبع تابعین کو سمجھایا۔ اُس کے بعد محدثین (احادیث کو اکٹھا کرنے والوں نے) نے حضور ﷺ کی احادیث کو سمجھنے کے قانون بنائے تاکہ حضور ﷺ سے کوئی جھوٹ منسوب نہ کر سکے۔ حضور ﷺ سے جھوٹ منسوب کرنے کا مطلب اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا۔اب دیکھتے ہیں کہ محدثین پیغمبر کی بات (حدیث) کس کو کہتے ہیں:
پہلا سبق: حضور ﷺ نے اپنی زبان سے جوکچھ بیان کیا (قول)، حضور ﷺ نے جسطرح عمل کیا (فعل) اورحضور ﷺ کے سامنے کوئی کام کیا گیا مگرعلم ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے اس کام سے منع نہیں کیا (تقریر)، اسلئے حضور ﷺ کے (1) قول (2) فعل اور (3) تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
زیارت: حضور ﷺ کو ایمان کی حالت میں دیکھ کر ایمان کی حالت میں مرنے والے کو”صحابی“ اور صحابی کو ایمان کی حالت میں دیکھ کر اور ایمان کی حالت میں مر جانے والے کو”تابعی“ کہتے ہیں اور تابعی کو ایمان کی حالت میں دیکھ کر اور ایمان کی حالت میں مرنے والے کو”تبع تابعی“ کہتے ہیں۔
عادل: حضور ﷺ نے جب وصال کیا تو قرآن کو اکٹھا کر کے کتابی شکل نہیں دی گئی تھی اور حضور ﷺ کی احادیث کوتو بڑی بعد میں اکٹھا کیا گیا مگر ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ کرام (صحابہ اور اہلبیت دونوں کیونکہ یہ سب ایک ہیں) عادل ہیں، جنتی ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے، اسلئے حضور ﷺ کی حدیث کو صحابی نے سُنا اور تابعی کو بتایا اور تابعی نے تبع تابعین کو بتایا۔
دوسرا سبق: اب یہ دیکھنا ہے کہ ”متن حدیث“ اور ”سند حدیث“ کس کو کہتے ہیں، اب یہ حدیث غور سے پڑھیں ”حدثنا ابو الیمان قال اخبرنا شعیب قال حدثنا ابو الزناد عن الاعرج عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ قال والذی نفسی بیدہ لا یؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ“
حضور ﷺ کے فرمان کو ”متن حدیث کہتے ہیں جیسے اس حدیث میں متن یہ ہے ”قسم ہے اُس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنے والد اور اولاد سے زیادہ محبت نہ کرے“ اور راویوں کا وہ سلسلہ جومتن حدیث تک پہنچائے، اُسے ”سند حدیث“ کہتے ہیں جیسے ابوالیمان، شعیب، ابوالزناد، الاعرج،ابی ھریرہ اس حدیث کے راوی ہوئے۔
حدیث کی پہلی تعریف:رسول اللہ ﷺ سے متعلق راویوں کے ذریعے سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے، وہ حدیث کہلاتا ہے۔ حدیث کو بعض دفعہ سنت، خبر اور اثر بھی کہا جاتا ہے۔اب حدیث کی سند کے حوالے سے اقسام یہ ہیں:
۱) مرفوع: جس حدیث کی سند حضور ﷺ تک پہنچتی ہو اس کو مرفوع حدیث کہتے ہیں۔
مثال: عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله ﷺ بني الاسلام على خمس (حديث البخاري كتاب الايمان) سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
۲) موقوف: جس حدیث کی انتہا صحابہ کرام تک ہو اس کو موقوف کہتے ہیں جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
مثال :حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعرِفُونَ اَتُحِبُّونَ اَن يُّكَذَّبَ اللهُ ورسولُه بخاري باب من خَصَّ بالعلم قوماً دون قوم
لوگوں کو وہ چیز بیان کرو جسے وہ سمجھ سکیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔
۳) مقطوع: وہ حدیث جو حضور ﷺ اور صحابی سے منسوب نہ ہو بلکہ تابعی نے بیان کیا ہو
مثال: قول حسن بصري ’’صَلِّ وعليه بِدعَتُه‘‘ (بخاری باب امامۃ المفتون و المبتدع) ترجمہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لو اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا۔
حدیث کی دوسری تعریف:اس لئے اب سمجھیں کہ حضور ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔(باقی آئندہ قسط میں)
ہوم ورک: محدثین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بات (حدیث) کو 114000 صحابہ کرام نے سُنا (سماع) ہے اور صحابہ سے تابعین اور تابعین سے تبع تابعین نے سُنا اور پھر احادیث کتابی شکل میں سند اور متن کے ساتھ اکٹھی کی گئیں ہیں۔ اس پر اہلتشیع بے بنیاد مذہب سے سوال ہے:
سوال: حضور ﷺ کے کم و بیش 124000 صحابہ کرام (اہلبیت سمیت) نے ملکر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گذاری، احادیث کو بیان کیا جس میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ اہلتشیع کا کونسا ڈپلیکیٹ علی ہے جس نے قرآن بھی خود اکٹھا کیا اور حضور ﷺ کی مرفوع، موقوف، مقطوع احادیث کے راوی (صحابی، تابعین و تبع تابعین) کون کون ہیں؟
بے بنیاد مذہب: اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں اسناد اور راوی کے بغیر منگھڑت ہیں، حضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھوٹ منسوب ہے، اسلئے جب قرآن و سنت ہی نہیں تو فقہ جعفر کیسے سچی ہو سکتی ہے۔ اب جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر بنی ہو اُس کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ قصے اور کہانیوں کا نام اور الزامی سوالوں کا نام ”اسلام“ رکھا ہے۔ اللہ کرے مرنے سے پہلے کسی اہلتشیع کو سمجھ آ جائے۔
اتحاد امت: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی علماء کرام اہلسنت ہیں جنہوں نے 600 سال میں دین کی خوب خدمت کی اور اُس دور میں بہت سا علمی کام ہوا، البتہ سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ کے احتتام پر دُنیا کے اہلسنت کو بدعتی و مُشرک کہاجس سے امت مسلمہ کا نقصان ہوا۔
دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کا آپس میں اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کُفریہ عبارتیں ہیں۔ اگر دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو ان کے اکابر وہابی کے نزدیک بدعتی و مُشرک ہیں۔ اسلئے تقیہ بازی نہ کریں۔
ایک مصلہ: ساری دُنیا میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی طریقے سے قرآن و سنت کے مطابق نماز ادا کی جاتی ہے، اگر سعودی عرب نے ایک مصلے پر ساری دُنیا کو اکٹھا کیا ہے تو پھر دیوبندی کو حنفیت چھوڑ کر اور اہلحدیث کو غیر مقلدیت چھوڑ کو ”حنبلی“ طریقے سے نماز ادا کرنی چاہئے ورنہ مصلہ ایک نہیں ہے۔